رعایتِ صلاۃ میں غامدی صاحب کے قطعی الدلالۃ کا حال

Published On November 27, 2023
بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

ڈاکٹر زاہد مغل حدیث کی کتاب کو جس معنی میں تاریخ کی کتاب کہا گیا کہ اس میں آپﷺ کے اقوال و افعال اور ان کے دور کے بعض احوال کا بیان ہے، تو اس معنی میں قرآن بھی تاریخ کی کتاب ہے کہ اس میں انبیا کے قصص کا بیان ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا: وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ...

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے جو غالی معتقدین ان کی عذر خواہی کی کوشش کررہے ہیں، وہ پرانا آموختہ دہرانے کے بجاے درج ذیل سوالات کے جواب دیں جو میں نے پچھلی سال غامدی صاحب کی فکر پر اپنی کتاب میں دیے ہیں اور اب تک غامدی صاحب اور ان کے داماد نے ان کے جواب میں کوئی...

حدیث کی نئی تعیین

حدیث کی نئی تعیین

محمد دین جوہر   میں ایک دفعہ برہان احمد فاروقی مرحوم کا مضمون پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا ”قرآن مجید تاریخ ہے“۔ اب محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ بخاری شریف تاریخ کی کتاب ہے۔ دیانتداری سے دیکھا جائے تو محترم غامدی صاحب قرآن مجید کو بھی تاریخ (سرگزشت انذار) ہی...

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

محمد خزیمہ الظاہری پہلے بھی عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب نے باقاعدہ طور پر دو چہرے رکھے ہوئے ہیں. ایک انہیں دکھانے کے لئے جو آپ کو منکر حدیث کہتے ہیں اور یہ چہرہ دکھا کر انکار حدیث کے الزام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میزان میں بارہ سو روایتیں ہیں وغیرہ...

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

ڈاکٹر زاہد مغل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قطعی الدلالۃ کے موضوع پر مکتب فراہی کے ابہامات پر متعدد انداز سے بات ہوچکی۔ ایک مثال لیجیے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ جب تم سفر کے لئے نکلو تو تمہارے لئے نماز قصر کرنے میں کچھ حرج نہیں۔ اس آیت سے ماخوذ دیگر احکام کے علاوہ غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ
نماز میں تخفیف کی اِس اجازت سے رسول اللہ ﷺ نے اِس کے اوقات میں تخفیف کا استنباط بھی کیا ہے اور اِس طرح کے سفروں میں ظہر وعصر ،اور مغرب اور عشا کی نمازیں جمع کر کے پڑھائی ہیں۔

ان کے نزدیک اس استنباط کا اشارہ خود قرآن میں موجود ہے ۔ سورۂ نساء میں یہ حکم جس آیت پر ختم ہوا ہے ، اُس (آیت) میں ’ اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا‘ کے الفاظ عربیت کی رو سے تقاضا کرتے ہیں کہ اِن سے پہلے ’اور وقت کی پابندی کرو‘ یا اِس طرح کا کوئی جملہ مقدر سمجھا جائے۔ اِس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوتی ہے کہ قصر کی اجازت کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ نماز کی رکعتوں کے ساتھ اُس کے اوقات میں بھی کمی کر لیں ۔ چنانچہ ہدایت کی گئی کہ جب اطمینان میں ہو جاؤ تو پوری نماز پڑھو اور اِس کے لیے مقرر کردہ وقت کی پابندی کرو ، اِس لیے کہ نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔”

غامدی صاحب کی جانب سے یہاں نماز کے اوقات جمع کرنے (یعنی اوقات نماز میں قصر) کے لئے جس منھج استدلال کو برتا گیا ہے، اصول فقہ کی زبان میں اسے “مفہوم مخالف” کہتے ہیں۔ ان کے استدلال کی ساخت یوں ہے:

