مجمل مفتقر الی البیان کا معنی

Published On November 26, 2025
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 37)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 37)

مولانا واصل واسطی دوسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ  جناب غامدی صاحب  اپنی  باتیں اس طرح پیش کرتے ہیں  جیسے وہ دنیا کے مسلمہ حقائق ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ ،، انسانوں کی عادات کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ان کی بڑی تعداد اس معاملے   یعنی طیبات اور خبائث کے پہچاننے کے معاملے ،،...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 37)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 36)

مولانا واصل واسطی جمہورامت اس بات پر متفق ہیں  کہ مذکورہ تحریر میں درج  قرانی آیت مخصوص بالحدیث ہے۔  حج میں عرفہ اور مزدلفہ کے مقامات میں جمع بین الصلواتین ثابت ہے ، جمع تقدیم بھی ثابت ہے اورجمع تاخیر بھی ۔ ہاں اس میں بحث بہرحال موجود ہے کہ یہ سنت ہے یا مستحب ہے یا...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 37)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 35)

مولانا واصل واسطی اب ان مذکورہ سوالات کے بعد ایک اور بات کی طرف ہم دوستوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں ۔ اس کےبعد ہم اس دوسرے مسئلے کی طرف متوجہ ہونگے  جو جناب غامدی نے اس ،، قاعدے ،، کی مدد سے حل کیا ہے ۔ وہ بات یہ ہے کہ ہم جناب غامدی سے اس بات میں ( کچھ وقت کےلیے )...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 37)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 34)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے اگے کچھ مباحث بیان کیے ہیں جن کے بارے میں ہم اپنی گذارشات احباب کے سامنے پیش کرچکے ہیں ۔آگے انھوں نے ،، حدیث اور قران ،، کے زیرِ عنوان ان حدیثی مسائل پر لکھا ہے  جن کے متعلق ھہارے عام علماء کرام کا تصور یہ ہے کہ ان سے قران کے نصوص منسوخ...

از روئے قرآن بیان نسخ: احکام زنا کی تدریج کی روشنی میں غامدی صاحب کے تصور بیان کا جائزہ

از روئے قرآن بیان نسخ: احکام زنا کی تدریج کی روشنی میں غامدی صاحب کے تصور بیان کا جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل   مشرف بیگ اشرف جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے ہاں "تبیین" کی بحث بہت کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور آپ کی رائے میں بیان وہ امر ہے جو لفظ یا صیغہ نیز سیاق کلام وغیرہ سے سمجھا جا سکتا ہو وگرنہ وہ نسخ یا ترمیم کہلائے گا جو کسی صورت بیان نہیں۔ اس کے لیے آپ کا...

لفظ تبیین میں “ترمیم و تبدیلی” کا مفہوم شامل ہے: قرآن سے دو شہادتیں

لفظ تبیین میں “ترمیم و تبدیلی” کا مفہوم شامل ہے: قرآن سے دو شہادتیں

ڈاکٹر زاہد مغل ایک تحریر میں قرآن مجید کے متعدد نظائر سے یہ ثابت کیا گیا تھا کہ قرآن کے محاورے کی رو سے نسخ، اضافہ، تخصیص و تقیید وغیرہ تبیین کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اس کے لئے ہم نے قرآن مجید میں مذکور احکام سے استشہاد کیا تھا۔ یہاں ہم دو مثالوں سے یہ واضح کرتے...

