اخبارِ آحاد کی ظنیت اور غامدی صاحب

Published On November 26, 2025
قرآن مجید کو سرگذشت قرار دینا کیوں غلط ہے؟

قرآن مجید کو سرگذشت قرار دینا کیوں غلط ہے؟

جہانگیر حنیف غامدی صاحب نے قرآن مجید کو ”سر گذشتِ انذار“ قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں: ”اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن ایک رسول کی سرگذشتِ انذار ہے۔“¹  قرآن مجید کے نذیر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن اسے ”سرگذشت“ قرار دینے سے بہت سے علمی و ایمانی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں...

فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

جہانگیر حنیف غامدی صاحب کو چونکہ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، لہذا میں اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ غامدی صاحب کے ہاں ایمان کا مسئلہ نہیں۔ انھوں نے جو مسئلہ پیدا کیا ہے، وہ علمی نوعیت کا ہے۔ وہ دین کو فرد کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ دین کا آفاقی پہلو ان کی...

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

علی کاظمی

ہزاروں تعداد میں غیر متکلم فیہ اخبار آحاد قطعی ہیں اور اخبار آحاد کا علی الاطلاق ظنی ہونے کا نظریہ گمراہی پر مبنی ہے ۔
غامدی صاحب کا یہ نظریہ کہ اخبار آحاد محض ظنی ہوتی ہیں، اس لیے وہ کسی عقیدہ یا عمل کو واجب نہیں کر تیں، بلکہ صرف اس شخص پر حجت ہیں جسے ان کی صحت کا انفرادی یقین حاصل ہو جائے، ایک باطل اور مردود موقف ہے۔
اصول حدیث اور اصول فقہ کے مسلمہ قواعد کے مطابق، اخبار آحاد کے علی الاطلاق ظنی ہونے کا تصور ونظریہ درست نہیں، کیونکہ محدثین و اصولیین کے نزدیک کثیر ایسی اخبار آحاد موجود ہیں جو قرائن قطعیہ کے باعث قطعی الثبوت کے درجہ تک پہنچ چکی ہیں۔
امام ابن الصلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إن أحاديث الصحيحين مقطوع بصحتها لتلقي الأمة لها بالقبول، والإجماع حجة قطعية
اور مزید کہتے بين:
«ما اتفق البخاري ومسلم على إخراجه فهو مقطوع بصدق مخبره ثابت يقيناً لتلقي الأمة ذلك بالقبول، وذلك يفيد العلم النظري، وهو في إفادة العلم كالمتواتر”
یعنی بخاری و مسلم کی متفق علیہ احادیث قطعی الثبوت ہیں کیونکہ انہیں امت کا اجماعی تلقی بالقبول حاصل ہے، اور یہی چیز ان کی ظنیت کو ختم کر کے انہیں علم نظری کے درجے تک پہنچادیتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہر قسم کے شک و تردد سے بالاتر اور یقینی ہے۔
اگر چہ امام نووی، عز الدین اور بعض متاخرین نے امام ابن الصلاح کے اس قول پر اعتراض کیا، تاہم حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب” النکت” میں ان تمام اعتراضات کا مفصل جواب دیا اور واضح کیا کہ ابن الصلاح کا مدعا یہ نہیں تھا کہ امت نے بخاری و مسلم کی تمام احادیث پر عمل کے اعتبار سے اجماع کیا ہے ، بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ امت نے ان دونوں کتابوں کی احادیث کو صحت کے اعتبار سے اجماعی طور قبول کیا ہے۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
