دہشت گردی کیا ہے؟

Published On May 23, 2025
غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق کی بات کررہے ہیں جو ایک مسلمان صرف دین "اسلام" کےلیے مان سکتا ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام واحد حق نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ دوسرے بھی تو اپنے لیے یہی سمجھتے ہیں، محض بے عقلی ہے۔...

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کیا قرآن کے کسی بھی حکم کو سنت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے ؟ کیا جن آیات کو "آیات الاحکام" کہا جاتا ہے ان سے "احادیث الاحکام" کے بغیر شرعی احکام کا صحیح استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ ایک reverse engineering کی کوشش جناب عمر احمد عثمانی نے کی تھی "فقہ...

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب اتنی قطعیت کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ سامنے والے نے اگر کچھ پڑھا نہ ہو (اور بالعموم ان کے سامنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں)، تو وہ فورا ہی یقین کرلیتے ہیں، بلکہ ایمان لے آتے ہیں، کہ ایسا ہی ہے۔ اب مثلا ایک صاحب نے ان کی یہ بات پورے یقین کے...

فقہ اور اصولِ فقہ کے متعلق جہلِ مرکب کا شاہ کار

فقہ اور اصولِ فقہ کے متعلق جہلِ مرکب کا شاہ کار

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   غامدی صاحب کا حلقہ اپنے متعلق ہمارے حسنِ ظن کو مسلسل ختم کرنے کے درپے ہے اور اس ضمن میں تازہ ترین کوشش ان کی ترجمانی پر فائز صاحب نے کی ہے جنھوں نے نہ صرف یہ کہ فقہ اور اصولِ فقہ کے متعلق اپنے جہلِ مرکب کا ، بلکہ فقہاے کرام کے متعلق اپنے...

روم و فارس کے ساتھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی جنگیں :اتمامِ حجت ،دفاع یا کچھ اور ؟

روم و فارس کے ساتھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی جنگیں :اتمامِ حجت ،دفاع یا کچھ اور ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   جناب غامدی صاحب کے مکتبِ فکر کےنظریۂ "اتمامِ حجت" ،جسے یہ مکتبِ فکر "قانون" کے طور پر پیش کرتا ہے ،کافی تفصیلی بحث ہم کرچکے ہیں ۔اس بحث کا ایک موضوع یہ بھی تھا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے روم و فارس کے خلاف جو جنگیں لڑیں ، کیا وہ...

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

 

