فکرغامدی پر تنقید کا معیار

Published On August 11, 2025
حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

ڈاکٹر زاہد مغل مشرف بیگ اشرف جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور تبیین پر نقد کا سلسلہ جاری ہے جس میں یہ واضح کیا گیا کہ ان کے تصور تبیین کی نہ صرف یہ کہ لغت میں کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ یہ اس لفظ کے قرآنی محاورے و استعمالات کے بھی خلاف ہے۔ تاہم غامدی صاحب یہ تاثر بھی...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

ڈاکٹر زاہد مغل  توحید کا چوتھا درجہ: توحید وجودی اب توحید کے چوتھے درجے کی بات کرتے ہیں جس پر سب سے زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے اور جسے غامدی صاحب نے کفار و مشرکین جیسا عقیدہ قرار دے کر عظیم ضلالت قرار دیا ہے۔ علم کلام کے مباحث میں اس درجہ توحید کی گفتگو کو "توحید...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ دوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ دوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صحابہ کرام کا عمل اور رویہ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم اور احادیث رسول میں کوئی فرق نہیں کیا اور دونوں کو نہ صرف یکساں واجب الاطاعت جانا بلکہ احادیث کو قرآن ہی کا حصہ گردانا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ دوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ اول

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ماہنامہ الشریعہ میں مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ کے کتابچے ’’غامدی صاحب کا تصور حدیث وسنت‘‘ کا اور ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت بنام ’’الشریعہ کا طرز فکر اور پالیسی: اعتراضات واشکالات کا جائزہ‘‘ کا اشتہار دیکھا تو راقم نے نہایت ذوق وشوق کے...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط اول

ڈاکٹر زاہد مغل تعارف جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب "برہان" میں تصوف کے موضوع کو تختہ مشق بناتے ہوئے اکابر صوفیاء کرام بشمول امام غزالی پر ضلالت اور کفریہ و شرکیہ  نظریات فروغ دینے کے فتوے جاری فرمائے ہیں۔ نیز ان کے مطابق حضرات صوفیاء کرام نے خدا کے دین کے...

جمعے کی امامت اور غامدی صاحب کا نقطۂ نظر

جمعے کی امامت اور غامدی صاحب کا نقطۂ نظر

الیاس نعمانی ندوی ماہنامہ اشراق (بابت ماہ اپریل ۲۰۰۸ء) کے شذرات کے کالم میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی گفتگو پر مبنی ایک تحریر نظر نواز ہوئی ہے۔ عنوان ہے: ’’جمعے کی امامت‘‘۔ اسی کی بابت کچھ عرض کرنے کا اس وقت ارادہ ہے۔ غامدی صاحب کا حاصل مدعا خود انہی کے الفاظ میں...

سید اسد مشہدی

جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی دینی فکر پر تنقید کا عمل اب محض جذباتی یا سطحی نوعیت کی رائے زنی نہیں رہا بلکہ یہ آہستہ آہستہ ایک علمی و تحقیقی رجحان میں ڈھل کر اپنے معیاری عہد میں داخل ہو چکا ہے۔ اس سے قبل تقریباً گزشتہ بیس سال سے اگرچہ غامدی صاحب پر تنقید ہوتی رہی ہے، لیکن وہ تنقید اکثر سطحی، غیر منظم اور شخصی و الزامی قسم کی ہوا کرتی تھی جس کا فائدہ عملاً غامدی فکر ہی کو پہنچتا رہا۔ اب جبکہ یہ تنقید زیادہ علمی، اصولی اور تحقیقی خطوط پر جاری ہو گئی ہے، تو ایک نیا سوال سنجیدگی سے ابھر کر سامنے آیا ہے کہ غامدی فکر پر تنقید کے جواز اور عدمِ جواز کا معیار کیا ہونا چاہیے؟

