مولانا واصل واسطی دوسری گذارش اس اعترض کے حوالے سے یہ ہے کہ اس حدیث کا معنی ومفہوم بھی اہلِ علم کو معلوم ہے اورانھوں نے اس مسئلے کا حل نکالا بھی ہے۔ بہت سارے محققین نے امام ابن جریر الطبری کی اس رائے کو اختیار کیا ہے ، کہ ،، سبعةاحرف ،، سے مراد مختلف قبیلوں کے لہجے...
غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 25)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے اسی مبحث میں اگے ،، سبعةاحرف ،، والی روایت کو تختہِ مشق بنایا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ،، یہاں ہوسکتاہے کہ ،، سبعة احرف ،، کی روایت بھی بعض لوگوں کے لیے الجھن کا باعث بنے ، موطا میں یہ روایت اس طرح بیان ہوئی ہے ،، عن عبدالحمن بن عبدالقاری...
نیشن سٹیٹ اور غامدی صاحب
ڈاکٹر تزر حسین غامدی صاحب اور حسن الیاس جب نیشن سٹیٹ کی بات کرتے ہیں تو وہ لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم نشین سٹیٹ کے دور میں جی رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے دینی فکر میں موجود اصظلاحات جدید دور میں قابل عمل نہیں اور اس چیز نے دینی فکر کو جمود کا شکار کردیا ہے۔ انکی...
غامدی صاحب کے تصور بیان کی اصولی مشکلات: “تاخیر البیان” کی روشنی میں
ڈاکٹر زاہد مغل برادر عمار خان ناصر صاحب نے اپنی کتاب "قرآن و سنت کا باہمی تعلق" کا ایک باب مولانا حمید الدین فراہی و مولانا امین احسن اصلاحی صاحبان اور ایک جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور بیان پر لکھ کر ان کی خصوصیات لکھی ہیں۔ آپ نے امام شافعی کے لسانیاتی منہج بیان...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 24)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی اپنے مدرسہِ فکر کی تعریف میں یوں مدح وثنا کی حدکرتے ہیں کہ ،، قران مجید پراگر اس کی نظم کی روشنی میں تدبّر کیا جائے تو اس کے داخلی شواہد بھی پوری قطعیت کے ساتھ یہی فیصلہ سناتے ہیں ۔مدرسہِ فراہی کے اکابر اہلِ علم نے جو کام اس زمانے میں قران...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 23)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے جو روایت ابوعبدالرحمن السلمی کے نام سے پیش کی ہے اس کے اخر میں یہ الفاظ ہیں ،، وکان زید قدشھد العرضة الاخیرة وکان یقرئ الناس بھا حتی مات ( میزان ص 29) اس روایت کی ابتدا میں بھی زید بن ثابت کا نام موجودہے مگر احباب کو یہ دیکھ کر بہت لطف...
مولانا عبد الحق خان بشیر
بسم الله الرحمن الرحیم
دورہ تفسیر کے کے لیے تشریف لانے والے میرے قابل احترام دوستو!۔
چند سال سے ، عصر حاضر کے بڑے اہم موضوع: جاوید احمد غامدی اور اس کے عقائد و نظریات کے سبق کے لیے (دورہ تفسیر کی) اس کلاس میں حاضر ہوتا ہوں۔ اس سال صحت اجازت نہیں دے رہی تھی۔ پیشاب کی بندش اور کینسر کی تکلیف کی وجہ سے۔ ہفتے کے دن میرا آپریشن ہے۔ لیکن دو وجہ سے حاضر ہو گیا ہوں۔ ایک تو بلوچ پٹھان سے بھی زیادہ ضدی ہوتے ہیں۔ اس لیے اُن کے حکم کی تحصیل پٹھان پر بھی واجب ہوتی ہے۔ (مولانا نواز صاحب “بلوچ” ہیں۔ اور میں پٹھان ہوں۔ لیکن (میں) نسوار اور پشتو کے بغیر (پٹھان ہوں)۔
اور دوسرا اس لیے حاضر ہو گیا ہوں کہ آپ اللہ کے مہمان ہیں، آپ حضرات میرے لیے دعا کریں گے تو اللہ رب العزت میری مشکلیں آسان فرمائیں گے۔
آج کھل کر بات ہوگی:۔
جو موضوع مجھے دیا گیا ہے، اُس کی تمہید بہت طویل ہے۔ لیکن آج صحت کی خرابی یا وقت کی قلت کی وجہ سے میں تمہید کی طرف نہیں جاؤں گا۔ چند اشارات کروں گا۔ اور اس کے بعد اپنے اصل موضوع کی طرف آؤں گا۔ چوں کہ میری طبیعت کا معاملہ بڑا حساس ہے۔ آج تک میں جو درس دیتا رہا ہوں یا سبق پڑھاتا رہا ہوں، اس میں اشارات اور کنایات سے بھی کام لیتا رہا ہوں۔ لیکن آج میں کسی بھی رعایت کے بغیر بہت کھل کے بات کروں گا۔ یہ سوچ کر کہ شاید یہ میری زندگی کا آخری سبق ہو۔
کیا قرآن سمجھنےکے لیے صرف نظم کلام و ادب جاہلی کافی ہے؟
