دین کیا ہے؟

Published On August 18, 2025
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی اگے سنت کے متعلق رقم طراز ہے کہ " دوم یہ کہ سنت قران کے بعد نہیں   بلکہ قران سے مقدم ہے ۔ اس لیے وہ لازما اس کے حاملین کے اجماع وتواتر ہی سے اخذ کی جائے گی ۔ قران میں اس کے جن احکام کا ذکر ہوا ہے   ان کی تفصیلات بھی اسی اجماع وتواتر پر...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 84)

مولانا واصل واسطی تیسری وجہ اس بنیاد کے غلط ہونے کی یہ ہے   کہ جناب غامدی نے قران مجید کی جن آیات کو اس کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیاہے اس کو تسلیم کرنے کے بعد بھی انسان یہ سمجھتاہے   کہ اس کو جو  ہدایت   دی گئی ہے اور جو " شعور " عطا کیاگیا ہے وہ محض اجمالی " معرفت...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 83)

مولانا واصل واسطی دوسری بات اس خلل کے متعلق یہ ہے کہ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ " شعورِخوب وناخوب کو اللہ تعالی نے انسانی فطرت میں ودیعت کیا ہے اور اسے ان کی فطرت میں رکھا ہے " اس بات تک وہ انسانی فطرت کے براہِ راست مطالعے کے نتیجے میں نہیں پہنچے ۔ نہ ان لوگوں نے براہِ...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 82)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی اگے لکھتے ہیں " قران کا یہی پس منظر ہے جس کی رعایت سے یہ چندباتیں اس کی شرح و تفصیل میں بطورِاصول ماننی چاہیئں (1) اول یہ کہ پورا دین خوب وناخوب کے شعور پر مبنی ان حقائق سے مل کر مکمل ہوتاہے جوانسانی فطرت میں روزِاول سے ودیعت ہیں ۔اور...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 81)

مولانا واصل واسطی رسولوں کے اتمامِ حجت کے خود ساختہ قاعدے کے متعلق ہم نے ان حضرات کے چاراصولوں کا تجزیہ گذشتہ مباحث میں کرکے دکھایا ہے کہ ان چار باتوں سے اس مدعا کا اثبات قطعا نہیں ہوتا ۔ آج اس سلسلے کی آخری اصول کے بابت ہم بات کرنا چاہتے ہیں ۔ اس بات کو ہم تین شقوں...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 80)

مولانا واصل واسطی اس مذکورہ بالا مسئلہ میں جناب غامدی نے چند اور باتیں بھی بطورِ اصول لکھی ہیں ۔ مگر ان میں سے بھی کوئی بات اوراصول بھی اپنے مدعا کامثبت نہیں ہے۔ جناب کی ایک عبارت کاخلاصہ یہ ہے  کہ جب کوئی نبی علیہ السلام اپنی قوم پرحجت پوری کرتا ہے   تو اس قوم پر پھر...

اویس پراچہ

جناب غامدی صاحب کو میں نے بہت زیادہ نہیں پڑھا، یعنی ایسا نہیں ہے کہ ان کی کتابیں تفصیل سے پڑھی ہوں اور ان کی آراء کا ایک ایک کر کے جائزہ لیا ہو۔ جتنا انہیں سنا اور پڑھا ہے اس کے بعد ضرورت ہی کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ جتنا سنا اور پڑھا ہے اس کے بعد میری ان کے حوالے سے رائے یہ ہے۔

ان کا انداز شستہ، الفاظ مناسب، بات سوچی سمجھی اور طرز دل میں اترنے والا ہوتا ہے۔ وہ مشکل ترین مباحث کو بہت آسان الفاظ میں اور ایک عام ذہن کے مطابق بیان کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بات یونی ورسٹیز اور کالجز میں بہت سنی جاتی ہے۔ ایک عام آدمی کو جب آپ کوئی مسئلہ لاجک سے سمجھاتے ہیں تو وہ اس کے دماغ کی گہرائی تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر آپ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہی چیز اسلاف میں بھی نظر آتی ہے۔ خصوصاً جب یونانی فلسفہ عام ہوا تو علم کلام اس میں مرتب ہوا۔ یہ اس زمانے کے پڑھے لکھے لوگوں کی سمجھ کے مطابق تھا لہذا اشاعرہ اور ماتریدیہ کو دونوں اہل سنت مسالک نے دیگر مسالک کے دلائل کو توڑ کر رکھ دیا۔ فقہ میں بھی امام اعظم رح کے اقوال میں یہی چیز نظر آتی ہے۔

لیکن دین کی ہر چیز نہ تو کامن لاجک ہوتی ہے اور نہ ہی زبان کی سلاست اور بیان کا کمال۔ دین نام ہے ان تعلیمات کا جو قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے فرامین سے ماخوذ ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے، آپ پر وحی نازل ہوئی، آپ نے وحی آگے پہنچائی۔ ہم اس وحی پر ایمان لاتے ہیں۔ کیوں لاتے ہیں؟ اس پر اگلی کسی پوسٹ میں بات کریں گے ان شاء اللہ۔ ہم ایمان اس لیے ہرگز نہیں لاتے کہ چونکہ ہم مسلمان ہیں تو ایمان لاتے ہیں۔ بلکہ ہم اسے عقل پر تول کر ایمان لاتے ہیں اور اسی کا خود اس وحی میں کہا گیا ہے۔

