ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب نے بعض دینی تصورات خود سے وضع کئے ہیں یا پھر ان کی تعریف ایسی کی ہے جو خانہ زاد ہے۔ ان تصورات میں "نبوت" اور "رسالت" سب سے نمایاں ہیں۔ ان کے نزدیک انبیاء و رسل دونوں کا فارسی متبادل "پیغمبر" ہے۔ نبی بھی پیغمبر ہے اور رسول بھی پیغمبر ہے۔ مگر...
غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط دوم)
ڈاکٹر خضر یسین غامدی کے تصور "سنت" کے متعلق غلط فہمی پیدا کرنا ہمارا مقصد ہے اور نہ غلط بیانی ہمارے مقصد کو باریاب کر سکتی ہے۔ اگر غامدی صاحب کے پیش نظر "سنت" منزل من اللہ اعمال کا نام ہے اور یہ اعمال آنجناب علیہ السلام پر اسی طرح وحی ہوئے ہیں جیسے قرآن مجید ہوا ہے...
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط اول)
ڈاکٹر خضر یسین یہ خالصتا علمی انتقادی معروضات ہیں۔ غامدی صاحب نے اپنی تحریر و تقریر میں جو بیان کیا ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنی معروضات پیش کر رہے ہیں۔ محترم غامدی صاحب کے موقف کو بیان کرنے میں یا سمجھنے میں غلطی ممکن ہے۔ غامدی صاحب کے متبعین سے توقع کرتا ہوں،...
جناب جاوید احمد غامدی کی دینی سیاسی فکرکا ارتقائی جائزہ
ڈاکٹر سید متین احمد شاہ بیسویں صدی میں مسلم دنیا کی سیاسی بالادستی کے اختتام اور نوآبادیاتی نظام کی تشکیل کے بعد جہاں ہماری سیاسی اور مغرب کے ساتھ تعامل کی پالیسیوں پر عملی فرق پڑا ، وہاں ہماری دینی فکر میں بھی دور رس تبدیلیاں آئیں۔دینی سیاسی فکر میں سب سے بڑی تبدیلی...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 10)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی کےاس کلیہ پرہم نےمختصر بحث گذشتہ مضمون میں کی تھی ۔مگر احبابِ کرام اس کو تازہ کرنے کے لیے ذرا جناب غامدی کی عبارت کا وہ ٹکڑا ایک بار پھر دیکھ لیں وہ لکھتے ہیں ۔"پہلی ( بات) یہ کہ قران کے باہر کوئی وحی خفی یا جلی ، یہاں تک کے خداکا وہ...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 9)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے دوسری ایک ایسی بات لکھی ہے کہ جس کو ہم جیسے گناہ گار بندوں کو بھی کہنے سے ڈرلگتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ،، یہاں تک کہ خداکا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ (قران) نازل ہواہے ، اس کےکسی حکم کی تحدید وتخصیص یا اس میں کوئی ترمیم وتغیرنہیں کرسکتا ۔ پتہ...
مولانا عبد الحق خان بشیر
بسم الله الرحمن الرحیم
دورہ تفسیر کے کے لیے تشریف لانے والے میرے قابل احترام دوستو!۔
چند سال سے ، عصر حاضر کے بڑے اہم موضوع: جاوید احمد غامدی اور اس کے عقائد و نظریات کے سبق کے لیے (دورہ تفسیر کی) اس کلاس میں حاضر ہوتا ہوں۔ اس سال صحت اجازت نہیں دے رہی تھی۔ پیشاب کی بندش اور کینسر کی تکلیف کی وجہ سے۔ ہفتے کے دن میرا آپریشن ہے۔ لیکن دو وجہ سے حاضر ہو گیا ہوں۔ ایک تو بلوچ پٹھان سے بھی زیادہ ضدی ہوتے ہیں۔ اس لیے اُن کے حکم کی تحصیل پٹھان پر بھی واجب ہوتی ہے۔ (مولانا نواز صاحب “بلوچ” ہیں۔ اور میں پٹھان ہوں۔ لیکن (میں) نسوار اور پشتو کے بغیر (پٹھان ہوں)۔
اور دوسرا اس لیے حاضر ہو گیا ہوں کہ آپ اللہ کے مہمان ہیں، آپ حضرات میرے لیے دعا کریں گے تو اللہ رب العزت میری مشکلیں آسان فرمائیں گے۔
آج کھل کر بات ہوگی:۔
جو موضوع مجھے دیا گیا ہے، اُس کی تمہید بہت طویل ہے۔ لیکن آج صحت کی خرابی یا وقت کی قلت کی وجہ سے میں تمہید کی طرف نہیں جاؤں گا۔ چند اشارات کروں گا۔ اور اس کے بعد اپنے اصل موضوع کی طرف آؤں گا۔ چوں کہ میری طبیعت کا معاملہ بڑا حساس ہے۔ آج تک میں جو درس دیتا رہا ہوں یا سبق پڑھاتا رہا ہوں، اس میں اشارات اور کنایات سے بھی کام لیتا رہا ہوں۔ لیکن آج میں کسی بھی رعایت کے بغیر بہت کھل کے بات کروں گا۔ یہ سوچ کر کہ شاید یہ میری زندگی کا آخری سبق ہو۔
کیا قرآن سمجھنےکے لیے صرف نظم کلام و ادب جاہلی کافی ہے؟
