ناقد : کاشف علی تلخیص : زید حسن غامدی صاحب سے جزئیات پر بات نہیں ہو سکتی ۔ دین کی دو تعبیرات ہیں ۔ ایک تعبیر کے مطابق اسلام سیاسی سسٹم دیتا ہے ۔...
مظلومینِ غزہ اور حسن الیاس کا بے رحم تبصرہ
منبرِ جمعہ ، تصورِ جہاد : ایک نقد
ناقد : مولانا اسحق صاحب تلخیص : زید حسن اول ۔ یہ کہنا کہ جمعہ کا منبر علماء سے واپس لے لینا چائیے کیونکہ اسلامی تاریخی میں جمعہ کے منبر کا علماء کے...
جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال
مقرر : مولانا طارق مسعود تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے جمعے کی نماز کی فرضیت کا بھی انکار کر دیا ہے ۔ اور روزے کی رخصت میں بھی توسیع فرما دی ہے ۔...
عورت کی امامت اور غامدی صاحب
مقرر : مولانا طارق مسعود تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے عورت کی امامت کو جائز قرار دے دیا ہے ۔ اور دلیل یہ ہے کہ ایسی باقاعدہ ممانعت کہیں بھی نہیں...
مسئلہ رجم اور تکفیرِ کافر
مقرر : مولانا طارق مسعود تلخیص : زید حسن اول - جاوید احمد غامدی نے رجم کا انکار کیا ہے ۔ رجم کا مطلب ہے کہ شادی شدہ افراد زنا کریں تو انہیں سنگسار...
واقعہ معراج اور غامدی صاحب
مقرر : مولانا طارق مسعود تلخیص : زید حسن جسمانی معراج کے انکار پر غامدی صاحب کا استدلال " وما جعلنا الرؤیا التی" کے لفظ رویا سے ہے ۔حالانکہ یہاں...
محمد بلال
بغیر حسن کی نیت پر شک کیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی یہ پوسٹ ایک طرف مظلوموں کا مذاق اڑانے کی کوشش ہے اور دوسری طرف لبرل اور نیولبرل بیانیے کی جگالی۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے کسی کو زندگی میں سگریٹ پینے سے روکا جائے اور پھر اس کی قبر پر کھڑے ہو کر کہا جائے: “ہن آرام اے۔” سقوطِ عراق پر نوحہ لکھنے والے غامدی صاحب کے جانشین سے یہ توقع نہیں تھی۔۔
ڈاکٹر قاسم زمان، جو پاکستان کی مذہبی علمی روایت کے مستند ترین محققین میں سے ایک ہیں، واضح طور پر کہتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں جتنے بھی غیر روایتی مذہبی علماء (سید مودودی، ڈاکٹر اسرار، غلام احمد پرویز، جناب جاوید احمد غامدی) گزرے ہیں، سبھی نے آمریت کو سپورٹ کیا۔ ایوب خان، ضیاءالحق، پرویز مشرف، سبھی کی حمایت میں روایتی علماء کے ساتھ ساتھ غیر روایتی مذہبی سکالرز کی کوششیں بھی ریکارڈ پر ہیں۔ تاریخی طور پر حسن صاحب اسی روایت کا تسلسل ہیں۔ چنانچہ عصر حاضر کے سب سے بڑے ظالم و جابر کی خاموش حمایت کرتے ہیں۔
جیسا کہ آڈری لارڈ نے کہا:
“The master’s tools will never dismantle the master’s house.” (1984)
یعنی ظالم کے اوزار کبھی بھی ظلم کے قلعے کو نہیں گرا سکتے۔۔۔
حسن صاحب فرماتے ہیں کہ ہم غاصب ریاست کے مظالم کے حامی نہیں، ہم تو صرف “مسلح تنظیم” کی حکمتِ عملی کو “مجرمانہ” قرار دیتے ہیں۔ یہ یا تو لاعلمی ہے یا پھر۔۔۔ خیر رہنے دیجیے۔۔۔
حسن صاحب کے لیے شاید یہ سمجھنا مشکل ہے کہ مظلوم کی مزاحمت کو ناجائز قرار دینا درحقیقت ظالم کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ جب آپ تنقید کا محور صرف مظلوم کو بناتے ہیں تو طاقتور کا بیانیہ مزید مستحکم ہوتا ہے۔
اگر حسن صاحب کوئی نئی بات کرتے تو ہم سمجھتے کہ شاید وہ غور و فکر کے بعد ان نتائج تک پہنچے ہیں، مگر جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ دراصل لبرل اور نیولبرل بیانیے کی گھسی پٹی جگالی ہے، کم از کم ہمیں ان سے اس کی توقع نہیں تھی۔۔
لبرل اخلاقیات کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ نہ صرف خود ظلم کرتی ہیں بلکہ مظلوم کو یہ بھی سکھانا چاہتی ہیں کہ ظلم سے بچنے کا “صحیح” طریقہ کیا ہے۔ یہ مظلوم کو ایک مخصوص طرز کا احساس کرنا بھی سکھاتی ہیں کہ ظالم کے ظلم کو محسوس کیسے کرنا ہے۔ جیسے آپ کو لوگ یوں کہتے نظر آئیں گے کہ یہ لوگ اپنی چھوڑ کے چلے کیوں نہیں جاتے۔ یہ لوگ پرامن جدوجہد کیوں نہیں کرتے یا یہ مسلح جدوجہد چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ اس مشورہ میں اور مظلوموں کی حکمت عملی کو مجرمانہ قرار دینے میں ذرہ برابر فرق نہیں ہے۔ کیونکہ دونوں صورتیں مآل کار ظالم کے ہاتھ مضبوط کرنے پر منتج ہوتی ہیں۔۔
