قرآن و سنت کا باہمی تعلق

Published On November 26, 2025
جاوید احمد غامدی کے منطقی مغالطے

جاوید احمد غامدی کے منطقی مغالطے

عمران شاہد بھنڈر کوئی بھی خیال جب ایک قاعدے کے تحت اصول بن جاتا ہے تو پھر صرف اس سے انکار یا اس کا استرداد اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے کہ جن حقائق پر اس اصول کی تشکیل ہوئی ہے، انہیں باطل ثابت کر دیا جائے۔ بصورتِ دیگر منطقی اصول کی صلابت کو کچھ فرق نہیں پڑتا، البتہ معترض...

تبیین و تخصیص اور غامدی صاحب کا موقف : دلیلِ مسئلہء رجم کا جائزہ: دوسری قسط

تبیین و تخصیص اور غامدی صاحب کا موقف : دلیلِ مسئلہء رجم کا جائزہ: دوسری قسط

ڈاکٹر زاہد مغل محترم جناب غامدی صاحب “رجم  کی سزا” پر لکھے گئے اپنے  مضمون میں کہتے ہیں کہ قرآن مجید اور کلام عرب کے اِن شواہد سے صاف واضح ہوتا ہے کہ ’تبیین‘ کا لفظ کسی معاملے کی حقیقت کو کھول دینے ، کسی کلام کے مدعا کو واضح کر دینے اور کسی چیز کے خفا کو دور کر کے...

خوابِ ابراہیم ؑ اور مکتبِ فراہی کا موقف ( ایک نقد)

خوابِ ابراہیم ؑ اور مکتبِ فراہی کا موقف ( ایک نقد)

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مولانا فراہی نے یہ تاویل اختیار کی ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خواب سے اصل مقصود یہ تھا کہ وہ اپنے اکلوتے / پہلوٹھے بیٹے کو بیت اللہ کی خدمت کے لیے خاص کردیں۔ اس تاویل کے لیے ان کا بنیادی انحصار ان احکام پر ہے جوتورات میں ان لوگوں...

تبیین و تخصیص اور غامدی صاحب کا موقف : دلیلِ مسئلہء رجم کا جائزہ: دوسری قسط

تبیین و تخصیص اور غامدی صاحب کا موقف : دلیلِ مسئلہء رجم کا جائزہ: پہلی قسط

ڈاکٹر زاہد مغل محترم جناب غامدی صاحب “رجم  کی سزا” پر لکھے گئے اپنے  مضمون میں کہتے ہیں کہ قرآن مجید اور کلام عرب کے اِن شواہد سے صاف واضح ہوتا ہے کہ ’تبیین‘ کا لفظ کسی معاملے کی حقیقت کو کھول دینے ، کسی کلام کے مدعا کو واضح کر دینے اور کسی چیز کے خفا کو دور کر کے...

امریکی جہاد اور غامدی صاحب کے بدلتے بیانیے

امریکی جہاد اور غامدی صاحب کے بدلتے بیانیے

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد دو ہزار ایک (2001ء) میں غامدی صاحب نے فرمایا تھا کہ افغانستان پر امریکی حملہ دہشت گردی نہیں تھا۔ ارتقا کے منازل طے کرنے کے بعد 2019ء میں غامدی صاحب نے اسے ظلم و عدوان کےخلاف جہاد کی مثال قرار دیا! مزید دو سال بعد امریکا کو بے آبرو ہو کر...

رعایتِ صلاۃ میں غامدی صاحب کے قطعی الدلالۃ کا حال

رعایتِ صلاۃ میں غامدی صاحب کے قطعی الدلالۃ کا حال

ڈاکٹر زاہد مغل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قطعی الدلالۃ کے موضوع پر مکتب فراہی کے ابہامات پر متعدد انداز سے بات ہوچکی۔ ایک مثال لیجیے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ جب تم سفر کے لئے نکلو تو تمہارے لئے نماز قصر کرنے میں کچھ حرج نہیں۔ اس آیت سے ماخوذ دیگر احکام کے علاوہ...