ایک چیز جو آپ حضرات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کا یہ سب سے بڑا المیہ رہا ہے کہ قرآن کو اپنا من پسند مفہوم دینے کے لیے مختلف طریقے اپنائے گئے ہیں۔ کسی نے حدیث کا انکار کر دیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ ” امت کے اندر سب سے بڑا فتنہ حدیثِ رسول کا ہے (معاذ اللہ) کسی نے سنت کا انکار کر دیا ، کسی نے سنت کا دائرہ سکیڑ دیا، کسی نے اجماع کا انکار کر دیا، کسی نے صحابہ کا انکار کر دیا، کسی نے عقل کا سہارا لیا کسی نے نیچر کا سہارا لیا کسی نے لغت کا سہارا لیا، کسی نے تہذیب و ماحول کا سہارا لیا کہ: ” قرآن کی وہ تعبیر معتبر ہے جو ماحول اور حالات کے مطابق ہو۔ گویا ماحول قرآن کے تابع نہیں بلکہ قرآن ماحول کے تابع ہے۔ کسی نے جھوٹی وحی کا سہارا لیا مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح۔
لیکن گزشتہ صدی کے اندر ایک نیا تصور ابھرا ہے، فہم قرآن کے نام سے کہ: قرآن سمجھنے کے لیے نہ حدیث کی ضرورت ہے، نہ سنت کی ضرورت ہے، نہ اجماع کی ضرورت ہے، نہ عقل کی ضرورت ہے، نہ نیچر کی ضرورت ہے۔ قرآن سمجھنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے: ایک نظم کلام اور ایک ادب جاہلی۔ زمانہ جاہلیت کے ادبیوں کا جو کلام، جو ادب، جو شاعری ہے اُس کو سامنے رکھ کر ہم قرآن کو سمجھیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ اپنی سوچ کے مطابق ہم قرآن کا جائزہ لیں گے کہ قرآن کی یہ آیت کس ماحول میں اتری تھی، کن حالات میں اتری تھی، اس کا شان نزول کیا ہے؟ اگر وہ ماحول ہمارے ہاں پایا جاتا ہے تو قرآن کے اس حکم پر عمل ہوگا، اگر وہ ماحول نہیں پایا جاتا تو قرآن کے حکم پر عمل نہیں ہو گا۔ یہ طرز فکر سب سے پہلے مولانا حمید الدین فراہی نے دیا تھا جو شبلی نعمانی مرحوم کے شاگرد اور سید سلیمان ندوی کے ساتھی تھے۔
جس کے فکر کو ماننے والا صرف ایک شخص ہے، وہ امام العصر !!؟
آج کچھ لوگ انھیں (حمید الدین فراہی کو ”امام العصر“ کا خطاب دیتے ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ شاید ان لوگوں میں تعصب ہے یا وہ “امام” کا معنی نہیں جانتے۔ ایک آدمی جس کے فکر کو ماننے والا اُس کے شاگردوں میں سے صرف ایک ہے۔ اُس کے اساتذہ نے اس کے فکر کو مسترد کر دیا، اس کے ساتھیوں نے اس کے فکر کو مسترد کر دیا، اُس کے شاگردوں نے اس کے فکر کو مسترد کر دیا اور وہ امام العصر ہے۔ سبحان الہ
میں دو لفظوں میں ایک چیز سمجھانا چاہتا ہوں: نبوت اور امامت میں فرق یہی ہے۔ نبی کے لیے کسی ماننے والے کی حاجت نہیں ہوتی ، اُسے کوئی ماننے والا ہو تو بھی نبی ہے، ماننے والا نہ ہو تو بھی نبی ہے۔ لیکن امام کے لیے مقتدی اور مقلد کی ضرورت ہوتی ہے۔ مقلد اور مقتدی کے بغیر وہ امام نہیں۔ اب ایک آدمی (حمید الدین فراہی) کی اقتداء اور تقلید کرنے والا صرف ایک شخص امین احسن اصلاحی ہے۔ اور وہ (فراہی) امام العصر” ہے !! اور اس کے بارے میں تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ حمید الدین فراہی کے فکر کو جو نہیں مانتا وہ عقل کا اندھا ہے، بہروپیا ہے، وہ خسارے میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا معنی یہ ہے کہ اکابرین علمائے دیوبند میں سے اُس دور کے، حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ سے لے کر شیخ التفسیر امام احمد علی لاہوری رحمہ اللہ تک بلکہ اس کے بعد بھی کسی نے بھی اُس کے فکر کو نہیں مانا تو ان کے نزدیک العیاذ باللہ وہ سارے عقل کے اندھے ہیں۔ وہ سارے بہر وپیے ہیں، وہ سب خسارے میں ہیں۔
جاری
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 64)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی کے ،، استادامام ،، مولانا اصلاحی انہی آیاتِ...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 63)
مولانا واصل واسطی اب چند اور عبارتیں بھی سورتِ نحل ( 123) کے متعلق دیکھتے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 62)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے جیساکہ ہم نے اس کی طرف پہلے بارہا اشارات...