حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور غامدی نظریہ : قسط دوم

Published On February 2, 2025
بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

ڈاکٹر زاہد مغل حدیث کی کتاب کو جس معنی میں تاریخ کی کتاب کہا گیا کہ اس میں آپﷺ کے اقوال و افعال اور ان کے دور کے بعض احوال کا بیان ہے، تو اس معنی میں قرآن بھی تاریخ کی کتاب ہے کہ اس میں انبیا کے قصص کا بیان ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا: وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ...

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے جو غالی معتقدین ان کی عذر خواہی کی کوشش کررہے ہیں، وہ پرانا آموختہ دہرانے کے بجاے درج ذیل سوالات کے جواب دیں جو میں نے پچھلی سال غامدی صاحب کی فکر پر اپنی کتاب میں دیے ہیں اور اب تک غامدی صاحب اور ان کے داماد نے ان کے جواب میں کوئی...

حدیث کی نئی تعیین

حدیث کی نئی تعیین

محمد دین جوہر   میں ایک دفعہ برہان احمد فاروقی مرحوم کا مضمون پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا ”قرآن مجید تاریخ ہے“۔ اب محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ بخاری شریف تاریخ کی کتاب ہے۔ دیانتداری سے دیکھا جائے تو محترم غامدی صاحب قرآن مجید کو بھی تاریخ (سرگزشت انذار) ہی...

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

محمد خزیمہ الظاہری پہلے بھی عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب نے باقاعدہ طور پر دو چہرے رکھے ہوئے ہیں. ایک انہیں دکھانے کے لئے جو آپ کو منکر حدیث کہتے ہیں اور یہ چہرہ دکھا کر انکار حدیث کے الزام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میزان میں بارہ سو روایتیں ہیں وغیرہ...

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

مولانا محبوب احمد سرگودھا

غامدی صاحب کے تیسرے اعتراض کی بنیاد سورہ مائدہ کی آیت ہے 117 میں موجود عیسی علیہ السلام کا روز قیامت باری تعالٰی سے ہونے والا مکالمہ ہے۔ آیت یہ ہے:

فلما توفيتني كنت انت الرقيب عليهم، وانت على كل شيء شهید (قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں عیسی علیہ السلام فرمائیں گے: ) پس جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگہبان تھا۔

اس سے غامدی استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ : اس آیت میں فلما تو فیتنی الخ کا معنی ہے کہ: جب تو نے مجھے وفات دیدی تو میں ذمہ دار نہ رہا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ ورنہ قیامت کے دن یہ کیسے کہیں گے مجھے نصاری کا عقیدہ بگڑنے کا علم نہیں؟ کیونکہ بعد نزول، وہ نصاری کے عقیدے سے مطلع ہو چکے ہوں گے۔

علماء اسلام نے اس استدلال فاسد کے کئی جوابات دیئے ہیں:۔

1۔ آیت مذکورہ میں  تو فیتنی کا معنی وفات اور موت نہیں بلکہ رفع اور قبض ہے۔ تمام مفسرین اور مجتہد ین نے آیت مذکورہ کا یہی معنی کیا ہے۔

2۔ آیت مذکورہ میں موت وحیات کا تقابل ہی نہیں ہے، بلکہ موجودگی اور عدم موجودگی کا تقاتل ہے، جس پر مادمت فيهم ” کے الفاظ واضح طور پر دلالت کر رہے ہیں ۔ چنانچہ مادمت فيهم فرمایا گیا، مادمت حیا نہیں فرمایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ وہ اپنے زمانہ موجودگی میں امت کے نگران تھے ، عدم موجودگی کے وہ ذمہ دار نہیں ۔ ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی زمانہ ایسا بھی ہے جس میں حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہونے کے باوجود اپنی امت کے درمیان موجود نہ ہوں ۔ چنانچہ یہ زمانہ ان کے آسمان کی طرف اٹھا لیے جانے کے بعد کا ہے۔

3۔ حضرت عیسی علیہ السلام یہاں قول کی نفی فرما رہے ہیں، علم کی نہیں۔ آیت یہ ہے:

” وَإِذْ قَالَ ) الله يا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِدُونِي وَأَمِّيَ إِلَهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَن أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقِّ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنتَ عَلامُ الْغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أن اعْبُدُوا اللهَ رَبِّي وَرَبِّكُمْ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيَتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّفِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [المائده : ۱۱۷/۱۱۲]

اور جب کہے گا اللہ اے میرے عیسی  مریم کے بیٹے کیا تو نے کہا لوگوں کو کہ ٹھہر الو مجھ کو اور میری ماں کو  معبود سوا ئےاللہ کے؟ کہا: (عیسی علیہ السلام عرض کریں گے: اے اللہ ) تو پاک ہے، مجھ کو لائق نہیں کہ کہوں ایسی بات جس کا مجھ کو حق نہیں۔ اگر میں نے یہ کہا ہوگا تو تجھ کو ضرور معلوم ہوگا ، تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے۔ تو ہی جاننے والا ہے چھپی باتوں کا۔ میں نے کچھ نہیں کہا ان کو مگر (وہی) جو تو نے حکم کیا کہ بندگی کرو اللہ کی جو رب ہے میرا اور تمھارا۔

