مولانا واصل واسطی قراءآتِ متواترہ پراعتراضات کے سلسلے کا اخری ٹکڑا یہ ہے جس میں جناب غامدی لکھتے ہیں کہ ،، ان کی ابتدا ہوسکتا ہے کہ عرضہِ اخیرہ سے پہلے کی قراءآت پر بعض لوگوں کا اصرار اور ان کے راویوں کے سہو ونسیان سے ہوئی ہو لیکن بعد میں انہی محرکات کے تحت جووضعِ...
فکرغامدی پر تنقید کا معیار
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 31)
مولانا واصل واسطی تیسری گذارش اس آخری اعتراض کے سلسلے میں یہ ہے کہ ،، لیث بن سعد ،، کے جس خط کا حوالہ جناب غامدی نے دیا ہے اس سے پہلے دوفقروں میں اس کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے رکھ دیا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ ،، اس کے ساتھ اگر ان کے وہ خصائص بھی پیشِ نظر رہیں جوامام لیث...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 30)
مولانا واصل واسطی چوتھے اعتراض میں جناب غامدی لکھتے ہیں کہ ،، یہی معاملہ ان روایتوں کا بھی ہے جو سیدنا صدیق اور ان کے بعد سیدنا عثمان کے دور میں قرآن کی جمع وتدوین سے متعلق حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔ قران جیسا کہ اس بحث کی ابتداء میں بیان ہوا ، اس معاملے میں...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 29)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی مسئلہِ قراءآت پر چوتھا اعتراض یوں کرتے ہیں "کہ اس میں بعض دیگر چیزیں بھی ملاکر خوب زہرآلود جام بناکرعوام کے سامنے پلانے کےلیے رکھ دیتے ہیں ، ملاحظہ ہو ،، چہارم یہ کہ ہشام کے بارے میں معلوم ہے کہ فتحِ مکہ کے دن ایمان لائے تھے لہذااس روایت...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 28)
مولانا واصل واسطی تیسرااعترض جناب غامدی نے اس روایت پر یہ کیاہے کہ ،، سوم یہ کہ اختلاف اگر الگ الگ قبیلوں کے افراد میں بھی ہوتا تو ،، انزل ،، کالفظ اس روایت میں ناقابلِ توجیہ ہی تھا اس لیے کہ قران نے اپنے متعلق پوری صراحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے کہ وہ قریش کی زبان میں...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 27)
مولانا واصل واسطی تیسری گزارش جناب غامدی کے اس قول کے حوالے سے یہ ہے کہ اس حدیث کا معنی صرف معما ہے ۔کوئی بھی اس معما کو امت کی تاریخ میں حل نہیں کرسکا بلکہ وہ حدیث بے معنی ہے ۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ امت نے اس کا مفہوم سمجھ لیا تھا تب ہی تو انھوں اس کے متعلق ،، اجماع...
سید اسد مشہدی
جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی دینی فکر پر تنقید کا عمل اب محض جذباتی یا سطحی نوعیت کی رائے زنی نہیں رہا بلکہ یہ آہستہ آہستہ ایک علمی و تحقیقی رجحان میں ڈھل کر اپنے معیاری عہد میں داخل ہو چکا ہے۔ اس سے قبل تقریباً گزشتہ بیس سال سے اگرچہ غامدی صاحب پر تنقید ہوتی رہی ہے، لیکن وہ تنقید اکثر سطحی، غیر منظم اور شخصی و الزامی قسم کی ہوا کرتی تھی جس کا فائدہ عملاً غامدی فکر ہی کو پہنچتا رہا۔ اب جبکہ یہ تنقید زیادہ علمی، اصولی اور تحقیقی خطوط پر جاری ہو گئی ہے، تو ایک نیا سوال سنجیدگی سے ابھر کر سامنے آیا ہے کہ غامدی فکر پر تنقید کے جواز اور عدمِ جواز کا معیار کیا ہونا چاہیے؟