معاصر دنیا میں دہشت گردی (Terrorism) کے لفظ کا استعمال انتہائی کثرت سے ہوتاہے لیکن اس کے مفہوم پر بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ ریاستی نظم کے خلاف یا اس سے آزاد ہو کر کی جانے والی ہر مسلح کوشش کو دہشت گردی قرار دیتے ہیں اور اس بنا پر دہشت گردی کی ”تاریخ“کو بہت دور تک لے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کئی لوگ اس ضمن میں ان یہودی ”خنجرزنوں“ (Sicarii) کا ذکر کرتے ہیں جو فلسطین پر رومی قبضے کے دوران میں رومی سرکاری عہدیداروں کو قتل کرنے کے لیے خود اپنی جان پر بھی کھیل جاتے تھے۔ یہودی ”انتہا پسندوں“ (Zealots) کا بھی اس ضمن میں ذکر کیا جاتا ہے۔ پھر چونکہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے ایک حواری کے نام کے ساتھ بھی Zealot کا لفظ لگا ہوا تھا اس لیے بعض لوگوں نے سیدنا مسیح علیہ السلام کی دعوت کو بھی حکومت کے خلاف انقلاب اور بغاوت کی تحریک قرار دیا۔
خوارج کا بھی اس سلسلے میں خصوصی طور پر نام لیا جاتا ہے جنہوں نے پہلے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کے لیے مشن تشکیل دیے۔ حسن بن صباح کے تیار کردہ فدائین یا حشاشین (Assassins) کا بھی اس ضمن میں خصوصی طور پر ذکر کیا جاتا ہے جن کے متعلق عام طور پر مشہور تھا کہ وہ حشیش کے نشے میں ڈوب کر جنت کے نظارے دیکھتے اور پھر اس جنت کے حصول کے لیے کسی مخصوص شخص کو قتل کرنے کے مشن پر روانہ ہوجاتے۔
مغربی دنیا میں قومی ریاستوں کے وجود میں آنے کے بعد یہ اصطلاح بالخصوص انقلاب فرانس کے ضمن میں روا رکھے جانے والے مسلسل ”عہد دہشت“ (Reign of Terror) کے لیے استعمال کی گئی۔ جب مغربی طاقتوں نے ایشیا اور افریقہ پر قبضہ کیا تو اس قبضے کے خلاف کی جانے والی ہر مزاحمت کو دہشت گردی کا نام دیا گیا۔ تاہم، جیسا کہ بیسویں باب میں واضح کیا گیا، وقت کے ساتھ جب کئی ریاستیں آزاد ہوگئیں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان نوآزاد ریاستوں کی اکثریت ہوگئی تو جنرل اسمبلی نے حق خود ارادیت کو تمام انسانوں کا بنیادی حق تسلیم کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کئی قراردادوں میں اسمبلی نے طے کیا ہے کہ حق خودارادیت کی جدوجہد کرنے والوں کے خلاف ریاستی جبر کا استعمال ناجائز ہے۔ اسی طرح ان قراردادوں میں طے کیا گیا ہے کہ آزادی کی جدوجہد اگر اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قانون کے اصول عامہ کے مطابق ہوتو جائز ہے اور ان کی مدد بھی جائز ہے۔ یہیں سے یہ بحث شروع ہوئی کہ کیا جنگ آزادی اور دہشت گردی میں فرق کیا جاسکتا ہے؟ اور یہی اس بات کا بنیادی سبب ہے کہ اب تک بین الاقوامی قانون میں دہشت گردی کی متفقہ تعریف وجود میں نہیں آسکی۔ مغربی ممالک ریاست کے خلاف مزاحمت کی ہر صورت کو دہشت گردی قرار دینا چاہتے ہیں، جبکہ ترقی پذیر ممالک آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کی تعریف سے مستثنی قرار دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم بیسویں باب کے آخر میں اشارہ کرچکے، آزادی کی تحریک اور دہشت گردی میں کوئی لازم و ملزوم کا تعلق نہیں ہے۔ آزادی کی مسلح جدوجہد دہشت گردی کے ارتکاب کے بغیر بھی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح دہشت گردی مسلح جدوجہد آزادی تک ہی محدود نہیں، ریاستیں بھی دہشت گردی کا ارتکاب کرتی ہیں اور آزادی کے بجائے کسی اور مقصد کی خاطر بھی دہشت گردی کی جاسکتی ہے۔ پس دہشت گردی کی معروضی تعریف ممکن ہے اگر ذاتی تعصب اور پسند ناپسند سے بالاتر ہو ا جائے۔
———–
دہشت گردی کی تعریف
——————-
2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے دوران میں جناب جاوید احمد غامدی سے ایک انٹرویو لیا گیا جس میں انہوں نے افغانستان پر امریکی حملے کو دہشت گردی قرار دینے سے واشگاف الفاظ میں انکار کیا اور اپنی جانب سے دہشت گردی کی یہ تعریف پیش کی:
”غیر مقاتلین (Non-combatants) کی جان‘ مال یا آ برو کے خلاف غیرعلانیہ تعدی دہشت گردی ہے“۔
اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب غامدی صاحب دہشت گردی کوجنگ اور قتال کے تناظر اورسیاق میں ہی دیکھ رہے ہیں کیونکہ مقاتلین و غیر مقاتلین کی اصطلاحات قانون ِ جنگ کے تحت ہی استعمال ہوتی ہیں۔ یہ اس تعریف کی بنیادی کمزوری ہے کیونکہ دہشت گردی کا ارتکاب حالت ِ جنگ کے علاوہ حالت ِ امن میں بھی کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے یہ صرف قانون ِ جنگ کا ہی نہیں بلکہ عام فوجداری قانون کا بھی مسئلہ ہے۔
غامدی صاحب نے مزید یہ قرار دیا کہ بعض اوقات دہشت گردی کا ارتکاب مقاتلین کے خلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کی وضاحت انہوں نے ان الفاظ میں کی:
”اگر مسلح افواج بھی بر سر جنگ نہیں ہیں تو ان پر بھی غیر علانیہ حملہ دہشت گردی قرارپا ئے گا“۔
بہ الفاظ دیگر جاوید صاحب کے نزدیک دہشت گردی ”غیر علانیہ تعدی“ کو کہا جاتا ہے، خواہ اس کا ارتکاب غیر مقاتلین کے خلاف کیا جائے، یا ان مقاتلین کے خلاف جو برسر جنگ نہ ہوں۔ ان کی اس تعریف پر راقم الحروف نے تنقید کی کہ یہ جامع نہیں ہے کیونکہ اگر غیر مقاتلین کے خلاف غیر علانیہ تعدی دہشت گردی ہے تو پھر ان کے خلاف علانیہ تعدی تو بدرجہئ اولیٰ دہشت گردی کہلائے گی۔ اسی طرح مقاتلین کے خلاف علانیہ حملہ بھی بعض اوقات دہشت گردی کہلا سکتا ہے۔ اس کے جواب میں جاوید صاحب کے شاگرد رشید جناب منظور الحسن صاحب نے جاوید صاحب کی وضع کردہ تعریف کی وضاحت ان الفاظ میں کی:
”…… لفظ علانیہ میں یہ باتیں لازماً مقدر سمجھی جائیں گی:
ایک یہ کہ مخالفین کو واضح طور پر متنبہ کیا جائے کہ اگر بات نہ مانی گئی تو ان کے خلاف کاروائی ہوگی۔
دوسرے یہ کہ ”اگر وہ مقاتلین ہیں تو انہیں ہتھیار ڈالنے اور اگر غیر مقاتلین ہیں تو انہیں مطیع ہو کر یا راہ فرار اختیار کر کے جان، مال اور آبرو بچانے کا پورا موقع دیا جائے۔“
راقم الحروف کی رائے یہ تھی کہ اس توضیح کے بعد بھی جاوید صاحب کی وضع کردہ تعریف ناقص رہتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی گروہ نے بیچ بازار میں برسرعام اعلان کر کے کہا کہ لوگ اگر دوکان بند کر کے گھروں میں نہیں جائیں گے تو وہ ان پر فائرنگ کر دیں گے۔ اور پھر وہ ہوائی فائرنگ کر دیتے ہیں جس سے کوئی زخمی یا ہلاک نہیں ہوا تو کیا یہ دہشت گردی نہیں ہوگی؟ یا اگر انہوں نے ہوائی فائرنگ بھی نہیں کی لیکن صرف اسلحہ کی نمائش کی اور فائرنگ کی دھمکی دی تو کیا اسے دہشت گردی نہیں کہا جائے گا؟ اسی طرح اگر کہیں مقاتلین کے خلاف کاروائی ہو رہی ہے اورعلانیہ ہو رہی ہے اور غیر مقاتلین ان سے کوسوں دور محفوظ مقامات جیسے ہسپتال، ریڈ کراس کے دفاتر، خوراک کے گودام، سکول کی عمارت وغیرہ میں مقیم ہیں مگر عین ہسپتالوں اور سکولوں وغیرہ شہری آبادی پر بمباری کی گئی تو کیا یہ دہشت گردی نہیں ہوگی؟ غامدی صاحب کا موقف یہ تھا کہ افغانستان پر امریکی حملہ دہشت گردی نہیں تھا اور اس کی دلیل انھوں نے یہ دی تھی:
”اس میں عام شہریوں کو دانستہ ہدف تو نہیں بنایا جارہا۔ باقی یہ معاملہ دنیا کی ہر جنگ میں ہوتا ہے یعنی ایسی کسی جنگ کی ضمانت نہیں دی جاسکتی جسمیں عام شہریوں کی جان و مال کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ انہیں دانستہ ہدف نہ بنایا جائے۔“
اس سے معلوم ہوا کہ اگر غیر مقاتلین کو دانستہ ہدف بنایا جائے (اور دیگر ضروری عناصر بھی ہوں) تو کاروائی دہشت گردی قرار پائے گی۔ اسی وجہ سے میں نے اپنی تنقید میں کہا تھا کہ غیر مقاتلین کے خلاف طاقت کے استعمال میں اصل اہمیت علانیہ یا غیر علانیہ کی نہیں بلکہ دانستہ یا غیر دانستہ، یا جائز و ناجائز کی ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ کس طرح ثابت کیا جائے گا کہ غیر مقاتلین پر حملہ دانستہ کیا گیا ہے یا غیر دانستہ؟اور وہ اصلاً ہدف بنائے گئے یا مقاتلین پر حملہ کرتے ہوئے غیر مقاتلین ضمناً (Collaterally) غیر ارادی طور پر(Unintentionally) نشانہ بن گئے؟تو یہ کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے۔ حملہ آور کے قول اور فعل دونوں کو مدنظر رکھ کر حالات و قرائن کی گواہی کے مطابق اسی طرح فیصلہ کیا جائے گا جیسا کہ دنیا کے ہر معاملے میں کیا جاتا ہے۔
