ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
کیا قرآن کے کسی بھی حکم کو سنت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے ؟ کیا جن آیات کو “آیات الاحکام” کہا جاتا ہے ان سے “احادیث الاحکام” کے بغیر شرعی احکام کا صحیح استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ ایک reverse engineering کی کوشش جناب عمر احمد عثمانی نے کی تھی “فقہ القرآن ” کے نام سے اور ان کا بنیادی آئیڈیا یہ تھا کہ “ہدایہ” میں جو احکام ہیں ان میں سے ایک ایک کا
جائزہ لے کر دکھایا جائے کہ کون سے احکام ایسے ہیں جو “صرف قرآن” سے اخذ کیے گئے ہیں ۔ بہت جلد ان کو بھی اندازہ ہوگیا کہ reverse engineering میں بھی یہ کام اتنا آسان نہیں ۔ چناں چہ جلد ہی انھیں بہت ساری روایات پر بہت تفصیلی بحثوں میں جانا پڑا ۔
ایک زمانے میں جناب غامدی صاحب حدیث ِ معاذ رضی اللہ عنہ کا حوالہ اکثر دیتے رہتے تھے جس میں بتایا گیا ہے کہ اگر قرآن میں حکم نہ ہو تو سنت کی طرف جایا جائے گا ۔ (ان دنوں ان کے نزدیک سنت اور حدیث میں فرق نہیں ہوا کرتا تھا ۔ نیز اس حدیث کی استنادی حیثیت پر بحث کی بھی ان کے ہاں کچھ خاص اہمیت نہیں تھی ۔ ) میرا سوال اس وقت بھی یہ تھا کہ اگر قرآن میں حکم نہ ملے تو سنت کی طرف جائیں گے لیکن اگر قرآن میں حکم ہو تو کیا وہیں رک جائیں گے اور آگے سنت کی طرف نہیں دیکھیں گے ؟ مثال کے طور پر قرآن نے کہا کہ “السارق” کا “ید” کاٹ دو ۔ اب کیا ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ دیکھیں کہ لغت ِ عرب میں “السارق” اور “ید” کسے کہتے ہیں ؟ یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ زمانۂ جاہلیت میں ان الفاظ کا مصداق کیا تھا ؟ چلیں السارق کو فی الحال بھول جاتے ہیں لیکن اگر “ید” سے مراد ہاتھ ہے ، یعنی انگلی سے لے کر شانے تک کا پورا عضو اور قرآن نے اسے کاٹنے کا حکم دیا ہے تو شانے سے کاٹ لیں ( کہ یہ پورا ہاتھ ہے ) ؟ یا کہنی سے (کہ وضو میں قرآن نے یہاں تک دھونے کا حکم دیا ہے ؟ حالانکہ دھونے اور کاٹنے کے احکام میں بہت زیادہ فرق ہے !) غامدی صاحب کا جواب کیا تھا ؟ اس پر کسی اور وقت روشنی ڈالیں گے ، ان شاء اللہ ۔ فی الوقت تو “اسلامی بینکاروں” کی توجہ درکار ہے کہ ان کے اصول فقہ کی رو سے ان سوالات کے جوابات وہ کیا دیتے ہیں ؟
اسی بنا پر امام طحاوی نے “احکام القرآن” کے نام سے جو کتاب لکھی اس کے مقدمے میں ساری بحث قرآن اور حدیث کے تعلق پر کی ہے کیونکہ جب تک یہ اصولی مسائل نہ طے کیے جائیں قرآن سے کسی حکم کا صحیح استنباط نہیں کیا جاسکتا۔