اس آیت کریمہ سے وہ مقصد ہرگز معلوم نہیں ہوتا جو غامدی صاحب اپنی مہارت کی بنا پر معلوم کیے بیٹھے ہیں۔ اور نہ ہی وہ اعتراض وارد ہوتا ہے جو غامدی صاحب بزور وارد کر رہے ہیں ۔ لہذا غامدی صاحب کے اسلوب اور انداز کے مطابق ) یہ بات بالکل قطعی ہے کہ آیت مبارکہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کے اپنی قوم کی حالت سے لاعلمی کے اظہار اور اس پر ان کی وفات کو مرتب کرنا کسی بھی طرح درست نہیں ہو سکتا۔ اور نہ ہی کوئی اہل علم ایسا کر سکتا ہے۔

آیت کے درمیان جولا علمی کی بات ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے علم کے سا منے اپنے عدم علم کا اظہار ہے۔ جیسا کہ حضرات انبیا علیہم السلام اپنی امتوں کے بارے سوال کے جواب میں کہیں گے لا علم لنا “۔

4۔غامدی صاحب کی چوتھی دلیل سورہ آل عمران کی وہی آیت ہے، جس پر بحث ابتدا میں گزر چکی ہے۔ طرز استدلال، توفی کا معنی مفسرین کے حوالے ، حضرت ابن عباس کی تفسیر اور تقدیم و تاخیر کی بحث سمیت تمام امور مفصل بیان ہو چکے ہیں۔

آخر میں جی چاہتا ہے کہ حضرت مولانا بدر عالم میں بھی رحمہ اللہ کے پر شوکت علمی اقتباس پر اس تحریر کو انتقام پذیر کریں، جو انہوں نے قرآن کریم میں حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع جسمانی کی طرح نزول کے صاف طور پر مذکور نہ ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:۔

قرآن کریم میں نزول کا مسئلہ بھی رفع جسمانی کی طرح صاف طور پر کیوں ذکر میں نہیں آیا: قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر جانے اور مقتول نہ ہونے کا تذکرہ صرف یہود کے اسباب لعنت کے بیان کے ضمن میں آگیا ہے۔ اس ضمن میں قرآن شریف نے نقل کیا ہے کہ یہود واقع کے خلاف ان کے قتل کرنے کے مدعی ہیں اور نصاری کو بہت سی بے تحقیق باتیں بناتے ہیں مگر اجمالاً ان کے رفع کے قائل ہیں۔ اس لیے یہاں قابل توجہ صرف یہی مسئلہ تھا کہ وہ مقتول ہوئے یا نہیں اور اگر مقتول نہیں ہوئے تو آسمان پر اٹھائے گئے یا نہیں ۔ رہا ان کے نزول کا مسئلہ تو وہ کسی مقام پر بھی زیر بحث نہیں آیا۔ پھر ہم کو کسی آیت سے ثابت نہیں ہوتا کہ نزول یا عدم نزول کا مسئلہ کبھی اہل کتاب نے آپ ﷺ کے سامنے پیش کیا تھا۔ لہذا جب یہ مسئلہ کہیں آپ کے سامنے زیر بحث ہی نہیں آیا اور نہ قرآن کریم ہی کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہوا تو اب صراحت کے ساتھ نزول کا لفظ ذکر ہوتا تو کیسے ہوتا ۔ ہاں ! اگر نزول کا مسئلہ بھی اس وقت کہیں زیر بحث آجاتا تو جس طرح یہاں رفع کا لفظ صراحت کے ساتھ ذکر  ہوا تھا۔ نزول کا لفظ بھی یقینا اسی طرح صراحت کے ساتھ ذکر ہو جاتا، لیکن جب یہ مسئلہ کہیں بھی زیر بحث آیا ہی نہیں تو اب قرآن کریم میں صراحتالفظ نزول کا مطالبہ کرنا کتنی بڑی بے انصافی ہے !! اور اگر بالفرض یہ لفظ مذکور ہو بھی جاتا جب بھی حیلہ جو طبیعتوں کو فائدہ کیا تھا؟ آخر صحیح سے صحیح حدیثوں میں یہ لفظ بار بار آیا اور آنحضرت ﷺ کی جانب سے قسموں کے ساتھ آیا مگر پھر ان کو کیا فائدہ ہوا؟

