ناقد : کاشف علی تلخیص : زید حسن غامدی صاحب سے جزئیات پر بات نہیں ہو سکتی ۔ دین کی دو تعبیرات ہیں ۔ ایک تعبیر کے مطابق اسلام سیاسی سسٹم دیتا ہے ۔ لیکن غامدی صاحب دوسری تعبیر کے نمائندہ ہیں کہ اسلام کوئی سسٹم نہیں دیتا ۔ دونوں تعبیرات کے مطابق نیچے کی جزئیات مختلف ہو...
فکرغامدی پر تنقید کا معیار
منبرِ جمعہ ، تصورِ جہاد : ایک نقد
ناقد : مولانا اسحق صاحب تلخیص : زید حسن اول ۔ یہ کہنا کہ جمعہ کا منبر علماء سے واپس لے لینا چائیے کیونکہ اسلامی تاریخی میں جمعہ کے منبر کا علماء کے پاس ہونا کہیں ثابت نہیں ہے ، یہ سربراہِ مملکت کا حق ہے اور علماء غداری کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔ ان ظالموں کی منطق بالکل...
علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ : قسط دوم
مفتی منیب الرحم علامہ غامدی نے کہا: ''میں نے بارہا عرض کیا : جامع مسجد ریاست کے کنٹرول میں ہونی چاہیے ،دنیا بھر میں ریاست کے کنٹرول میں ہوتی ہے ،ملائشیا میں ریاست کے کنٹرول میں ہے ،عرب ممالک میں ریاست کے کنٹرول میں ہے ،ہمارے ملک میں نہیں ہے ، ریاست یہ اِقدام نہیں...
علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ : قسط اول
مفتی منیب الرحمن ۔13مارچ کومیں نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میںمختصر بات کی ،اُس کے بعد علامہ جاوید احمد غامدی کو اپنی بات تفصیل سے کہنے کا موقع دیا گیا ۔میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بیانیہ جدید دور کی اصطلاح ہے ۔اصولی طور پر کسی ملک وقوم کا دستور ہی اُس کا اجتماعی...
اسرائیلی خونریزی اور جاوید احمد غامدی
تنویر قیصر شاہد اسرائیل کی وحشت اور دہشت کا عالم یہ ہے کہ وہ کسی ملک، عالمی ادارے یا قانون کو ماننے پر تیار نہیں۔ فلسطین کی ایک چھوٹی سی پٹّی ، غزہ، میں محصور فلسطینیوں کے خلاف صیہونی اسرائیلی افواج کو بروئے کار آئے ہُوئے آج ایک مہینہ اور تین دن ہو چکے ہیں۔ اِس...
کیا اللہ حقوق العباد معاف کر سکتا ہے ؟
ناقد : شیخ عبد اللہ ناصر رحمانی تلخیص : زید حسن غامدی صاحب کا عموم پر رکھتے ہوئے یہ کہنا کہ " حقوق العباد" معاف ہی نہیں ہوتے ، درست نہیں ہے ۔ اللہ اگر چاہے تو حقوق العباد بھی معاف کر سکتا ہے ۔" ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا " میں عموم ہے ۔ البتہ" ان اللہ لا یغفر ان یشرک...
