ہزاروں تعداد میں غیر متکلم فیہ اخبار آحاد قطعی ہیں اور اخبار آحاد کا علی الاطلاق ظنی ہونے کا نظریہ گمراہی پر مبنی ہے ۔
غامدی صاحب کا یہ نظریہ کہ اخبار آحاد محض ظنی ہوتی ہیں، اس لیے وہ کسی عقیدہ یا عمل کو واجب نہیں کر تیں، بلکہ صرف اس شخص پر حجت ہیں جسے ان کی صحت کا انفرادی یقین حاصل ہو جائے، ایک باطل اور مردود موقف ہے۔
اصول حدیث اور اصول فقہ کے مسلمہ قواعد کے مطابق، اخبار آحاد کے علی الاطلاق ظنی ہونے کا تصور ونظریہ درست نہیں، کیونکہ
محدثین و اصولیین کے نزدیک کثیر ایسی اخبار آحاد موجود ہیں جو قرائن قطعیہ کے باعث قطعی الثبوت کے درجہ تک پہنچ چکی ہیں۔
امام ابن الصلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إن أحاديث الصحيحين مقطوع بصحتها لتلقي الأمة لها بالقبول، والإجماع حجة قطعية
اور مزید کہتے بين:
«ما اتفق البخاري ومسلم على إخراجه فهو مقطوع بصدق مخبره ثابت يقيناً لتلقي الأمة ذلك بالقبول، وذلك يفيد العلم النظري، وهو في إفادة العلم كالمتواتر”
یعنی بخاری و مسلم کی متفق علیہ احادیث قطعی الثبوت ہیں کیونکہ انہیں امت کا اجماعی تلقی بالقبول حاصل ہے، اور یہی چیز ان کی ظنیت کو ختم کر کے انہیں علم نظری کے درجے تک پہنچادیتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہر قسم کے شک و تردد سے بالاتر اور یقینی ہے۔
اگر چہ امام نووی، عز الدین اور بعض متاخرین نے امام ابن الصلاح کے اس قول پر اعتراض کیا، تاہم حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب” النکت” میں ان تمام اعتراضات کا مفصل جواب دیا اور واضح کیا کہ ابن الصلاح کا مدعا یہ نہیں تھا کہ امت نے بخاری و مسلم کی تمام احادیث پر عمل کے اعتبار سے اجماع کیا ہے ، بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ امت نے ان دونوں کتابوں کی احادیث کو صحت کے اعتبار سے اجماعی طور قبول کیا ہے۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
إن ما أخرجه الشيخان مقطوع بصحته . فنقل العراقي عن ابن عبد السلام أن هذا قول بعض المعتزلة إذ يرون أن الأمة إذا عملت بحديث اقتضى ذلك القطع بصحته ونقل عن النووي أنه لا يفيد إلا الظن فأجاب الحافظ: عن ابن الصلاح بأنه لم يقل إن الأمة أجمعت على العمل بما فيهما وكيف يسوغ له أن يطلق ذلك والأمة لم تجمع على العمل بما فيهما إلا من حيث الجملة لا من حيث التفصيل …. وإنما نقل ابن الصلاح أن الأمة أجمعت على تلقيهما بالقبول من حيث الصحة” ، ثم نقل الحافظ عن جماعة من العلماء كإمام الحرمين وابن فورك وعبد الوهاب المالكي والبلقيني وعن جمع من علماء المذاهب ما يؤيد مذهب ابن الصلاح، بل نقل عن ابن تيمية أن الخبر إذا تلقته الأمة بالقبول تصديقا له وعملا بموجبه أفاد العلم عند جماهير العلماء من السلف والخلف وهو الذي ذكره جمهور المصنفين في أصول الفقه فذكر جماعة منهم من الحنفية والمالكية والشافعية والحنابلة ثم قال: وهو قول أكثر
هل الكلام من الأشاعرة وغيرهم …. ومذهب أهل الحديث قاطبة
حافظ فرماتے ہیں کہ امام ابن صلاح کی بات کا یہ مطلب نہیں کہ متفق علیہ روایات پر امت نے عمل کے اعتبار اجماع کیا ہے بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ ایسی روایات کی صحت پر امت کا اجماع ہے ۔ که امت کا یه تلقی بالقبول بخاری و مسلم کی احادیث کو قطعی الثبوت بناتا ہے۔
یہی نہیں پھر ابن حجر نے اسے جمہور کا بھی متفقہ موقف قرار دیا اور لکھتے ہیں : امام الحرمين، ابن فورک، عبدالوہاب المالکی البلقینی ابن الصلاح کے موقف کی تائید کرتے ہیں، ان کے ساتھ ساتھ ابن تیمیہ سے بھی نقل کیا کہ جب کوئی خیر امت کے نزدیک تصدیقاً وعملاً متلقاة بالقبول ہو جائے تو وہ علم (یقین) کا فائدہ دیتی ہے، اور یہی جمہورسلف و خلف اصولیین اور اہل حدیث کا متفقہ موقف ہے “۔
یہ چیز واضح کرتی ہے صحیحین کی متفق علیہ روایات کی صحت پر امت کا اجماع ہےاور یہ متفق علیہ احادیث قطعی الثبوت ہیں، اگر چہ وہ قطعی الدلالہ نہیں۔
ان سے حاصل ہونے والا علم ” علم نظری” ہے ( ظنی نہیں ) جو یقین کا درجہ رکھتا ہے، محض ظن کا نہیں۔ یہی جمہور اہل علم ، متکلمین اشاعرہ، اصولیین مذاہب اربعہ ، اور اہل حدیث کا مسلم موقف ہے۔
لہذا غامدی صاحب کا یہ دعوی کہ اخبار آحاد مطلقا ظنی ہیں اور ان سے کوئی قطعی علم یا واجب العمل عقید یا حکم ثابت نہیں ہوتا، نہ صرف محمد ثین کے منہج کے خلاف ہے بلکہ جمہور اصولیین و متکلمین کے اجماعی اصول سے بھی انحراف ہے ۔
در حقیقت صحیحین کی متفق علیہ روایات امت کے اجماعی تلقی بالقبول کی بنا پر قطعی الثبوت کے مرتبہ پر فائز ہیں، اور ان سے حاصل ہونے والے علم نظری ( بعض صورتوں میں تواتر ) کا انکار دراصل ایک اجماعی مسئلہ کا انکار وانحراف ہے۔ جو ایک باطل ومردود نظریہ ہے اور وہ غامدی بھگت جو وال وال پر ظنی ہیں ظنی ہیں کی تصویر لٹکا کر بھاگ جاتے ہیں یہ ان کی جہالت ، فسق ، بدعت اعتقادی کا قطعی الثبوت اعلان ہے ۔