پس حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول یعنی آمد ثانی کا مسئلہ خواہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو مگر وہ اس وقت زیر بحث ہی نہ تھا ، ہاں قومی تاریخ کے لحاظ سے جو فرقہ ان کے رفع جسمانی کا قائل تھا وہ ان کی آمد ثانی کا بھی منتظر تھا اور اب تک ہے۔ اور جوان کے قتل کا مدعی تھا ان کے نزدیک ان کی آمد ثانی محل بحث ہی کیا ہو سکتی تھی۔ پس اگر یہاں قرآنی فیصلہ ان کے رفع کا ہو جاتا ہے تو ان کے نزول کا مسئلہ خود بخود ثابت ہو جاتا ہے اور اگر یہ تحقیق ہو کہ وہ مقتول ہو گئے۔ والعیاذ با اللہ تو یہ ایک شخص کی دوبارہ آمد کی بحث ہی پیدا  نہیں ہو سکتی ۔ لہذا اگر قرآن کریم کی کسی آیت میں رفع کے صاف لفظ کی طرح نزول کا لفظ نہیں تو اس سے مسئلہ نزول کی اہمیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا، پھر خاص نزول کا لفظ مذکور  ہونا ہی کیوں ضروری ہے؟ جب کہ قرآن کریم یہ تصریح کرتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ابھی وفات نہیں پائی اور قیامت سے پہلے تمام اہل کتاب کو ان پر ایمان لانا باقی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جو شخص زندہ آسمان پر اٹھایا گیا ہے اور ابھی تک اس کو موت نہیں آئی ضرور ہے کہ وہ زمین پر نازل ہو تا کہ اہل کتاب ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ان پر ایمان لے آئیں اور وہ اپنی مقررہ مدت عمر پوری کر کے دنیا کی آنکھوں کے سامنے وفات پا کر مدفون ہوں۔ اسی لیے حضرت ابو ھریرہ حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کی حدیث روایت کر کے فرماتے ہیں اگر اس پیش گوئی کو تم قرآن کریم کے الفاظ میں دیکھنا چاہو تو سورہ نساء کی یہ آیت پڑھ لو: ” وان من اهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا

آیت بالا میں حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات کے لیے جو سب سے زیادہ صاف اور واضح لفظ ہو سکتا تھا وہ قبل موته ” کا لفظ ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ جس زندہ شخص کی اب تک وفات ثابت نہیں ہوئی، اس کی حیات کے لیے کسی اور دلیل کی ضرورت کیا ہے؟ یہاں جو شخص ان کی موت کا مدعی ہو، یہ فرض اس کا ہے کہ وہ ان کی موت ثابت کرے۔ پھر آیت بالا میں خاص اہل کتاب کے ایمان کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل اسلام کوان پر اسوقت بھی صحیح ایمان حاصل ہے۔ لہذا جن کا ایمان لا نا قابل ذکر ہو سکتا تھا وہ صرف اہل کتاب کا ایمان ہے۔ اب اگر فرض کر لو کہ اہل اسلام بھی نصاری کی طرح ان کے سولی پر چڑھنے کو تسلیم کرتے ہوں یا یہود کی طرح ان کے مردہ ہونے کے قائل ہوں تو پھر اہل اسلام کا ایمان بھی ان پر صحیح ایمان نہیں رہتا۔ اہل کتاب اگر اس بارے میں ایک غلطی پر ہیں تو اہل اسلام بھی دوسری اعتبار سے غلطی میں مبتلا ہیں، پھر اس تخصیص کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔ قرآن کریم نے جہاں ان کی موت کی صاف نفی فرما کر یہ بتایا ہے کہ ابھی آئندہ زمانے میں اہل کتاب کو ان پر ایمان لانا باقی ہے، اسی طرح دوسری طرف یہ بھی تصریح کی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو ان پر شهادت دینا باقی ہے۔ ان دونوں باتوں کے لیے ان کی تشریف آوری لازمی ہے، کیونکہ شہادت شہود سے مشتق ہے۔ لہذا عیسی علیہ السلام جب تک کہ پھر تشریف لا کر ان میں موجود نہ ہوں ان پر گواہی کیسے دے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیامت میں حضرت عیسی علیہ السلام فرما ئیں گئے وَمُتُ عَلَيْهِمْ شهيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيَتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ [المائدة، آیت نمبر 11 یعنی میں ان پر گواہ تھا جب تک میں ان میں موجود رہا او آب تو نے مجھ کو اٹھالیا تو تو ہی ان کا نگران حال تھا۔

آیت بالا سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر دو زمانے گزرے ہیں ، ان میں سے آپ کی شہادت کا زمانہ صرف وہ ہے جس میں کہ آپ ان کے اندر موجود تھے ۔ اور دوسرا زمانہ جس میں کہ آپ ان میں موجود نہ تھے ۔ وہ آپ کی شہادت سے خارج ہے۔ پس آئندہ اہل کتاب پر آپ کی شہادت کے لیے دوبارہ آپ کی تشریف آوری ضروری ٹھہری۔ اس لیے حضرت ابو ہریرہ اس آیت کو حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کی دلیل فرماتے ہیں۔ حیرت ہے کہ یہ صحابی جلیل القدر تو نزول کی پیش گوئی کو قرآنی پیش گوئی کہتا ہے، ایک بدنصیب جماعت وہ ہے جو اس کو حد یثی پیش گوئی بھی کہنے کو تیار نہیں ۔

احتساب قادیانیت ۲۷۷/۴۰]

 

دعا ہے کہ حق تعالی ہر مسلمان کو قرآن وسنت سے ثابت شدہ جمہور امت کے محکم عقیدہ حیاتِ مسیح پر کار بند رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اور اس کا انکار کرنے والوں، بے جا اعتراضات اور اس میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی نامراد کوششیں کرنے والوں کو ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین ۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…