علی کاظمی

قران وسنت ( حدیث ) کا باھمی تعلق تابع ومتبوعیت یا حاکم ومحکومیت کا نہیں ، دونوں مستقل بالذات تشریعی ماخذ ہیں۔
جاوید احمد غامدی صاحب کا ایک کلپ آج کل گردش میں ہے جس میں وہ “اہل بیت کی تعیین اور مصداق” کے حوالے سے موجود احادیث وروایات کو قران کے” تابع اور محکوم” قرار دے کر ان کو خلاف قران ثابت کرتے ہیں پھر ان کی اس بنیاد پر نفی کرتے ہیں ۔
اس حوالہ سے اصولی بات یہ ہے کہ سنت واحادیث کا قران سے باھمی تعلق تابع ومتبوعیت کا نہیں ہے بلکہ دونوں مستقل بالذات تشریعی ماخذ ومطاع کی حیثیت رکھتے ہیں ( ثقاھت واستناد کے حوالہ سے احادیث کے درجات میں تفاوت کا اعتبار کرتے ھوئے )
اور حدیث کے زریعہ قران سے کسی زائد موقف کا مستقلا استدلال استخراج واستنباط کیا جاسکتا ہے اور یہ ایک اصولی مسلمہ ہے۔اور اس طرح کی ہزاروں مثالیں فقہ وکلام میں موجود ہیں جس میں حدیث کے زریعہ قران سے زائد واضافہ پر مبنی احکام کی تخریج کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ حدیث قران کے اجمال وابہام کی تشریح وتفسیر ، اس کے عموم کی تخصیص ، اس کے مطلق کی تقیید ، اس کے اماکن ورجال کی تعیین کا بھی ایک مستقل مربوط واصولی نظم رکھتی ہے۔
ڈاکٹر عمار خان ناصر صاحب کی حال ھی میں آنے والی کتاب ” قران وسنت کا باھمی تعلق ” میں عمار صاحب نے اس طرح کی تابعیت ومتبوعیت کے نظریہ کو “خارجیانہ حرفیت پسندی” قرار دیا ہے جس میں حدیث یہاں تک خبر واحد کے زریعہ بھی کیے جانے والے زوائد واضافہ جات کے انکار کا رویہ اپنایا گیا ھو۔
عمار صاحب نے کم وبیش دس ایسی مثالیں ذکر کرنے کے بعد جس میں خوارج نے قران کے ظاہر سے ٹکرانے والی احادیث اور اس سے مستنبط شدہ احکام کا انکار کرتے ھوئے ایسی کمی بیشی کا انکار کیا ہے کے طرز عمل پر نقد کیا ہے۔اور اس کے مقابلے میں صحابہ وتابعین کے عمل کو معیاری قرار دیا گیا ہے ۔
غامدی صاحب اگرچہ سنت کو اپنے مخصوص فہم میں قران سے مقدم مانتے ہیں اور ایک مخصوص دائرہ میں خبر واحد کی حجیت کے بھی قائل ہیں لیکن ان کی “حقیقی اصول پسندی” یہ ہے کہ “غامدی صاحب کے کوئی اصول نہیں” اور اپنی قطعی ، سنت متواترہ ، اتمام حجت ، جیسی مصطلحات سے وہ کسی دینی امر کو چیستاں بنانے کے علاوہ کسی اور دینی تحقیق ، اور اسکالر شپ کا فریضہ انہوں نے سرانجام نہیں دیا ۔
اور ان مصطلحات کو انہوں کیمو فلاج اور شکار کرنے کے لیے اپنا رکھا ہے ورنہ ان کا اصل اصول ” تناظر اور سیچویشن ” ہے ۔ وہ ایک تناظر میں کوئی اور بات کہتے ہیں دوسری صورتحال موجود ھو تو اپنی استدلالی ملمع سازی کے ساتھ پورے اہتمام و ثقاھت کے ساتھ دوسرا نقطہ نظر اپنا لیتے ہیں۔
مذکورہ وڈیو میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ ان کی ابہام گوئی اپنے عروج پر ہے اور وہ اھل بیت کی تعیین میں حدیث کساء اور دیگر روایات کو ایک عمومی غیر اصولی اصطلاح کی بھینٹ چڑھا کر ( قران کی تابعیت نامی ) آگے بڑھ جاتے ہیں اور اس امر کی کوئی تنقیح نہیں کرتے کہ خود ان کی “مصطلحات ” ( برہان ومیزان ) میں خبر واحد کے جو مستعملات ہیں تبیین تخصیص تنسیخ زیادت ان مصلحات واصول کی رو سے یہ حدیث کس درجہ پر فائز ہے اور اس کے انکار کی وجوھات واسباب کیا ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

No Results Found

The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.