وقار اکبر چیمہ تعارف دینِ اسلام میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے انسان کو عطاء کئے گئے مال میں سے صرف ایک تہائی پر اسے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اس کی وصیت جس کو چاہے کر سکتا ہے۔ جبکہ باقی مال اس کی موت کے بعد اسی وراثت کے قانون کے تحت تقسیم کیا جائے گا جسے اللہ نے...
فکرغامدی پر تنقید کا معیار
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 2)
مولانا واصل واسطی ہم نے پہلی پوسٹ میں لکھاہے کہ جناب غامدی کلی طور پرمنکرِحدیث ہیں ، کہ وہ حدیث کو سرے سے ماخذِدین اور مصدرِشریعت نہیں مانتے ، انہوں نے اپنی فکرکی ترویج کے لیے جن اصطلاحات کو وضع کیاہے ان میں سے ایک اصطلاح ،، سنت ،، کی بھی ہے ، عام علماء کرام ،، حدیث...
فراہی مکتب فکر کا قطعی الدلالت: جناب ساجد حمید صاحب کی تحریر سے مثال
ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب کے شاگرد محترم ساجد حمید صاحب نے کسی قدر طنز سے کام لیتے ہوئے اصولیین کے اس تصور پر تنقید کی ہے کہ الفاظ قرآن کی دلالت ظنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بگاڑ کی اصل وجہ امام شافعی ہی سے شروع ہوجاتی ہے جس میں اصولیین، فلاسفہ و صوفیا نے بقدر...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 1)
مولانا واصل واسطی ہم نے یہ بات اپنی مختلف پوسٹوں میں صراحت سے بیان کی ہے ، کہ جناب جاوید غامدی، غلام احمدپرویز کی طرح بالکل منکرِحدیث ہیں ۔البتہ ان کا یہ فلسفہ پیچ درپیچ ہے ، وہ اس لیے کہ انھوں نے پرویز وغیرہ کا انجام دیکھ لیا ہے ، اب اس برے انجام سے وہ بچنا چاھتے...
قطعی و ظنی الدلالۃ: امام شافعی پر جناب ساجد حمید صاحب کے نقد پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل جناب ساجد حمید صاحب نے اپنی تحریر “قرآن کیوں قطعی الدلالۃ نہیں؟”میں فرمایا ہے کہ امت میں یہ نظریہ امام شافعی اور ان سے متاثر دیگر اصولیین کی آرا کی وجہ سے راہ پا گیا ہے کہ الفاظ قرآن کی دلالت قطعی نہیں۔ آپ نے امام شافعی کی کتاب الرسالۃ سے یہ تاثر دینے...
امام رازی اور قانون کلی کی تنقید پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل اہل علم متکلمین و اصولیین کے ہاں “قانون کلی ” کی بحث سے واقف ہیں۔ اس بحث کو لے کر شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے امام غزالی رحمہ اللہ کو ضمناً جبکہ امام رازی رحمہ اللہ کو بالخصوص شد و مد سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ امام رازی پر اعتراض یہ ہے کہ ان کے...
