مجمل مفتقر الی البیان کا معنی

Published On November 26, 2025
تراث ، وراثت اور غامدی صاحب

تراث ، وراثت اور غامدی صاحب

حسن بن علی تقسیم میراث كى بعض صورتوں میں بالاتفاق یہ صورتحال پیش آتی ہے کہ جب ورثاء کے حصے  ان کے مجموعى مفروض نصیب سے بڑھ جاتے ہیں تو ایسی صورتحال تزاحم کی صورتحال ہے يعنى ایسے میں تمام ورثاء کو اپنے مقررہ حصے دینا ممکن نہیں رہتا. جیسے ایک عورت نے اپنے پیچھے شوہر ماں...

تقابل علوم و عقائد: غامدی صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہ

تقابل علوم و عقائد: غامدی صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہ

عمران شاہد بھنڈر بظاہر تو یہ بات بہت عجیب سی لگتی ہے کہ علوم و عقائد کے درمیان کوئی تقابل کیا جائے، اور پھر اس تقابل کے دوران چند غلط نتائج نکال کر اپنے عقائد کو فاتح قرار دے دیا جائے۔ مستزاد یہ کہ اس بات پر بھی زور دیا جائے کہ مذہب کا اصل موضوع ’موت‘ اور موت کے بعد...

غامدی صاحب اور قراءاتِ متواترہ

غامدی صاحب اور قراءاتِ متواترہ

اپنی کتاب ' میزان ' میں لکھتے ہیں کہ ''یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قراء ت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔ اس کے علاوہ اس کی جو قراء تیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں، یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں، وہ سب اسی فتنۂ...

غامدی صاحب اور مسئلہ تکفیر

غامدی صاحب اور مسئلہ تکفیر

غامدی صاحب لکھتے ہیں "مسلمانوں کے کسی فرد کی تکفیر کا حق قرآن و سنت کی رو سے کسی داعی کو حاصل نہیں ہے، یہ ہوسکتا ہے کہ دین سے جہالت کی بنا پر مسلمانوں میں سے کوئی شخص کفر و شرک کا مرتکب ہو، لیکن وہ اگر اس کو کفر و شرک سمجھ کر خود اس کا اقرار نہیں کرتا تو اس کفرو شرک...

غامدی صاحب اور حدیث

غامدی صاحب اور حدیث

مقدمہ 1: غامدی صاحب اپنا ایک اصول حدیث لکھتے ہیں کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحاد جنہیں بالعموم 'حدیث' کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہرگز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔" (...

غامدی صاحب اور شرعی پردہ

غامدی صاحب اور شرعی پردہ

عور ت کے پردے کے بارے میں جناب جاوید احمدغامدی صاحب کا کوئی ایک موقف نہیں ہے بلکہ وہ وقت اور حالات کے مطابق اپنا موقف بدلتے رہتے ہیں :کبھی فرماتے ہیں کہ عورت کے لئے چادر، برقعے، دوپٹے اور اوڑھنی کا تعلق دورنبوی کی عرب تہذیب و تمدن سے ہے اور اسلام میں ان کے بارے میں...