لبرل بیانیہ مظلوموں سے کہتا ہے:
“پہلے تعلیم حاصل کرو، ترقی کرو، پھر مزاحمت کرنا، یا پھر اپنے مطالبات پیش کرنا”۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلح جدوجہد کو ہر موقع پر ناقابلِ قبول حکمت عملی قرار دینا بجائے خود ایک سیاسی ہتھیار ہے۔ لبرل ازم مظلوموں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ “پرامن” رہیں تاکہ ان کی آواز سنی جا سکے، حالانکہ تاریخ بار بار ثابت کر چکی ہے کہ طاقتور کے خلاف پرامن احتجاج کبھی بھی ثمر آور ثابت نہیں ہوا۔۔
اب حسن صاحب اور غامدی صاحب کے “مظلوم قوم” پر موقف میں اور لبرل آئیڈیاز میں کوئی فرق نکال کر دکھائیں۔ یہ وہی دلائل ہیں جو اتنی بار رد ہو چکے کہ اب تو خود لبرلز بھی اس موضوع پر شرمندگی سے نظریں چرا لیتے ہیں۔۔
“پہلے علم حاصل کرو، پھر لڑو” جیسے دلائل دنیا کے سب سے زیادہ “علم دشمن” دلائل میں سے ہیں۔ کیونکہ علم اور طاقت ہمیشہ ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ علم کا ڈھانچہ آج طاقت کے مراکز کے قبضے میں ہے۔ جس قوم پر بمباری ہو رہی ہو، جسے محاصرے اور پابندیوں میں جکڑا گیا ہو، اس سے علم کے حصول کا مطالبہ کرنا ظلم کے خلاف جدوجہد کو غیر معینہ مدت تک مؤخر کرنے کے مترادف ہے۔۔
ظلم کے خلاف مزاحمت آج کا تقاضا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چار نسلوں کے بعد تیاری مکمل ہو گی۔ نسل کشی میں دوسری نسل بچتی ہی نہیں، تو مزاحمت کی تیاری کب اور کیسے مکمل ہو گی؟
غیر مسلح جدوجہد کی کامیابی کو واحد راستہ سمجھنا تاریخ سے مکمل نابلد ہونے کی علامت ہے۔ کیا نازیوں کے خلاف یہودیوں نے پرامن جدوجہد سے آزادی حاصل کی تھی؟ کیا روس نیٹو کے سامنے ہتھیار ڈال کر بیٹھ جائے؟ یا کیا یوکرین روسی بمباری کی وجہ سے اپنی آزادی کو تیاگ دے؟ کیا نیلسن منڈیلا اور آئرلینڈ کے حریت پسند پرامن لوگ تھے؟ اگر تاریخ پڑھنی ہے تو مکمل پڑھنی چاہیے، صرف لبرل عینک لگا کر پڑھی گئی تاریخ غلط منزل تک پہنچاتی ہے۔۔
لبرل بیانیہ مظلوم سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ “اپنی باری کا انتظار کرے” اور سست اصلاحات کے ذریعے تبدیلی کا خواب دیکھے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہو سکتا ہے کہ آپ مظلوم سے کہیں کہ مرتے رہو، اور ساٹھ ہزار بچے، خواتین، اور بوڑھوں کی موت کے باوجود وہ ظالم کا ہاتھ روکنے پہ راضی نہ ہو۔۔
آخر میں سوال یہ ہے:
حسن صاحب، آپ کون ہیں؟ اس مسئلے میں نہ آپ کا کوئی سٹیک ہے، نہ کوئی تاریخی ٹراما۔ آپ کو یہ حق کس نے دیا کہ آپ لاکھوں مجبور اور بے کس انسانوں کی مزاحمتی حکمت عملی کو “مجرمانہ” کہیں؟ ایڈورڈ سعید نے اس مسئلے پر بات کی کیونکہ یہ اس کی اپنی شناخت، اس کا اپنا دکھ اور اس کا اپنا ذاتی تاریخی سٹیک تھا۔ آپ خدائی لہجے میں نسل کشی کا شکار لاکھوں مظلوموں کے موقف کو مجرمانہ قرار دیتے وقت کیوں بھول جاتے ہیں کہ طاقت اور ظالم کی حرکیات نے آپ کے استاد اور ہمارے مخدوم جناب جاوید صاحب کو بھی جلا وطنی پر مجبور کر دیا تھا۔ ان سے پوچھیے گا کہ کیا وہ امریکا میں خوش ہیں؟ کیا انہیں اپنی سر زمین کی یاد نہیں آتی؟ کیا ان کا ٹراما ٹراما ہے اور لاکھوں مظلوموں کا ٹراما اس قدر بے وقعت کہ اس پر مجرمانہ کی پھبتی کسی جائے۔۔۔۔۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
قرار دادِ مقاصد اور حسن الیاس
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے داماد فرماتے ہیں:۔خود کو احمدی...
تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (2)
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد ڈاکٹر اسرار احمد پر طنز اور استہزا کا اسلوب اب اس...
تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (1)
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے داماد نے یکسر جہالت کا مظاہرہ کرتے...