إن ما أخرجه الشيخان مقطوع بصحته . فنقل العراقي عن ابن عبد السلام أن هذا قول بعض المعتزلة إذ يرون أن الأمة إذا عملت بحديث اقتضى ذلك القطع بصحته ونقل عن النووي أنه لا يفيد إلا الظن فأجاب الحافظ: عن ابن الصلاح بأنه لم يقل إن الأمة أجمعت على العمل بما فيهما وكيف يسوغ له أن يطلق ذلك والأمة لم تجمع على العمل بما فيهما إلا من حيث الجملة لا من حيث التفصيل …. وإنما نقل ابن الصلاح أن الأمة أجمعت على تلقيهما بالقبول من حيث الصحة” ، ثم نقل الحافظ عن جماعة من العلماء كإمام الحرمين وابن فورك وعبد الوهاب المالكي والبلقيني وعن جمع من علماء المذاهب ما يؤيد مذهب ابن الصلاح، بل نقل عن ابن تيمية أن الخبر إذا تلقته الأمة بالقبول تصديقا له وعملا بموجبه أفاد العلم عند جماهير العلماء من السلف والخلف وهو الذي ذكره جمهور المصنفين في أصول الفقه فذكر جماعة منهم من الحنفية والمالكية والشافعية والحنابلة ثم قال: وهو قول أكثر
هل الكلام من الأشاعرة وغيرهم …. ومذهب أهل الحديث قاطبة
حافظ فرماتے ہیں کہ امام ابن صلاح کی بات کا یہ مطلب نہیں کہ متفق علیہ روایات پر امت نے عمل کے اعتبار اجماع کیا ہے بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ ایسی روایات کی صحت پر امت کا اجماع ہے ۔ که امت کا یه تلقی بالقبول بخاری و مسلم کی احادیث کو قطعی الثبوت بناتا ہے۔
یہی نہیں پھر ابن حجر نے اسے جمہور کا بھی متفقہ موقف قرار دیا اور لکھتے ہیں : امام الحرمين، ابن فورک، عبدالوہاب المالکی البلقینی ابن الصلاح کے موقف کی تائید کرتے ہیں، ان کے ساتھ ساتھ ابن تیمیہ سے بھی نقل کیا کہ جب کوئی خیر امت کے نزدیک تصدیقاً وعملاً متلقاة بالقبول ہو جائے تو وہ علم (یقین) کا فائدہ دیتی ہے، اور یہی جمہورسلف و خلف اصولیین اور اہل حدیث کا متفقہ موقف ہے “۔
یہ چیز واضح کرتی ہے صحیحین کی متفق علیہ روایات کی صحت پر امت کا اجماع ہےاور یہ متفق علیہ احادیث قطعی الثبوت ہیں، اگر چہ وہ قطعی الدلالہ نہیں۔
ان سے حاصل ہونے والا علم ” علم نظری” ہے ( ظنی نہیں ) جو یقین کا درجہ رکھتا ہے، محض ظن کا نہیں۔ یہی جمہور اہل علم ، متکلمین اشاعرہ، اصولیین مذاہب اربعہ ، اور اہل حدیث کا مسلم موقف ہے۔
لہذا غامدی صاحب کا یہ دعوی کہ اخبار آحاد مطلقا ظنی ہیں اور ان سے کوئی قطعی علم یا واجب العمل عقید یا حکم ثابت نہیں ہوتا، نہ صرف محمد ثین کے منہج کے خلاف ہے بلکہ جمہور اصولیین و متکلمین کے اجماعی اصول سے بھی انحراف ہے ۔
در حقیقت صحیحین کی متفق علیہ روایات امت کے اجماعی تلقی بالقبول کی بنا پر قطعی الثبوت کے مرتبہ پر فائز ہیں، اور ان سے حاصل ہونے والے علم نظری ( بعض صورتوں میں تواتر ) کا انکار دراصل ایک اجماعی مسئلہ کا انکار وانحراف ہے۔ جو ایک باطل ومردود نظریہ ہے اور وہ غامدی بھگت جو وال وال پر ظنی ہیں ظنی ہیں کی تصویر لٹکا کر بھاگ جاتے ہیں یہ ان کی جہالت ، فسق ، بدعت اعتقادی کا قطعی الثبوت اعلان ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…