سید اسد مشہدی
جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی دینی فکر پر تنقید کا عمل اب محض جذباتی یا سطحی نوعیت کی رائے زنی نہیں رہا بلکہ یہ آہستہ آہستہ ایک علمی و تحقیقی رجحان میں ڈھل کر اپنے معیاری عہد میں داخل ہو چکا ہے۔ اس سے قبل تقریباً گزشتہ بیس سال سے اگرچہ غامدی صاحب پر تنقید ہوتی رہی ہے، لیکن وہ تنقید اکثر سطحی، غیر منظم اور شخصی و الزامی قسم کی ہوا کرتی تھی جس کا فائدہ عملاً غامدی فکر ہی کو پہنچتا رہا۔ اب جبکہ یہ تنقید زیادہ علمی، اصولی اور تحقیقی خطوط پر جاری ہو گئی ہے، تو ایک نیا سوال سنجیدگی سے ابھر کر سامنے آیا ہے کہ غامدی فکر پر تنقید کے جواز اور عدمِ جواز کا معیار کیا ہونا چاہیے؟
غامدی صاحب کے حلقے کی طرف سے عمومی رویہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ وئی بھی نقد و انتقاد اس وقت معیاری قرار پائے گا جب وہ اس فکر کے “اصولی نظام” کو توڑے گا ۔ اصول و مبادی کو متاثر کئے بغیر جزئیات کی تردید غیر علمی و غیر منہجی رویہ کہلائے گی ، گویا ایک نئی تنقیدی اخلاقیات مرتب کی گئی ہے، جس کے مطابق تنقید تبھی قابلِ قبول ہے جب وہ “اصولوں پر ہو، فروع پر نہ ہو”، یا “علمی اخلاق” کے خاص معیارات پر پوری اترتی ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ معیارات کہاں سے اخذ کیے گئے ہیں؟
اسلامی علمی روایت میں دو دائروں “اصول اور اطلاق” میں ضرور فرق کیا گیا ہے مگر اس کا یہ مطلب کبھی نہیں رہا کہ اطلاقی نوعیت کے کسی انحراف پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ درحقیقت، اگر کوئی اطلاق کسی مخصوص اصولی فریم ورک کا براہ راست مظہر ہو، یا دینی مزاج سے متصادم ہو، تو روایت میں ایسی اطلاقی تنقید بھی اصولی دائرے میں سمجھی جاتی ہے۔
غامدی فکر کے کئی نمایاں مظاہر — جیسے نزولِ مسیحؑ، ظہورِ مہدی، یا رجم کی شرعی حیثیت کا انکار — صرف فروعی اجتہادات نہیں، بلکہ ان کے پیچھے ایک مکمل اصولی ڈھانچہ کارفرما ہے۔ یہ وہی فریم ورک ہے جو وحی، سنت اور حدیث کے مابین درجہ بندی اور تفریق کی ایک منفرد اسکیم پر مبنی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی انکار رجم کو غلط کہے تو وہ محض ایک فقہی رائے پر اعتراض نہیں کر رہا، بلکہ اس اصولی ڈھانچے پر سوال اٹھا رہا ہے جس نے یہ رائے پیدا کی ہے۔ اس لیے ایسی تنقید کو صرف “فروعات” کی حد میں محدود کر دینا، نہ صرف ایک علمی مغالطہ ہے بلکہ روایت کے تنقیدی مزاج کے بھی منافی ہے۔
یہاں ہمیں رک کر ایک بنیادی سوال کا سامنا ہے:۔
کیا ہم تنقید کے لیے روایت سے جڑے معیارات کو اختیار کریں گے یا ایک نئی “اخلاقی” زبان گھڑیں گے، جو صرف مخصوص فکر کو تحفظ دے سکے؟
غامدی فکر جس طرح روایت سے ایک خاص نوع کا فکری گریز اختیار کرتی ہے، اسی طرح اس پر ہونے والی تنقید کو روکنے کے لیے جو اخلاقی و علمی معیارات مرتب کیے جاتے ہیں، وہ بھی کم و بیش اسی انقطاعی مزاج کے آئینہ دار ہیں۔ اگر ہم اس فکر کو روایت سے جدا ایک “نیا اجتہاد” سمجھتے ہیں تو اس پر تنقید کا حق بھی ہمیں روایت کی روح سے اخذ کرنے دینا چاہیے — نہ کہ ایسی اخلاقی شرائط عائد کریں جن کی نظیر ہمیں ماضی کی فقہی و کلامی روایت میں نہیں ملتی۔
لہٰذا، ایک طرف غامدی فکر کو روایت سے الگ راستے پر کھڑا کرنا اور دوسری طرف اس پر ہونے والی تنقید کو غیر روایتی، غیر اخلاقی، یا غیر علمی کہہ کر رد کر دینا، خود ایک فکری تضاد ہے۔ اگر غامدی فکر کو ایک نئے اجتہادی منہج کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے تو اسی فکر پر اصولی سطح کی تنقید بھی اتنی ہی جائز اور علمی ہونی چاہیے۔ یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ تنقید کا حق صرف مطابقتِ مزاج سے نہیں، بلکہ مطابقتِ استدلال سے طے ہوتا ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
No Results Found
The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.