ڈاکٹر زاہد مغل

جناب حسن الیاس صاحب اپنی حالیہ ویڈیو میں فرماتے ہیں کہ:
“(علمائے اصولیین کے مطابق) قرآن مجید کے اندر بہت ساری ایسی اصطلاحات الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو مجمل مفتقر الی البیان ہیں۔ اس مجمل مفتقر الی البیان کا مطلب یہ ہے کہ قرآن نے ایک لفظ استعمال کیا لیکن اس کا جو مخاطب ہے وہ اس لفظ سے واقف نہیں ہے، وہ اس لفظ کی حقیقت کو اس کے مصداق کو اس کے تصور کو جو اس لفظ کو سن کے پیدا ہوتا ہے اس کے مفہوم کو جاننے سے قاصر ہے، مفتقر الی البیان کا مطلب ہے کہ وہ محتاج ہے کہ اس لفظ کو واضح کیا جائے اس لفظ کی تفسیر کی جائے ۔۔۔ وہ بات جس وقت پیغمبر کی زبان سے اپنے مخاطبین کے لئے نکلی تو وہ لوگ اس کی حقیقت سے مکمل طور پر غیر آشنا تھے وہ واقف ہی نہیں تھے۔”
اس کے بعد وہ یہ اعتراض وارد کرتے ہیں کہ اگر قرآن کتاب مبین و میزان وغیرہ ہے تو اس میں ایسے لفظ کا استعمال کیسے جائز ہوا وغیرہ۔
مجمل مفتقر الی البیان کا یہ مفہوم جس طرح یہاں بیان کیا گیا ہے یہ علمی نہیں بلکہ سامنے والے کے مدعا کو اس طرح پیش کرنا ہے کہ وہ بھدا محسوس ہو۔ مجمل سے متعلق اس قسم کی غلط فہمیاں جناب غامدی صاحب کو بھی لاحق ہیں۔
مجمل کسے کہتے ہیں اسے سمجھنے کے لئے لفظ و معنی کے تعلق کو “بااعتبار متکلم کے استعمال” سمجھنا ضروری ہے۔ اصولیین واضح کرتے ہیں کہ متکلم جب کسی بامعنی جملے میں لفظ کو استعمال کرے گا تو وہ تین حال سے خالی نہیں ہوگا:
1) یا وہ وضع لغوی سے طے شدہ معنی مراد لے گا (وضع لغوی کا مطلب وہ معنی جس کے لئے لفظ اصلاً اس خاص معنی کے لئے متعین کیا گیا، جیسے مثلاً مینار پاکستان وغیرہ)
2) یا وہ معاشرے میں مروج وضع عرفی سے طے معنی مراد لے گا (یہاں حقیقت، مجاز، صریح، کنایہ کی بحث آجاتی ہے)
3) یا وہ کسی انفرادی عرف کے لحاظ سے معنی مراد لے گا، یعنی وہ لفظ اس متکلم کی خاص اصطلاح ہے (جیسے مثلاً اقبال کے ہاں لفظ مکتب و مدرسہ، اسی طرح مختلف شعرا یا فلاسفہ کے کلام میں ان کی خصوصی تراکیب و اصطلاحات، یا مثلاً غامدی صاحب کے نظام فکر میں لفظ سنت جس کی تفصیل وہ خود طے کرتے ہیں)
متکلم کے استعمال کے لحاظ سے لفظ و معنی کا تعلق ان تین اوضاع (stipulations  or name-spacing) میں سے کسی ایک حال سے خالی نہیں ہوسکتا۔ مجمل مفتقر الی البیان تیسری جہت کا نام ہے، یعنی یہ متکلم کی خاص اصطلاح ہوتی ہے اور اس لئے اس کا علم خود متکلم کے بیان تفسیر کے بغیر محض لغت و عرف سے طے کرنا ممکن نہیں ہوتا (اس تیسری جہت کو “شرعی عرف” بھی کہتے ہیں کہ یہ شارع کا خاص عرفی معنی ہے)۔ لسانیاتی طور پر ایک ہی لفظ کسی ایک متکلم کے اعتبار سے مجمل لیکن کسی دوسرے اعتبار سے غیر مجمل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ جب صلوۃ و حج کو اصطلاحاً مجمل کہا جاتا ہے تو مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وضع لغوی اور عام وضع عرفی میں اس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا یا جسے سن کر مخاطب کے ذہن میں کوئی معنی نہیں آتا وغیرہ بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ قرآن میں لفظ صلوۃ بول کر جو خاص معنی یعنی ھئیت متکلم نے مراد لی (مثلاً اس کی شرائط و ارکان وغیرہ کہ وضو کرنا ہے، قبلہ رخ ہونا ہے، کھڑے ہوکر تلاوت کرنا ہے رکوع و سجود وغیرہ) وہ مراد وضع لغوی و عرفی سے طے نہیں ہوسکتی بلکہ اس کی تفسیر نبیﷺ نے طے فرمائی ہے۔ باالفاظ دیگر یہ شارع کی خاص اصطلاح (personal coinage) ہے۔ چنانچہ اگر ان الفاظ کے بارے میں یہ مان بھی لیا جائے کہ ان کا کوئی معنی پہلے سے موجود تھا یا پچھلی شریعتوں میں بھی وہ جاری تھے وغیرہ تو وہ معنی ہماری شریعت میں دلیل نہیں بن سکتے اس لئے کہ پچھلی شریعتوں کے احکام ہمارے لئے خود بخود حجت نہیں۔ پس ماضی کی شریعتوں کا حوالہ دینا یہاں غیر متعلق ہے کیونکہ وہ اس قانونی (standardised) مفہوم کا بیان نہیں جن کی تکلیف ہم پر ثابت ہے۔ اسی بنا پر اس کا نام مجمل مفتقر الی البیان ہے، یعنی وہ لفظ جو متکلم کے ارادے پر دلالت کرنے میں لغوی و عرفی وضع کے اعتبار سے غیر مستقل ہے اور خود متکلم (یا اس کے نمائندے) کی جانب سے مزید وضاحت کا متقاضی ہے اس لئے کہ متکلم نے لغوی و عرفی معنی میں اضافہ یا کمی کرکے اسے برتا ہے۔
دنیا کی کسی زبان میں متکلم پر یہ پابندی عائد نہیں کی جاسکتی کہ کلام مرتب کرتے ہوئے وہ لفظ کو ہمیشہ لغوی و عرفی وضع میں استعمال کرے ورنہ اس کا کلام “کلام مبین” نہ ہوگا۔ مجمل مفتقر الی البیان پر غامدی صاحب اور ان کے طلبا کو جو اشکالات لاحق ہیں وہ نئے نہیں ہیں، معتزلہ وغیرہ میں سے بعض افراد کا یہی نظریہ تھا کہ مجمل کا بیان مؤخر نہیں ہونا چاہئے ورنہ یہ مجہول و بے معنی خطاب ہوگا جو کلام اللہ کے شایان شان نہیں وغیرہ۔ یہ محض خطابی باتیں ہیں، اصول فقہ کی کتب میں ان پر مفصل بحثیں موجود ہیں۔ متکلم پر صرف اس قدر شرط عائد کی جاسکتی ہے کہ اگر وہ مخاطب کو کسی حکم پر عمل کا مکلف بنا رہا ہے تو اس حکم پر عمل کرنے کا وقت آنے سے پہلے اس کی تفصیل اسے بتا دے، بصورت دیگر یہ تکلیف مالا یطاق ہوگی۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…