غامدی صاحب کے حلقے کی طرف سے عمومی رویہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ وئی بھی نقد و انتقاد اس وقت معیاری قرار پائے گا جب وہ اس فکر کے “اصولی نظام” کو توڑے گا ۔ اصول و مبادی کو متاثر کئے بغیر جزئیات کی تردید غیر علمی و غیر منہجی رویہ کہلائے گی ، گویا ایک نئی تنقیدی اخلاقیات مرتب کی گئی ہے، جس کے مطابق تنقید تبھی قابلِ قبول ہے جب وہ “اصولوں پر ہو، فروع پر نہ ہو”، یا “علمی اخلاق” کے خاص معیارات پر پوری اترتی ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ معیارات کہاں سے اخذ کیے گئے ہیں؟

اسلامی علمی روایت میں دو دائروں “اصول اور اطلاق” میں ضرور فرق کیا گیا ہے مگر اس کا یہ مطلب کبھی نہیں رہا کہ اطلاقی نوعیت کے کسی انحراف پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ درحقیقت، اگر کوئی اطلاق کسی مخصوص اصولی فریم ورک کا براہ راست مظہر ہو، یا دینی مزاج سے متصادم ہو، تو روایت میں ایسی اطلاقی تنقید بھی اصولی دائرے میں سمجھی جاتی ہے۔

غامدی فکر کے کئی نمایاں مظاہر — جیسے نزولِ مسیحؑ، ظہورِ مہدی، یا رجم کی شرعی حیثیت کا انکار — صرف فروعی اجتہادات نہیں، بلکہ ان کے پیچھے ایک مکمل اصولی ڈھانچہ کارفرما ہے۔ یہ وہی فریم ورک ہے جو وحی، سنت اور حدیث کے مابین درجہ بندی اور تفریق کی ایک منفرد اسکیم پر مبنی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی انکار رجم کو غلط کہے تو وہ محض ایک فقہی رائے پر اعتراض نہیں کر رہا، بلکہ اس اصولی ڈھانچے پر سوال اٹھا رہا ہے جس نے یہ رائے پیدا کی ہے۔ اس لیے ایسی تنقید کو صرف “فروعات” کی حد میں محدود کر دینا، نہ صرف ایک علمی مغالطہ ہے بلکہ روایت کے تنقیدی مزاج کے بھی منافی ہے۔

یہاں ہمیں رک کر ایک بنیادی سوال کا سامنا ہے:۔
کیا ہم تنقید کے لیے روایت سے جڑے معیارات کو اختیار کریں گے یا ایک نئی “اخلاقی” زبان گھڑیں گے، جو صرف مخصوص فکر کو تحفظ دے سکے؟

غامدی فکر جس طرح روایت سے ایک خاص نوع کا فکری گریز اختیار کرتی ہے، اسی طرح اس پر ہونے والی تنقید کو روکنے کے لیے جو اخلاقی و علمی معیارات مرتب کیے جاتے ہیں، وہ بھی کم و بیش اسی انقطاعی مزاج کے آئینہ دار ہیں۔ اگر ہم اس فکر کو روایت سے جدا ایک “نیا اجتہاد” سمجھتے ہیں تو اس پر تنقید کا حق بھی ہمیں روایت کی روح سے اخذ کرنے دینا چاہیے — نہ کہ ایسی اخلاقی شرائط عائد کریں جن کی نظیر ہمیں ماضی کی فقہی و کلامی روایت میں نہیں ملتی۔

لہٰذا، ایک طرف غامدی فکر کو روایت سے الگ راستے پر کھڑا کرنا اور دوسری طرف اس پر ہونے والی تنقید کو غیر روایتی، غیر اخلاقی، یا غیر علمی کہہ کر رد کر دینا، خود ایک فکری تضاد ہے۔ اگر غامدی فکر کو ایک نئے اجتہادی منہج کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے تو اسی فکر پر اصولی سطح کی تنقید بھی اتنی ہی جائز اور علمی ہونی چاہیے۔ یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ تنقید کا حق صرف مطابقتِ مزاج سے نہیں، بلکہ مطابقتِ استدلال سے طے ہوتا ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…