حسان بن علی
اور یہ واضح رہے کہ انکارِ حجیتِ حدیث کے حوالے سے غلام احمد پرویز، اسی طرح عبداللہ چکڑالوی کا درجہ ایک سا ہے کہ وہ اسے کسی طور دین میں حجت ماننے کے لیے تیار نہیں (غلام احمد پرویز حديث کو صرف سیرت کی باب میں قبول کرتے ہیں، دیکھیے کتاب مقام حدیث) اور اس سے کم تر درجہ اسلم جيراجپوری صاحب کا کہ وہ حدیث کو قرآن اور متواتر عمل (جسے چند مزید شرائط کے ساتھ غامدی صاحب سنت کا عنوان دیتے ہیں) کے
دائرے میں (اور یہ دائرہ بھی وہ خود ہی تشکیل دیتے ہیں) قابل احتجاج سمجھتے ہیں لیکن حديث کی استقلالى حجيت کے منکر. یہی حال ہمارے غامدی صاحب کا ہے. اس سے کم تر مولانا امین احسن اصلاحی كا کہ وہ حدیث کی استقلالى حجیت کے قول کی طرف مائل ليكن اس معاملے میں ان کے منہج کا سقم ترتیب الأدلہ يعنى دلائل کی ترتیب کا ہے مثلا وه صرف مخصوص صورت میں ہی حدیث کے ذریعے قرآن کی تخصیص کے قائل ہیں (اور اپنے اس اصول کو انہوں نے مبادى تدبر حدیث میں خود ذکر کیا ہے) جیسے کہ وہ حدیث رجم کے ذریعے قرآن کی تخصیص کے قائل نہیں. اسى طرح وه سنت اور حدیث کو (باعتبار مصدر تشريع) الگ سے بیان کرتے ہیں*، جیسا کہ ان سے پہلے غلام قادیانی اور اس تقسيم کے درپردہ جو اشکال کار فرما ہے وہ عہد اول میں جمع حدیث (بمقابل قرآن) کے حوالے سے قلت التفات یا قلت اہتمام کا وقوع بیان کیا جاتا ہے!
* (بعض حضرات اس ضمن میں اس امر کو بنیاد بناتے ہیں کہ امام مالک بھی عمل اہل مدینہ کو اخبار احاد پر ترجیح دیتے تھے یا احناف کے نزدیک تواتر عملی کو اخبار احاد پر ترجیح دینے کا عمل تو اس پر یہ عرض ہے کہ یہ عمل تو عند تعارض الأدلة ہے نہ کہ اصل سے متعلق کیونکہ عند تعارض الأدلة اسی کو ترجیح حاصل ہے جو ثبوت کے لحاظ سے أقوی ہو. چنانچہ تواتر عملی کو خبر واحد پر ترجیح دی جائے گی، اسی طرح تواتر سندی کو خبر واحد پر. لیکن اگر ان کے درمیان تعارض نہیں تو جس طرح تواتر عملی سے کسى چیز کا مشروع ہونا يا سنت ہونا درست ٹھہرتا ہے، اسی طرح تواتر سندی اور خبر واحد سے بھی)
اسى طرح مولانا اصلاحى تواتر سندی کے قائل نہیں کہ ان کے مطابق خبر کا متواتر ہونا یہ ایسا اسم ہے جس کا کوئی مسمی نہیں چنانچہ وه سب احادیث کو احاد کی کیٹگری میں داخل کر کے سب کو مظنون ٹھہراتے ہیں، یہی حال مولانا حمید الدین فراہی کا ہے اور ان سے پہلے غلام قادیانی کا.
حاصل کلام یہ کہ غامدی صاحب کا اس معاملے میں موقف مستخفين حدیث کا ہے اور خاص اس معاملے وہ اسی جگہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں جس جگہ ان کے اسلاف کھڑے تھے. یعنی غامدی صاحب جب یہ بات کہتے ہیں کہ ان کے اور اسلاف کے موقف میں سر مو کوئی فرق نہیں تو جان لینا چاہیے کہ وہ کن اسلاف کی بات کر رہے ہیں. ذرا اسلم جيراجپوری صاحب کی یہ درجہ ذیل سطریں ملاحظہ کیجئے جو تشابهت قلوبهم کی مصداق ہیں
” یہ خیال اس وقت دل میں بمنزلہ تخم کے پڑ گیا جو برابر پرورش پاتا رہا. 1904 میں لاہور میں مجھ کو معلوم ہوا کہ مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی حدیث کے قائل نہیں ہیں. ان سے جا کر ملا. تین گھنٹے تک گفتگو رہی. جس کو انہوں نے اسی بحث میں ضائع کر دیا کہ رسول کا لفظ کلام مجید میں جہاں جہاں آیا ہے اس سے مراد قرآن ہے نہ کہ ایک مخصوص انسان. میں نے دیکھا کہ وہ حقیقت آشنا نہیں ہے انہوں نے سنت متواترہ یعنی عمل بالقرآن کا بھی انکار کر دیا تھا. اس وجہ سے سخت مشکل میں گرفتار تھے اور سوائے تاویلات ركیكہ کے عمل کے لیے کوئی راستہ نہیں پاتے تھے. پھر دوبارہ کبھی ان کی ملاقات کا موقع نہیں ملا.
جب قرآنی حقائق اللہ نے میرے دل پر کھولے اس وقت حدیث کی اصلی حیثیت بالکل واضح ہو گئی کہ وہ دینی تاریخ ہے خود اس کو دین سمجھنا صحیح نہیں اگر دین ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی طرح اس کو بھی لکھوا کر امت کو دیے جاتے. دین کے لیے قرآن کافی ہے جو کامل کتاب ہے اور جس میں دین مکمل کر دیا گیا ہے” (مقالات اسلم، صفحہ 35، 36)