تو دین نام ہے ان تعلیمات کا جو نبی کریم ﷺ کے واسطے سے ہم تک آئیں۔ اب آپ تصور کیجیے کہ ایک صاحب ہیں آج سے پندرہ سو سال پہلے کے زمانے میں اور ان کا دعوی ہے کہ ان پر اللہ کی کتاب نازل ہو رہی ہے اور ہم یہ دعوی مان بھی رہے ہیں۔ تیس پاروں کی کتاب میں اگلے پندرہ سو سے لے کر نامعلوم سالوں تک کی ہر چیز تو بیان نہیں ہو سکتی، ورنہ اسے اس زمانے سے لے کر ہمیشہ کے لیے محفوظ کیسے کیا جائے گا؟ تو ہمارے پاس دوسری چیز کیا ہے؟ ان صاحب کے اپنے اقوال اور ان کا اپنا عمل۔ ظاہر ہے کہ جس پر اللہ کی کتاب نازل ہو رہی ہے وہ اس کے معانی سب سے بہتر جانتا ہوگا۔ پھر اللہ کی کتاب نے خود بھی کہہ دیا کہ رول ماڈل بھی یہی صاحب ہیں یعنی ان سے سن کر اور انہیں دیکھ کر عمل کرو تاکہ کوئی غلطی نہ ہو۔

لہذا دین نام ہے ان دو چیزوں کا: اللہ کی کتاب اور اس کتاب کے لانے والے کے اقوال اور افعال۔ نبی کریم ﷺ نے قرآن کریم سمیت جو کچھ بیان فرمایا یا عمل کیا وہ دیکھا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے۔ آپ کی بات کس ماحول میں کیسے کہی گئی؟ الفاظ کیسے تھے؟ لہجہ کیسا تھا؟ کیا مطلب بن رہا تھا؟ یہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا۔ ان سے زیادہ ظاہر ہے کہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ بعد والے وہ ماحول کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ تو یہ جو بنیادی طور پر کم و بیش سو سال کا عرصہ گزرا اس کے لوگ ہمارے لیے سورس ہیں اللہ کی کتاب اور اللہ کے نبی ﷺ کو سمجھنے کے لیے۔ اس ترتیب کو یہاں تک سمجھ لیجیے۔

بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی۔ ان لوگوں نے کس چیز کو کیسے سمجھا؟ یہ سب عربی میں ہے تو عرب میں اس زمانے میں کس لفظ کو کیا حیثیت حاصل تھی؟ سیاق و سباق کی کتنی اہمیت تھی؟ کوئی خاص واقعہ ہوا جس میں کوئی خاص آیت نازل ہوئی تو ان لوگوں نے اسے اس واقعے سے کتنا جوڑ کر رکھا؟ اس آیت کا ماحول ان لوگوں نے کیسے سمجھا؟ پھر چونکہ انسانوں کی سمجھ میں فرق ہوتا ہے تو اس سمجھ میں ان میں کیا اختلاف ہوا؟ یہ سب چیزیں فقہاء کرام نے اپنے پچھلے زمانے سے نکال کر علم فقہ کو ترتیب دیا ہے۔ ائمہ اربعہ کی بات کریں تو اگلے ڈیڑھ سو سال کے دوران یہ پیدا ہو کر فوت بھی ہو گئے ہیں۔ ذہن میں رکھیے کہ ائمہ اربعہ اور دیگر مجتہدین کا کام اس گزشتہ علم کو ترتیب دینے کا ہے، نہ کہ نیا دین بنانے کا۔

انہوں نے اپنے سے پہلے کے علم کو مرتب کر لیا۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے انہوں نے اصول مرتب کیے اور ان اصولوں پر مختلف انداز سے بحثیں بھی ان کے بعد ان کے شاگردوں میں ہوئیں۔ ان اصولوں اور ان کی بنیاد پر مسائل کو سمجھنے میں ان میں فرق بھی آیا جسے ہم فقہی اختلاف کہتے ہیں۔ اسی اختلاف کا فائدہ ہے کہ ہمیشہ مسائل اور ان کے دلائل پڑھے اور پڑھائے جاتے ہیں اور ایسا نہیں ہوتا کہ وہ کتابوں میں ہی رہ جائیں اور کتابیں ناپید ہو جائیں۔ یہ پورے ساڑھے چودہ سو سال کا علمی کام ہے۔ اس دوران جو نئے مسائل آئے انہیں بھی ان اصولوں کی روشنی میں دیکھا گیا اور مرتب کیا گیا۔