ایک چیز جو آپ حضرات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کا یہ سب سے بڑا المیہ رہا ہے کہ قرآن کو اپنا من پسند مفہوم دینے کے لیے مختلف طریقے اپنائے گئے ہیں۔ کسی نے حدیث کا انکار کر دیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ ” امت کے اندر سب سے بڑا فتنہ حدیثِ رسول کا ہے (معاذ اللہ) کسی نے سنت کا انکار کر دیا ، کسی نے سنت کا دائرہ سکیڑ دیا، کسی نے اجماع کا انکار کر دیا، کسی نے صحابہ کا انکار کر دیا، کسی نے عقل کا سہارا لیا کسی نے نیچر کا سہارا لیا کسی نے لغت کا سہارا لیا، کسی نے تہذیب و ماحول کا سہارا لیا کہ: ” قرآن کی وہ تعبیر معتبر ہے جو ماحول اور حالات کے مطابق ہو۔ گویا ماحول قرآن کے تابع نہیں بلکہ قرآن ماحول کے تابع ہے۔ کسی نے جھوٹی وحی کا سہارا لیا مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح۔
لیکن گزشتہ صدی کے اندر ایک نیا تصور ابھرا ہے، فہم قرآن کے نام سے کہ: قرآن سمجھنے کے لیے نہ حدیث کی ضرورت ہے، نہ سنت کی ضرورت ہے، نہ اجماع کی ضرورت ہے، نہ عقل کی ضرورت ہے، نہ نیچر کی ضرورت ہے۔ قرآن سمجھنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے: ایک نظم کلام اور ایک ادب جاہلی۔ زمانہ جاہلیت کے ادبیوں کا جو کلام، جو ادب، جو شاعری ہے اُس کو سامنے رکھ کر ہم قرآن کو سمجھیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ اپنی سوچ کے مطابق ہم قرآن کا جائزہ لیں گے کہ قرآن کی یہ آیت کس ماحول میں اتری تھی، کن حالات میں اتری تھی، اس کا شان نزول کیا ہے؟ اگر وہ ماحول ہمارے ہاں پایا جاتا ہے تو قرآن کے اس حکم پر عمل ہوگا، اگر وہ ماحول نہیں پایا جاتا تو قرآن کے حکم پر عمل نہیں ہو گا۔ یہ طرز فکر سب سے پہلے مولانا حمید الدین فراہی نے دیا تھا جو شبلی نعمانی مرحوم کے شاگرد اور سید سلیمان ندوی کے ساتھی تھے۔
جس کے فکر کو ماننے والا صرف ایک شخص ہے، وہ امام العصر !!؟
آج کچھ لوگ انھیں (حمید الدین فراہی کو ”امام العصر“ کا خطاب دیتے ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ شاید ان لوگوں میں تعصب ہے یا وہ “امام” کا معنی نہیں جانتے۔ ایک آدمی جس کے فکر کو ماننے والا اُس کے شاگردوں میں سے صرف ایک ہے۔ اُس کے اساتذہ نے اس کے فکر کو مسترد کر دیا، اس کے ساتھیوں نے اس کے فکر کو مسترد کر دیا، اُس کے شاگردوں نے اس کے فکر کو مسترد کر دیا اور وہ امام العصر ہے۔ سبحان الہ
میں دو لفظوں میں ایک چیز سمجھانا چاہتا ہوں: نبوت اور امامت میں فرق یہی ہے۔ نبی کے لیے کسی ماننے والے کی حاجت نہیں ہوتی ، اُسے کوئی ماننے والا ہو تو بھی نبی ہے، ماننے والا نہ ہو تو بھی نبی ہے۔ لیکن امام کے لیے مقتدی اور مقلد کی ضرورت ہوتی ہے۔ مقلد اور مقتدی کے بغیر وہ امام نہیں۔ اب ایک آدمی (حمید الدین فراہی) کی اقتداء اور تقلید کرنے والا صرف ایک شخص امین احسن اصلاحی ہے۔ اور وہ (فراہی) امام العصر” ہے !! اور اس کے بارے میں تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ حمید الدین فراہی کے فکر کو جو نہیں مانتا وہ عقل کا اندھا ہے، بہروپیا ہے، وہ خسارے میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا معنی یہ ہے کہ اکابرین علمائے دیوبند میں سے اُس دور کے، حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ سے لے کر شیخ التفسیر امام احمد علی لاہوری رحمہ اللہ تک بلکہ اس کے بعد بھی کسی نے بھی اُس کے فکر کو نہیں مانا تو ان کے نزدیک العیاذ باللہ وہ سارے عقل کے اندھے ہیں۔ وہ سارے بہر وپیے ہیں، وہ سب خسارے میں ہیں۔
جاری
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 82)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی اگے لکھتے ہیں " قران کا یہی پس منظر ہے جس کی...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 81)
مولانا واصل واسطی رسولوں کے اتمامِ حجت کے خود ساختہ قاعدے کے متعلق ہم نے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 80)
مولانا واصل واسطی اس مذکورہ بالا مسئلہ میں جناب غامدی نے چند اور باتیں...