ڈاکٹر زاہد مغل

جناب حسن الیاس صاحب اپنی حالیہ ویڈیو میں فرماتے ہیں کہ:
“(علمائے اصولیین کے مطابق) قرآن مجید کے اندر بہت ساری ایسی اصطلاحات الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو مجمل مفتقر الی البیان ہیں۔ اس مجمل مفتقر الی البیان کا مطلب یہ ہے کہ قرآن نے ایک لفظ استعمال کیا لیکن اس کا جو مخاطب ہے وہ اس لفظ سے واقف نہیں ہے، وہ اس لفظ کی حقیقت کو اس کے مصداق کو اس کے تصور کو جو اس لفظ کو سن کے پیدا ہوتا ہے اس کے مفہوم کو جاننے سے قاصر ہے، مفتقر الی البیان کا مطلب ہے کہ وہ محتاج ہے کہ اس لفظ کو واضح کیا جائے اس لفظ کی تفسیر کی جائے ۔۔۔ وہ بات جس وقت پیغمبر کی زبان سے اپنے مخاطبین کے لئے نکلی تو وہ لوگ اس کی حقیقت سے مکمل طور پر غیر آشنا تھے وہ واقف ہی نہیں تھے۔”
اس کے بعد وہ یہ اعتراض وارد کرتے ہیں کہ اگر قرآن کتاب مبین و میزان وغیرہ ہے تو اس میں ایسے لفظ کا استعمال کیسے جائز ہوا وغیرہ۔
مجمل مفتقر الی البیان کا یہ مفہوم جس طرح یہاں بیان کیا گیا ہے یہ علمی نہیں بلکہ سامنے والے کے مدعا کو اس طرح پیش کرنا ہے کہ وہ بھدا محسوس ہو۔ مجمل سے متعلق اس قسم کی غلط فہمیاں جناب غامدی صاحب کو بھی لاحق ہیں۔
مجمل کسے کہتے ہیں اسے سمجھنے کے لئے لفظ و معنی کے تعلق کو “بااعتبار متکلم کے استعمال” سمجھنا ضروری ہے۔ اصولیین واضح کرتے ہیں کہ متکلم جب کسی بامعنی جملے میں لفظ کو استعمال کرے گا تو وہ تین حال سے خالی نہیں ہوگا:
1) یا وہ وضع لغوی سے طے شدہ معنی مراد لے گا (وضع لغوی کا مطلب وہ معنی جس کے لئے لفظ اصلاً اس خاص معنی کے لئے متعین کیا گیا، جیسے مثلاً مینار پاکستان وغیرہ)
2) یا وہ معاشرے میں مروج وضع عرفی سے طے معنی مراد لے گا (یہاں حقیقت، مجاز، صریح، کنایہ کی بحث آجاتی ہے)
3) یا وہ کسی انفرادی عرف کے لحاظ سے معنی مراد لے گا، یعنی وہ لفظ اس متکلم کی خاص اصطلاح ہے (جیسے مثلاً اقبال کے ہاں لفظ مکتب و مدرسہ، اسی طرح مختلف شعرا یا فلاسفہ کے کلام میں ان کی خصوصی تراکیب و اصطلاحات، یا مثلاً غامدی صاحب کے نظام فکر میں لفظ سنت جس کی تفصیل وہ خود طے کرتے ہیں)
متکلم کے استعمال کے لحاظ سے لفظ و معنی کا تعلق ان تین اوضاع (stipulations  or name-spacing) میں سے کسی ایک حال سے خالی نہیں ہوسکتا۔ مجمل مفتقر الی البیان تیسری جہت کا نام ہے، یعنی یہ متکلم کی خاص اصطلاح ہوتی ہے اور اس لئے اس کا علم خود متکلم کے بیان تفسیر کے بغیر محض لغت و عرف سے طے کرنا ممکن نہیں ہوتا (اس تیسری جہت کو “شرعی عرف” بھی کہتے ہیں کہ یہ شارع کا خاص عرفی معنی ہے)۔ لسانیاتی طور پر ایک ہی لفظ کسی ایک متکلم کے اعتبار سے مجمل لیکن کسی دوسرے اعتبار سے غیر مجمل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ جب صلوۃ و حج کو اصطلاحاً مجمل کہا جاتا ہے تو مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وضع لغوی اور عام وضع عرفی میں اس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا یا جسے سن کر مخاطب کے ذہن میں کوئی معنی نہیں آتا وغیرہ بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ قرآن میں لفظ صلوۃ بول کر جو خاص معنی یعنی ھئیت متکلم نے مراد لی (مثلاً اس کی شرائط و ارکان وغیرہ کہ وضو کرنا ہے، قبلہ رخ ہونا ہے، کھڑے ہوکر تلاوت کرنا ہے رکوع و سجود وغیرہ) وہ مراد وضع لغوی و عرفی سے طے نہیں ہوسکتی بلکہ اس کی تفسیر نبیﷺ نے طے فرمائی ہے۔ باالفاظ دیگر یہ شارع کی خاص اصطلاح (personal coinage) ہے۔ چنانچہ اگر ان الفاظ کے بارے میں یہ مان بھی لیا جائے کہ ان کا کوئی معنی پہلے سے موجود تھا یا پچھلی شریعتوں میں بھی وہ جاری تھے وغیرہ تو وہ معنی ہماری شریعت میں دلیل نہیں بن سکتے اس لئے کہ پچھلی شریعتوں کے احکام ہمارے لئے خود بخود حجت نہیں۔ پس ماضی کی شریعتوں کا حوالہ دینا یہاں غیر متعلق ہے کیونکہ وہ اس قانونی (standardised) مفہوم کا بیان نہیں جن کی تکلیف ہم پر ثابت ہے۔ اسی بنا پر اس کا نام مجمل مفتقر الی البیان ہے، یعنی وہ لفظ جو متکلم کے ارادے پر دلالت کرنے میں لغوی و عرفی وضع کے اعتبار سے غیر مستقل ہے اور خود متکلم (یا اس کے نمائندے) کی جانب سے مزید وضاحت کا متقاضی ہے اس لئے کہ متکلم نے لغوی و عرفی معنی میں اضافہ یا کمی کرکے اسے برتا ہے۔
دنیا کی کسی زبان میں متکلم پر یہ پابندی عائد نہیں کی جاسکتی کہ کلام مرتب کرتے ہوئے وہ لفظ کو ہمیشہ لغوی و عرفی وضع میں استعمال کرے ورنہ اس کا کلام “کلام مبین” نہ ہوگا۔ مجمل مفتقر الی البیان پر غامدی صاحب اور ان کے طلبا کو جو اشکالات لاحق ہیں وہ نئے نہیں ہیں، معتزلہ وغیرہ میں سے بعض افراد کا یہی نظریہ تھا کہ مجمل کا بیان مؤخر نہیں ہونا چاہئے ورنہ یہ مجہول و بے معنی خطاب ہوگا جو کلام اللہ کے شایان شان نہیں وغیرہ۔ یہ محض خطابی باتیں ہیں، اصول فقہ کی کتب میں ان پر مفصل بحثیں موجود ہیں۔ متکلم پر صرف اس قدر شرط عائد کی جاسکتی ہے کہ اگر وہ مخاطب کو کسی حکم پر عمل کا مکلف بنا رہا ہے تو اس حکم پر عمل کرنے کا وقت آنے سے پہلے اس کی تفصیل اسے بتا دے، بصورت دیگر یہ تکلیف مالا یطاق ہوگی۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…