سید اسد مشہدی
جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی دینی فکر پر تنقید کا عمل اب محض جذباتی یا سطحی نوعیت کی رائے زنی نہیں رہا بلکہ یہ آہستہ آہستہ ایک علمی و تحقیقی رجحان میں ڈھل کر اپنے معیاری عہد میں داخل ہو چکا ہے۔ اس سے قبل تقریباً گزشتہ بیس سال سے اگرچہ غامدی صاحب پر تنقید ہوتی رہی ہے، لیکن وہ تنقید اکثر سطحی، غیر منظم اور شخصی و الزامی قسم کی ہوا کرتی تھی جس کا فائدہ عملاً غامدی فکر ہی کو پہنچتا رہا۔ اب جبکہ یہ تنقید زیادہ علمی، اصولی اور تحقیقی خطوط پر جاری ہو گئی ہے، تو ایک نیا سوال سنجیدگی سے ابھر کر سامنے آیا ہے کہ غامدی فکر پر تنقید کے جواز اور عدمِ جواز کا معیار کیا ہونا چاہیے؟
غامدی صاحب کے حلقے کی طرف سے عمومی رویہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ وئی بھی نقد و انتقاد اس وقت معیاری قرار پائے گا جب وہ اس فکر کے “اصولی نظام” کو توڑے گا ۔ اصول و مبادی کو متاثر کئے بغیر جزئیات کی تردید غیر علمی و غیر منہجی رویہ کہلائے گی ، گویا ایک نئی تنقیدی اخلاقیات مرتب کی گئی ہے، جس کے مطابق تنقید تبھی قابلِ قبول ہے جب وہ “اصولوں پر ہو، فروع پر نہ ہو”، یا “علمی اخلاق” کے خاص معیارات پر پوری اترتی ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ معیارات کہاں سے اخذ کیے گئے ہیں؟
اسلامی علمی روایت میں دو دائروں “اصول اور اطلاق” میں ضرور فرق کیا گیا ہے مگر اس کا یہ مطلب کبھی نہیں رہا کہ اطلاقی نوعیت کے کسی انحراف پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ درحقیقت، اگر کوئی اطلاق کسی مخصوص اصولی فریم ورک کا براہ راست مظہر ہو، یا دینی مزاج سے متصادم ہو، تو روایت میں ایسی اطلاقی تنقید بھی اصولی دائرے میں سمجھی جاتی ہے۔
غامدی فکر کے کئی نمایاں مظاہر — جیسے نزولِ مسیحؑ، ظہورِ مہدی، یا رجم کی شرعی حیثیت کا انکار — صرف فروعی اجتہادات نہیں، بلکہ ان کے پیچھے ایک مکمل اصولی ڈھانچہ کارفرما ہے۔ یہ وہی فریم ورک ہے جو وحی، سنت اور حدیث کے مابین درجہ بندی اور تفریق کی ایک منفرد اسکیم پر مبنی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی انکار رجم کو غلط کہے تو وہ محض ایک فقہی رائے پر اعتراض نہیں کر رہا، بلکہ اس اصولی ڈھانچے پر سوال اٹھا رہا ہے جس نے یہ رائے پیدا کی ہے۔ اس لیے ایسی تنقید کو صرف “فروعات” کی حد میں محدود کر دینا، نہ صرف ایک علمی مغالطہ ہے بلکہ روایت کے تنقیدی مزاج کے بھی منافی ہے۔
یہاں ہمیں رک کر ایک بنیادی سوال کا سامنا ہے:۔
کیا ہم تنقید کے لیے روایت سے جڑے معیارات کو اختیار کریں گے یا ایک نئی “اخلاقی” زبان گھڑیں گے، جو صرف مخصوص فکر کو تحفظ دے سکے؟
غامدی فکر جس طرح روایت سے ایک خاص نوع کا فکری گریز اختیار کرتی ہے، اسی طرح اس پر ہونے والی تنقید کو روکنے کے لیے جو اخلاقی و علمی معیارات مرتب کیے جاتے ہیں، وہ بھی کم و بیش اسی انقطاعی مزاج کے آئینہ دار ہیں۔ اگر ہم اس فکر کو روایت سے جدا ایک “نیا اجتہاد” سمجھتے ہیں تو اس پر تنقید کا حق بھی ہمیں روایت کی روح سے اخذ کرنے دینا چاہیے — نہ کہ ایسی اخلاقی شرائط عائد کریں جن کی نظیر ہمیں ماضی کی فقہی و کلامی روایت میں نہیں ملتی۔
لہٰذا، ایک طرف غامدی فکر کو روایت سے الگ راستے پر کھڑا کرنا اور دوسری طرف اس پر ہونے والی تنقید کو غیر روایتی، غیر اخلاقی، یا غیر علمی کہہ کر رد کر دینا، خود ایک فکری تضاد ہے۔ اگر غامدی فکر کو ایک نئے اجتہادی منہج کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے تو اسی فکر پر اصولی سطح کی تنقید بھی اتنی ہی جائز اور علمی ہونی چاہیے۔ یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ تنقید کا حق صرف مطابقتِ مزاج سے نہیں، بلکہ مطابقتِ استدلال سے طے ہوتا ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
قرآن اور غامدی صاحب
ایک تحریر میں ہم غامدی صاحب کی قرآن کی معنوی تحریف کی چند مثالیں پیش...
جاوید احمد غامدی کا گھناونا انحراف متعلق بعقیدہ
اول : قرآن کے مختلف مشاہدہ/تجزیے کا انکار قرآن کی صرف ایک قرات...
غامدی صاحب: تصوف اور غارحرا کی روایات
ڈاکٹر خضر یسین کیا غار حرا اور اس سے وابستہ واقعات پر مروی احادیث واقعتا...