• ایک آیت میں آیا کہ جب خوف کی حالت میں ہو تو نماز میں قصر کرو
• دوسری آیت میں آیا کہ جب اطمینان کی حالت میں ہو تو وقت کی پابندی کا خیال کرنا لازم ہے
• نتیجہ: دوسری آیت کا مفہوم مخالف یہ بنا کہ “جب اطمینان کہ حالت میں نہ ہو تو وقت کی پابندی کا خیال کرنا لازم نہیں”۔ پس حالت سفر میں نمازوں کو جمع کرنا آیات قرآنی سے ثابت ہے

یہاں تکنیکی تفصیلات میں جانے کا موقع نہیں، اہل علم جانتے ہیں کہ علم و منطق کی رو سے مفہوم مخالف کا حجت ہونا از خود محل نزاع ہے چہ جائیکہ یہ قطعی بھی ہو۔ احناف اس کے قائل نہیں اور جو اصولیین اس کے قائل ہیں وہ بھی متعدد شرائط کے ساتھ اسے آخری درجے کی دلیل کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ یہ مباحث اصول فقہ کی کتب میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ گویا ایک حنفی کے نزدیک غامدی صاحب کی جانب سے الفاظ قرآنی سے کیا جانے والا یہ استدلال سرے سے معتبر ہی نہیں چہ جائیکہ یہ قطعی الدلالۃ بھی کہلا سکے۔

اب آپ درج ذیل آیات پر غور کیجئے

 قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا

بتائیے کہ پہلی آیت کے الفاظ سے “الہ کے ایک ہونے”، دوسری آیت کے الفاظ سے “روزے کی فرضیت” اور تیسری آیت سے “یتیم کے مال کو ڈبو کر ضائع کرنے کی ممانعت” جس درجہ یقین میں ثابت ہورہی ہے، کیا اسی درجے میں وہ بات بھی ثابت ہورہی ہے جو غامدی صاحب نے مفہوم مخالف سے نماز کے اوقات میں قصر کے لئے ثابت کی ہے؟ دنیا کا ہر عقلمند انسان جانتا ہے کہ ایسا نہیں ہے اس لئے کہ یہ مفہوم جس عقلی طرز استدلال سے وضع کیا گیا ہے وہ طرز استدلال از خود منطقی طور پر کمزور و محل نزاع ہے۔ لیکن اس کے باوجود غامدی صاحب کے نزدیک سب کچھ قطعی ہے

غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ آیت “’ اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا‘ کے الفاظ عربیت کی رو سے تقاضا کرتے ہیں کہ اِن سے پہلے ’اور وقت کی پابندی کرو‘ یا اِس طرح کا کوئی جملہ مقدر سمجھا جائے۔ اِس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوتی ہے کہ قصر کی اجازت کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ نماز کی رکعتوں کے ساتھ اُس کے اوقات میں بھی کمی کر لیں۔” ان محذوف الفاظ کو مقدر ماننا ان کا فہم ہے جو انہوں نے مفہوم مخالف سے کئے گئے اپنے استدلال کو ایک خاص بنا پر قوی بنانے کے لئے فرض کئے ہیں، ان الفاظ کو فرض کیا جانا نہ اس خاص آیت کے اور نہ کسی دوسری آیت کے صریح الفاظ کا تقاضا ہے۔ امام رازی نے دلائل نقلیہ کے ظنی ہونے کے لئے جن دس وجوہات کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک وجہ محذوفات کا احتمال ہے، یعنی کلام میں بسا اوقات الفاظ محذوف ہوتے ہیں اور ان مقدر الفاظ کی بنا پر عبارت کے مفہوم پر اثر پڑتا ہے یہاں تک کہ محذوف الفاظ کے انتخاب سے بعض اوقات اثبات و نفی تک کا فرق پڑ جاتا ہے۔ غامدی صاحب کا یہ استدلال امام رازی کی بیان کردہ اس وجہ کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ اے کاش اصولیین کی بات کو غور سے اور سمجھ کر پڑھا جائے۔ اگر اصلاحی و غامدی صاحبان کی تفاسیر نیز کتاب “میزان” کا مطالعہ اصول فقہ کی روشنی میں کیا جائے تو ایسے “قطعی الدلالت” استدلال کی درجنوں مثالیں ملیں گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…