اب ایک شخص چودہ سو سال یعنی چودہ صدیوں کے بعد آئے، وہ اس تمام علم کو بڑی حد تک ایک سائیڈ پر رکھ دے، اپنے اصول بنائے یا مختلف جگہوں سے اخذ کر کے جمع کرے اور کہے کہ اس سے میں مسائل کو سمجھوں گا، تو ٹھیک ہے! ہم اسے درست مان لیتے ہیں۔ ائمہ اربعہ کے اصول کوئی قرآن و سنت تو نہیں ہیں۔ لیکن کیا ائمہ اربعہ کا زمانہ بھی اس شخص کو حاصل ہے؟ اس کے ارد گرد وہ خالص عربی بولی جاتی ہے جو قرآن کے زمانے کے قریب قریب ہے؟ اس کو ایک یا دو استادوں کے فاصلے سے قرآن کے زمانے والوں کی معلومات مل رہی ہیں؟ ابو حنیفہ حماد بن سلیمان سے علم حاصل کرتے ہیں اور وہ ابراہیم نخعی سے جو قرآن کے زمانے والوں میں زندگی گزارتے ہیں، کیا اس شخص کے پاس بھی یہ “ایج” ہے؟

یہ مسئلہ ہے جناب غامدی صاحب کا۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ استدلال کریں فقہاء کے انداز میں لیکن آج کے زمانے میں بیٹھ کر۔ آج کے زمانے میں ان کے پاس جو علم کے سورسز ہیں وہ کتابوں میں لکھے ہوئے الفاظ اور عقل ہیں، ماحول بتانے اور کیفیت سمجھانے والے افراد تو گزر گئے۔ دو سورسز سے مسائل اخذ کرنے کے جب اصول بنائے جائیں گے تو تیسرے سورس کی کمی لازماً موجود ہوگی اور یہ کمی پھر خود مسائل میں آنا شروع ہو جائے گی۔ چونکہ تیسرا سورس کتابی یا عقلی نہیں ہے تو اس کی کمی بھی لکھی ہوئی نظر نہیں آئے گی نہ ہی لاجک میں آئے گی، بلکہ وہ محسوس ہوگی۔

وہ عموماً اس شکل میں محسوس ہوتی ہے کہ غامدی صاحب کا نکتہ نظر دیگر امت سے ہٹ کر کھڑا ہوتا ہے۔ غامدی صاحب کا طرز بیان گو اسے کور کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ ظاہر بھی کرتا ہے کہ دیگر امت کو اس مسئلے کی سمجھ اس طرح نہیں آ سکی جیسے غامدی صاحب کو آئی ہے۔ اور یہی اصل مسئلہ ہے کہ تیسرے سورس کی موجودگی والوں کو اس مسئلے کی سمجھ ایسے کیوں نہیں آئی جیسے دو سورسز کی موجودگی میں غامدی صاحب کو آئی ہے؟ سمجھ کس کی ناقص ہوگی؟

چونکہ عموماً غامدی صاحب کے سامنے جو لوگ ہوتے ہیں وہ یا اتنا علم نہیں رکھتے اور یا بحث نہیں کرنا چاہتے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی رائے ہی مضبوط ہے۔ غامدی صاحب کا مطالعہ بھی وسیع ہے اور دلیل دینے کا انداز بھی پاورفل ہے جو ایک عام آدمی کے لیے بہت ہوتا ہے۔ لیکن جو شخص علم رکھتا ہو اسے واضح نظر آ رہا ہوتا ہے کہ جو مسئلہ یا اصول بیان ہو رہا ہے یہ دوسری جگہ جا کر کسی اور مسئلے یا اصول کو کیسے ہٹ کر رہا ہے اور انسان کو کس مخمصے میں پھنسا رہا ہے؟ اور اس کی سب سے بڑی وجہ میرے خیال میں سورسز کی کمی ہی ہے۔

باقی جہاں تک بات ہے کہ انہیں فنڈنگ کی جاتی ہے اور وہ منکر حدیث یا فلاں فلاں ہیں تو میرا خیال ہے کہ یہ سب زیب داستاں ہے۔ یہ الزامات آج کل ہمارے یہاں ہر کسی پر لگا دیے جاتے ہیں اور پھر “قرائن” کی روشنی میں انہیں ثابت بھی کیا جاتا ہے۔ یہ قرائن اکثر اتنے ہی مضبوط ہوتے ہیں کہ اگر شرعی عدالت ہوتی تو ان الزام لگانے والوں کو تعزیر میں کوڑے لگ جاتے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں غامدی صاحب سے جہاں اختلاف ہو وہاں ان کے بارے میں یہ سب الزامات سائیڈ پر رکھ کر علمی بنیادوں پر ہی رد ہونا چاہیے۔ یہی درست راستہ ہے اور اسی کی اہمیت ہوتی ہے۔ اور دوسرا اور اہم ترین کام حضرات علماء کرام کے لیے یہ ہے کہ غامدی صاحب سے گفتگو، اختلاف، طنز اور دلیل دینے کا انداز سیکھ لیں۔ اس کے بغیر گاڑھی اصطلاحات کے ساتھ ان کی غلطی واضح کرنا اور اپنی بات کو سمجھانا عوام میں مشکل ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…