شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

Published On March 18, 2025
قرار دادِ مقاصد اور حسن الیاس

قرار دادِ مقاصد اور حسن الیاس

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے داماد فرماتے ہیں:۔خود کو احمدی کہلوانے والوں کے ماوراے عدالت قتل کا سبب 1984ء کا امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس ہے؛ جس کا سبب 1974ء کی آئینی ترمیم ہے جس نے خود کو احمدی کہلوانے والوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا؛ جس سبب قراردادِ مقاصد ہے جس...

کیا علمِ کلام ناگزیر نہیں ؟ غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

کیا علمِ کلام ناگزیر نہیں ؟ غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

ڈاکٹر زاہد مغل غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ علم کلام ناگزیر علم نہیں اس لئے کہ قرآن تک پہنچنے کے جس استدلال کی متکلمین بات کرتے ہیں وہ قرآن سے ماخوذ نہیں نیز قرآن نے اس بارے میں خود ہی طریقہ بتا دیا ہے۔ مزید یہ کہ علم کلام کا حاصل دلیل حدوث ہے جس کا پہلا مقدمہ (عالم حادث...

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (2)

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (2)

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد ڈاکٹر اسرار احمد پر طنز اور استہزا کا اسلوب اب اس باب سے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں جو غامدی صاحب نے ’احساسِ ذمہ داری‘ کے ساتھ ڈاکٹر اسرار صاحب پر تنقید میں لکھا۔ یہاں بھی انھیں بقول ان کے شاگردوں کے، کم از کم یہ تو خیال رکھنا چاہیے تھا کہ ڈاکٹر...

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (1)

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (1)

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے داماد نے یکسر جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نہایت بے دردی کے ساتھ، اور ہاتھ نچا نچا کر جس طرح فلسطین کے مسئلے پر ہفوات پیش کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کی، اس پر گرفت کریں، تو غامدی صاحب کے مریدانِ باصفا اخلاقیات کی دُہائی...

فلسطین ، غامدی صاحب اورانکے شاگردِ رشید

فلسطین ، غامدی صاحب اورانکے شاگردِ رشید

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!۔ فلسطین کے مسئلے پر غامدی صاحب اور ان کے داماد جناب حسن الیاس نے جس طرح کا مؤقف اختیار کیا ہے، اس نے بہت سے لوگوں کو حیرت کے ساتھ دکھ میں مبتلا کیا ہے، غزہ میں ہونے والی بدترین نسل کشی پر پوری دنیا مذمت...

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)

حسان بن علی جیسا کہ عرض کیا کہ غامدی صاحب احکام میں حدیث کی استقلالی حجیت کے قائل نہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں "یہ چیز حدیث کے دائرے میں ہی نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے" (ميزان) جیسے سود دینے والے کی مذمت میں اگرچہ حدیث صراحتا بیان ہوئی ليكن غامدی...

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب

 

کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار سے نجات دلانے کی کوشش کی اور نتیجتاً میزان کے ابواب میں اپنی فقہ دے دی جسے وہ شریعت قرار دیتے ہیں۔
بعض دوستوں نے “شرع منزل” اور “شرع غیرمنزل” کے فرق کی بات کی تو عرض کیا کہ ان دونوں میں عملاً آپ کیسے فرق کرتے ہیں؟ جسے آپ شرع منزل کہتے ہیں وہ آپ کا فہم ہی تو ہے۔ ضروری نہیں کہ کوئی دوسرا بھی اسے شرع منزل مان لے اگر اس کے اصولوں کی روشنی میں وہ شرع منزل کا حصہ نہیں ہے۔
مثال کے طور پر فقہاے کرام کا اتفاق ہے کہ قتل خطا میں قاتل پر کفارہ ہے لیکن ان کا اس پر اختلاف ہے کہ قتل عمد میں قاتل پر کفارہ ہے یا نہیں؟ امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر قتل خطا میں کفارہ ہے تو قتل عمد میں تو بدرجۂ اولی ہونا چاہیے۔ اسے دلالۃ النص کہتے ہیں (جسے بعض نے قیاس المعنی بھی کہا اور یہ قیاس کی وہ قسم ہے جس کے متعلق شافعیہ تو کیا، ظاہریہ کا بھی ماننا ہے کہ یہ صحیح ہے۔) گویا شافعیہ قتل خطا کے کفارے کی طرح قتل عمد کے کفارے کو بھی نص سے ثابت مانتے ہیں۔ اس کے برعکس امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ قتل عمد کی سزا کے متعلق نصوص (جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ العمد قود) کے اشارے سے معلوم ہوا کہ قتل عمد میں کفارے کی سزا نہیں ہے اور حنفیہ کے اصول کی رو سے دلالۃ النص کی بہ نسبت اشارۃ النص زیادہ قوی ہے۔
اب ہمارے دوست ہی ہمیں بتادیں کہ قتل عمد میں کفارہ شرع منزل کا حصہ ہے یا شرع غیر منزل کا؟ ویسے وہ جو کچھ بھی بتائیں گے، وہ ان کی فقہ ہی ہوگی۔
یہیں سے اس سوال کا جواب بھی واضح ہونا چاہیے جو بعض اہل علم نے اٹھایا کہ شریعت تو ایک ہے لیکن فقہ تو کئی ہیں۔ جی نہیں۔ میرے لیے شریعت وہی ہے جو میرے فہم کے مطابق شریعت ہے۔ میں اپنے فہم میں غلطی کا امکان مانتا ہوں اور غلطی واضح ہونے پر مان بھی لوں گا کہ شریعت یہ نہیں وہ ہے لیکن اس کے بعد سابقہ راے میرے لیے شریعت نہیں رہے گی۔
بھئی، یہ وہی مسئلہ ہے جسے اصول فقہ میں یوں ذکر کیا جاتا ہے کہ مجتہدین کے اختلاف میں کیا سب حق پر ہوتے ہیں یا حق پر کوئی ایک ہی ہوتا ہے؟ حنفی اصول یہی ہے کہ حق پر ایک ہی ہوتا ہے، اگرچہ دوسروں کو بھی اجتہاد کا اجر ملے گا۔ اپنی حد تک مکمل کوشش کے بعد جسے میں نے حق سمجھا وہ میرے لیے حق ہے۔ امر واقعہ میں وہ حق ہے یا نہیں؟ اس کا علم اللہ کے سوا کس کو ہوسکتا ہے؟ اس نے مجھے حتی الوسع کوشش کا مکلف ہی بنایا ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ کیا قیاس سے ثابت شدہ حکم شریعت کا حصہ ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب بھی بالکل واضح ہے۔ جو فقہاے کرام یہ مانتے ہیں کہ قیاس حجت ہے وہ اصل میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں منصوص احکام پر قیاس کا حکم دیا ہے۔ اسی لیے ان کےلیے قیاس سے ثابت شدہ حکم بھی شریعت کا حصہ ہوتا ہے۔ تاہم جو ظاہری فقہاے کرام قیاس کو حجت نہیں مانتے ان کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول نے منصوص احکام پر قیاس کی اجازت نہیں دی ہے۔ اسی لیے ان کے نزدیک قیاس سے ثابت احکام شریعت کا حصہ نہیں ہیں۔
یہی بات استحسان، استصحاب اور استنباط کے دیگر طرق کے متعلق بھی کہی جائے گی۔
بلکہ یہی بات غامدی صاحب کا حلقہ اپنے اصولوں کے متعلق بھی مانتا ہے، جیسے نظم قرآن، اتمام حجت وغیرہ۔
بلکہ یہی کچھ “فقہ دستور” کے متعلق بھی صحیح ہے۔ دستور کی تعبیر کے متعلق بعض اصول کچھ جج صاحبان مانتے ہیں اور اس وجہ سے قرار دیتے ہیں کہ فلاں بات دستور کی رو سے ضروری ہے۔ جو ان اصولوں کو نہیں مانتے وہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ دستور میں یہ کہاں لکھا ہوا ہے؟
ھذا ما عندی، و العلم عند اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…