فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، میزان اور فرقان (قسط سوم، حصہ دوم)

Published On August 15, 2024
تفہمِ غامدی : ایک تجزیہ

تفہمِ غامدی : ایک تجزیہ

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

غامدی صاحب کا فکری مغالطہ (2)

غامدی صاحب کا فکری مغالطہ (2)

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

غامدی صاحب کا فکری مغالطہ (2)

غامدی صاحب کا فکری مغالطہ (1)

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 13

غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 13

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 13

غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 12

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 13

غامدی سے اختلاف کیا ہے ؟ قسط 11

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر

تلخیص : وقار احمد

اس ویڈیو میں زبیر احمد صاحب غامدی صاحب کے نظریہِ تفہیم و تبیین پر گفتگو فرمائی ہے۔
وہ فرماتے ہیں کہ غامدی صاحب کا ماننا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص نہیں کرسکتے ہاں البتہ تفہیم و تبیین ضرور کر سکتے ہیں
غامدی صاحب کی غلطی یہ ہے کہ وہ تحدید و تخصیص کو ترمیم و تغیر کے معنوں میں لیتے ہیں حالانکہ خود قرآن نے سورۃ مائدہ آیت 3 میں ” وَ الدَّمَ “کی تخصیص سورۃ الانعام کی آیت 145 میں ” دَمًا مَّسْفُوْحًا ” سے کر دی ہے
مطلب یہ کہ پہلی آیت میں فرمایا کہ خون حرام ہے جبکہ دوسری آیت میں ایک کنڈیشن لگادہ کہ بہتا ہوا خون ہی حرام ہے یہ تحدید و تخصیص تو خود قرآن میں پائی جاتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک تبیین کیا ہے ، غامدی صاحب سورۃ النحل کی آیت ” وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ* ” سے استدلال فرماتے ہیں اب اس آیت میں بھی دیکھیے کہ۔” نُزِّلَ اِلَیْهِمْ ” الگ چیز ہے اور” تبیین ” الگ چیز۔ اس آیت کا بھی یہی مظلب ہے کہ قرآن کے ساتھ ساتھ تبیین بھی یے جو کہ سنت و حدیث ہی ہو سکتی ہے۔ دوسرا غامدی صاحب کا ہی اصول ہے کہ کسی لفظ کا معنی پہلے قرآن سے دیکھا جائے گا تو قرآن نے یہ لفظ تحدید کے معنوں میں استعمال فرمایا ہے دیکھیے سورۃ بقرہ آیت (وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةًؕ-قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًاؕ-قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ(67)قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ ؕ-قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِكْرٌؕ-عَوَانٌۢ بَیْنَ ذٰلِكَؕ-فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ(68)قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُهَاؕ-قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءُۙ-فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ(69)قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَۙ-اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَهَ عَلَیْنَاؕ-وَ اِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ(70)) یہاں گائے کو ذبح کرنے کا حکم ہے وہاں لفظ تبیین ہی استعمال فرمایا ہے اور آگے تحدید ہی تو ہے۔
تو یہاں سے یہ تو واضح ہو گیا کہ لفظ تبیین میں تحدید و تخصیص پوشیدہ ہے اور آئمہ دین کا موقف بھی یہی ہے ،
امام شاطبی نے الموافقات میں تبیین کے معنوں میں تحدید و تخصیص کو شامل فرمایا ہے اور چور کے ہاتھ کلائی تک کاٹنے کو انہوں نے بطور مثال پیش کیا ہے اسی طرح امام شافعی نے تو اس عنوان سے الرسالہ میں ایک باب باندھا ہے ۔امام ابن قیم نے اعلام الموقعین میں بیان کی نو قسمیں بیان کیں ہیں اور ہر جگہ سنت سے مثالیں دی ہیں ۔ تو سادہ بات کہ خود قرآن اور جمہور آئمہ اسی بات کے قائل ہیں کہ تبیین کے معنوں میں تحدید و تخصیص شامل ہوتی ہے اب سوال یہ ہے کہ غامدی صاحب نے یہ نظریہ بنایا کیوں اپنایا ہے ۔تو اس کہ وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے کچھ فتاؤی ایسے ہیں کہ جس کے لیے یہ رائے قائم کرنا لازمی ہے مثلاً رجم کا انکار وغیرہ ۔ تو اس کو جسٹیفائی کرنے کے لیے انہوں نے یہ موقف اپنایا ہے۔
قطعی الدلالہ۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ قطعی الدلالہ کا ۔ اس میں غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ قرآن سارے کا سارا قطعی الدلالہ ہے ، لیکن جمہور کا موقف یہ ہے کہ قرآن کا کچھ حصہ تو قطعی ہے اور کچھ ظنی ہے۔ یہ اگر متکلم کے لحاظ سے کہی جائے گی تو ٹھیک ہے ورنہ قاری کے لیے تو کلام ظنی بھی ہوتا ہے اور قطعی بھی۔ اب مسئلہ یہ یے کہ کوئی اگر قطعی معنی تک پہنچنا چاہے تو کیا کرے، تو اس کے لیے غامدی صاحب اپنے بنائے اصولوں کا کہہ دیں گے، لیکن کیا وہ اصول الہامی ہیں ظاہر ہے کہ قطعاً نہیں تو ان کے زریعے کیسے قطعیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ دوسرا ان اصولوں کا اطلاق کرنے والے جب آپس میں اختلاف کرتے ہیں تو کیسے پتہ چلے کہ کون ٹھیک ہے اور کون غلط ، جیسے کہ پردہ کے بارے میں انہی کہ استاذ امام حمیدالدین فراہی صاحب اور غامدی صاحب کا موقف الگ الگ ہے، تو سوال یہ ہے کہ ان کو قطعیت حاصل کیوں نا ہو سکی

ویڈیو درج ذیل لنک سے ملاحظہ فرمائیں

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

تفہمِ غامدی : ایک تجزیہ

تفہمِ غامدی : ایک تجزیہ

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

غامدی صاحب کا فکری مغالطہ (2)

غامدی صاحب کا فکری مغالطہ (2)

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE

غامدی صاحب کا فکری مغالطہ (1)

غامدی صاحب کا فکری مغالطہ (1)

جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک کتابچہ “مبادی تدبر قرآن” لکھا ہے ۔ جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ قرآن جن و انس کی ہدایت کے لئے اترا ہے اسلئے ا س میں اتنے تکلفات کی ضرورت نہیں کہ اسے سمجھنے کے لئے صرف ، نحو ، شانِ نزول وغیرہ کا علم حاصل کیا جائے بلکہ قرآن اپنا فہم بنا ان علوم کی تحصیل کے خود دیتا ہے ۔
ایک دعوی انہوں نے یہ بھی کیا کہ آج تک جتنے مفسرین نے تفسیریں لکھیں ہیں وہ سب اپنے مسلک کی نمائندگی کے لئے لکھی ہیں جن میں اصلا قرآن کی تفسیر بہت کم ہے ۔
انکی پہلی بات تمام امت کے متفقہ طریقے کے خلاف ہے ۔ قرآن اگرچہ حلال و حرام جاننے کے لئے آسان ہے کیونکہ وہ بالکل واضح ہے لیکن قرآن کی ہر آیت کی تفسیر کا یہ حال نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت ابوبکر قرآن کی بابت اپنی رائے دینے سے ڈرتے تھے ۔
دوسری بات میں انہوں نے امت کے تمام مفسرین پر نعوذ باللہ بہتان باندھا ہے ۔
https://youtu.be/z1W6pzbSn2Q?si=rHNh5f8iTA5aOtCE