غامدی صاحب کے حلقے کی طرف سے عمومی رویہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ وئی بھی نقد و انتقاد اس وقت معیاری قرار پائے گا جب وہ اس فکر کے “اصولی نظام” کو توڑے گا ۔ اصول و مبادی کو متاثر کئے بغیر جزئیات کی تردید غیر علمی و غیر منہجی رویہ کہلائے گی ، گویا ایک نئی تنقیدی اخلاقیات مرتب کی گئی ہے، جس کے مطابق تنقید تبھی قابلِ قبول ہے جب وہ “اصولوں پر ہو، فروع پر نہ ہو”، یا “علمی اخلاق” کے خاص معیارات پر پوری اترتی ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ معیارات کہاں سے اخذ کیے گئے ہیں؟
اسلامی علمی روایت میں دو دائروں “اصول اور اطلاق” میں ضرور فرق کیا گیا ہے مگر اس کا یہ مطلب کبھی نہیں رہا کہ اطلاقی نوعیت کے کسی انحراف پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ درحقیقت، اگر کوئی اطلاق کسی مخصوص اصولی فریم ورک کا براہ راست مظہر ہو، یا دینی مزاج سے متصادم ہو، تو روایت میں ایسی اطلاقی تنقید بھی اصولی دائرے میں سمجھی جاتی ہے۔
غامدی فکر کے کئی نمایاں مظاہر — جیسے نزولِ مسیحؑ، ظہورِ مہدی، یا رجم کی شرعی حیثیت کا انکار — صرف فروعی اجتہادات نہیں، بلکہ ان کے پیچھے ایک مکمل اصولی ڈھانچہ کارفرما ہے۔ یہ وہی فریم ورک ہے جو وحی، سنت اور حدیث کے مابین درجہ بندی اور تفریق کی ایک منفرد اسکیم پر مبنی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی انکار رجم کو غلط کہے تو وہ محض ایک فقہی رائے پر اعتراض نہیں کر رہا، بلکہ اس اصولی ڈھانچے پر سوال اٹھا رہا ہے جس نے یہ رائے پیدا کی ہے۔ اس لیے ایسی تنقید کو صرف “فروعات” کی حد میں محدود کر دینا، نہ صرف ایک علمی مغالطہ ہے بلکہ روایت کے تنقیدی مزاج کے بھی منافی ہے۔
یہاں ہمیں رک کر ایک بنیادی سوال کا سامنا ہے:۔
کیا ہم تنقید کے لیے روایت سے جڑے معیارات کو اختیار کریں گے یا ایک نئی “اخلاقی” زبان گھڑیں گے، جو صرف مخصوص فکر کو تحفظ دے سکے؟
غامدی فکر جس طرح روایت سے ایک خاص نوع کا فکری گریز اختیار کرتی ہے، اسی طرح اس پر ہونے والی تنقید کو روکنے کے لیے جو اخلاقی و علمی معیارات مرتب کیے جاتے ہیں، وہ بھی کم و بیش اسی انقطاعی مزاج کے آئینہ دار ہیں۔ اگر ہم اس فکر کو روایت سے جدا ایک “نیا اجتہاد” سمجھتے ہیں تو اس پر تنقید کا حق بھی ہمیں روایت کی روح سے اخذ کرنے دینا چاہیے — نہ کہ ایسی اخلاقی شرائط عائد کریں جن کی نظیر ہمیں ماضی کی فقہی و کلامی روایت میں نہیں ملتی۔
لہٰذا، ایک طرف غامدی فکر کو روایت سے الگ راستے پر کھڑا کرنا اور دوسری طرف اس پر ہونے والی تنقید کو غیر روایتی، غیر اخلاقی، یا غیر علمی کہہ کر رد کر دینا، خود ایک فکری تضاد ہے۔ اگر غامدی فکر کو ایک نئے اجتہادی منہج کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے تو اسی فکر پر اصولی سطح کی تنقید بھی اتنی ہی جائز اور علمی ہونی چاہیے۔ یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ تنقید کا حق صرف مطابقتِ مزاج سے نہیں، بلکہ مطابقتِ استدلال سے طے ہوتا ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 5)
مولانا واصل واسطی ہم نے اوپر جناب غامدی کی ایک عبارت پیش کی ہے کہ ،،...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 4)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی صاحب آگے اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ " دین...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 3)
مولانا واصل واسطی گذشتہ بحث سے معلوم ہوا کہ جناب غامدی نے ،، سنت ،، کی...