ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

Published On May 28, 2025
فتنہ غامدیت 14

فتنہ غامدیت 14

مذکورہ اقتباس میںعمارصاحب نے ایک اور ستم ظریفی یہ کی ہے کہ سورۃ النور کی آیت [وَلَا تُكْرِہُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ…الآیۃ] کا مصداق بھی (نعوذباللہ) عہدرسالت کے ان مسلمانوں (صحابہ) کو قرار دے دیا ہے جنہوں نے ان کے زعم فاسد میں زناکاری کے اڈے کھول رکھے تھے،...

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی اور امین احسن اصلاحی کی علمی خیانت

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید

غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید

سید اسد مشہدی ہمارا تحقیقی مقالہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر کے مصادر فکر کے تجزیے پر مبنی ہے۔ جب ہم نے اسی تناظر میں ایک علمی گفتگو ریکارڈ کروائی تو مختلف حلقوں سے ردعمل موصول ہوئے۔ ان میں ایک ردعمل جناب حسن الیاس صاحب کا تھا، جنہوں نے ہماری گفتگو کو اس کے اصل...

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

مدثر فاروقی

 

کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟
ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا تھا۔
مغرب نے کہا : رجم ، یہ سزا غیر انسانی ہے ، قرونِ وسطیٰ کا ظلم ہے۔
غامدی صاحب نے کہا : رجم قرآن کے خلاف ہے ، یہ سزا رسول اللہ نے صرف ایک وقتی انتظام کے طور پر دی تھی ، شریعت کا مستقل حصہ نہیں۔
سیکولر دنیا کہتی ہے : ارتداد ایک انسانی حق ہے ، سزا دینا جبر ہے۔
غامدی صاحب نے کہا : اسلام میں مرتد کی سزا نہیں ، رسول اللہ نے صرف بغاوت کرنے والے مرتدین کو قتل کیا ورنہ آزادی ہر انسان کا حق ہے۔
لبرل طبقہ کہتا ہے : موسیقی فن ہے ، روح کی غذا ہے۔
غامدی صاحب نے کہا : موسیقی فی نفسہ حرام نہیں ، اگر اس میں فحاشی نہ ہو تو جائز ہے۔
مغربی فکری یلغار : مذہبی علامتیں دقیانوسی ہیں ، داڑھی شدت پسندی کی علامت۔
غامدی صاحب نے کہا : داڑھی سنت نہیں ، دین کا حصہ نہیں ہے۔
مغربی نعرہ: پردہ جبر ہے ، عورت کی آزادی میں رکاوٹ۔
غامدی صاحب نے کہا : دوپٹہ ہمارے ہاں ایک تہذیبی روایت ہے ، اس کا کوئی شرعی حکم نہیں۔
صیہونی بیانیہ: مسجد اقصیٰ یہودیوں کی میراث ہے ، مسلمانوں کا کوئی حق نہیں۔
غامدی صاحب نے کہا : مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کا حق نہیں ، یہ صرف یہودیوں کا ہے۔
مغربی مالیاتی نظام: سودی بیمہ نظام معیشت کا جزو ہے ، اسے قانونی تحفظ حاصل ہے۔
غامدی صاحب نے کہا : بیمہ شریعتاً جائز ہے ، اس میں کوئی قباحت نہیں۔
مساوات پسند لبرل بیانیہ: مرد و عورت ، مسلم و غیر مسلم سب برابر ہیں عدلیہ میں کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔
غامدی صاحب نے کہا: گواہی میں مرد و عورت۔ ، اور مسلم و غیر مسلم کا فرق غیر ضروری ہے سب کی گواہی برابر ہے۔
عالمی امن پسند ہیومن ازم کا بیانیہ : کسی دوسرے مذہب یا اس کے عقائد پر تنقید کرنا مذہبی منافرت ہے۔
غامدی صاحب نے کہا : ہمیں کسی کے کفر کو کفر نہیں کہنا چاہیے ، ہماری زبان سے ایسی باتیں نکلنا مناسب نہیں۔ جبکہ پوری امت نے قادیانی عقیدہ کو کفر قرار دیا۔
یہاں کہا گیا : ہمیں کسی کے ایمان یا کفر پر فیصلہ دینے کا حق نہیں وہ اللہ جانے۔
غامدی صاحب کہتے ہیں دین صرف قرآن اور سنت ہے ۔
باقی سب حدیث ، اجماع ، قیاس ، فقہ تاریخ ہے وہی بات جو مغربی تھیولوجی میں “historical religion” کے نام سے مشہور ہے۔
اب آپ ہی ہمیں بتائیے کہ کیا یہ تمام باتیں انکار حدیث سے لے کر مسجد اقصیٰ تک کیا واقعی صرف “اجتہادی آرا” ہیں؟ یا یہ سب پہلے سے چلنے والی فکری یلغار کی ایک نئی اردو بولتی ، اسلامی شکل ہے۔
حدیث کا انکار ہو تو ہمیں مغرب یاد آتا ہے اور غامدی صاحب بھی وہی کہتے ہیں ، رجم کو غیر انسانی کہنا ہو تو انسانی حقوق کی تنظیمیں بولتی ہیں اور غامدی صاحب بھی وہی کہتے ہیں ، حجاب کو ثقافت کہہ دینا ہو تو فیمینزم یہی کہتا ہے ، اور غامدی فکر بھی وہی دہراتی ہے ، داڑھی کو سنت نہ ماننا ہو تو مغربی کارٹون بھی یہی علامت بناتے ہیں اور ہمارے “دانشور” بھی مرتد کو نہ چھیڑنا ہو تو سیکولرزم بھی یہی کہتا ہے ، اور “مفسرین جدید” بھی۔۔ قادیانیوں کو کافر نہ کہنا ہو تو اقوامِ متحدہ کی قراردادیں بھی یہی چاہتی ہیں ، اور غامدی فکر بھی یہی کہتی ہے مسجد اقصیٰ یہودیوں کی ہو تو صیہونی بھی یہی کہتے ہیں ، اور ہمارے اسکالرز بھی۔
دیکھ لیجئے ، ایک طرف مغرب کھڑا ہے اور دوسری طرف غامدی صاحب جو بغیر مغرب کا نام لیے ، بغیر ان کی کتابیں ہاتھ میں لیے بالکل انہی باتوں کو “اسلامی” لبادے میں رکھ کر ، نرم زبان ، شائستہ لہجے اور فکری لطافت کے ساتھ تمہارے دل میں اتار دیتے ہیں۔
کیا یہ ممکن ہے کہ دو بالکل مختلف تہذیبیں ، دو مختلف تاریخیں ، دو الگ نظریاتی بنیادیں بالکل ایک جیسے بیانیے پر متفق ہو جائیں اور ہم اسے “اتفاق” کہہ کر نظرانداز کر دیں ؟
ہم الزام نہیں لگا رہے نہ فتوے دے رہے ہیں۔
ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں : جب ہر سُر مغربی باجے سے ملنے لگے تو ساز چاہے اپنا ہو ، دھن پھر اپنی نہیں رہتی۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

فتنہ غامدیت 14

فتنہ غامدیت 14

مذکورہ اقتباس میںعمارصاحب نے ایک اور ستم ظریفی یہ کی ہے کہ سورۃ النور کی...