یوناہ الیگزینڈر (Yonah Alexander)، جنھیں دہشت گردی سے متعلق امور کا ماہر سمجھا جاتا ہے، دہشت گردی کی تعریف ان الفاظ میں دیتے ہیں:
”دہشت گردی یہ ہے کہ عام شہری آبادی اور تنصیبات کے خلاف تشدد کا استعمال اس طرح کیا جائے کہ لوگوں میں ایک عمومی خوف کا احساس پیدا ہو اور اس طرح کوئی سیاسی مقصد حاصل کیا جاسکے۔“
اس تعریف کی خوبی یہ ہے کہ اس میں دہشت گردی کے نتیجے -عمومی خوف کا احساس – پر زور دیا گیا ہے۔ اس عمومی خوف کے احساس کی وضاحت میں ایک اور محقق رچرڈ کلٹر بک (Richard Clutterbuck)کا کہنا ہے کہ دہشت گردی ایک تماشاہے جس کا اصل نشانہ زخمی یا ہلاک ہونے والا نہیں بلکہ تماشا دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ وہ اس بات کی بڑی عمدہ وضاحت کرتے ہیں کہ عموماً دہشت گردوں کا نشانہ عام شہری کیوں بنتے ہیں:
”ایک پرانی چینی ضرب المثل اس کو اچھی طرح واضح کرتی ہے: ایک کو اس طرح قتل کردو کہ ایک ہزار خوفزدہ ہوں! ایک فوجی کا قتل اس کے دس ہزار ساتھیوں کو خوفزدہ کرنے کے بجائے بندوق اٹھاکر قاتل کی تلاش میں نکلنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی عام شہری کا قتل اس کے گھر کے باہر گلی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ہوجائے تو اس گلی کے اکثر لوگ خوفزدہ ہوجاتے ہیں کہ کہیں ایسا ہی ان کے ساتھ نہ ہو۔“
تاہم یوناہ کی تعریف میں بنیادی نقص یہ ہے کہ اس میں دہشت گردی کی کاروائی کو عام شہریوں تک محدود کردیا گیا ہے، حالانکہ مقاتلین کے خلاف کی جانے والی بعض کاروائیاں بھی دہشت گردی کے ضمن میں آسکتی ہیں۔ عالمی عدالت انصاف کی سابق جج روزلین ہگنز (Rosalyn Higgins) نے اس بنا پر دہشت گردی کی تعریف ان الفاظ میں کی:
”دہشت گردی کی اصطلاح دراصل ان بالعموم ناپسندیدہ افعال کو ایک ہی عنوان کے تحت ذکر کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن میں یا تو طریقہ ناجائز ہو، یا اہداف کو حملے سے قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے، یا یہ دونوں باتیں ان میں شامل ہوں، خواہ ان کا ارتکاب ریاست کرے یا افراد۔“
ہمارے نزدیک یہ دہشت گردی کی ایک مناسب تعریف ہے جس سے دہشت گردی کے جرم کے بنیادی عناصر سامنے آجاتے ہیں:
۔ حملے کے طریقے کا ناجائز ہونا (جیسے غدر (Perfidy) پر مبنی حملہ؛
۔ حملے کے ہدف کا قانونی طور پر محفوظ ہونا (اس میں غیر مقاتلین بھی آگئے اور وہ مقاتلین بھی جن پر حملہ ناجائز ہو)۔
انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ دہشت گردی میں کبھی ان میں ایک عنصر پایا جاتا ہے اور کبھی دونوں۔ مثال کے طور پر اگر برسرجنگ مقاتلین پر جنگ کے دوران میں حملہ کیا جائے تو یہ دہشت گردی نہیں ہوگی اگر حملے کا طریقہ قانوناً جائز ہو۔ اگر کسی نے سادہ لباس میں آکر کسی مارکیٹ میں خود کش حملہ کیا تو یہاں طریقہ بھی قانوناً ناجائز ہے اور ہدف کو بھی قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس تعریف کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ دہشت گردی کا ارتکاب جیسے افراد کرتے ہیں، ایسے ہی اس کا ارتکاب ریاستیں بھی کرتی ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے انٹر نیشنل لاء کمیشن نے ”بنی نوع انسان کے تحفظ اور امن“ کے لیے جس قانونی ضابطے کا مسودہ تجویز کیا تھا اس میں دہشت گردی کو ”جارحیت“ کی ایک قسم کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ”کسی ریاست کے عہدیداروں کی جانب سے کسی دوسری ریاست میں دہشت گردی کی کاروائی کرنا یا اس کی حوصلہ افزائی کرنا“ بھی جارحیت میں شامل ہے۔
تاہم جج ہگنز کی تعریف میں نقص یہ ہے کہ اس کے تحت دہشت گردی اور عام جرم میں فرق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عام جرم میں بھی یا طریقہ ناجائز ہوتا ہے، یا ہدف قانوناً محفوظ ہوتا ہے، یا یہ دونوں باتیں اس میں موجود ہوتی ہیں۔ غامدی صاحب کی وضع کردہ تعریف پر میری تنقید کے جواب میں منظور الحسن صاحب نے کہا تھا کہ اگر آپ کی بات مانی جائے تو دہشت گردی اور عام جرم میں فرق نہیں کیا جاسکے گا۔ اس کے جواب میں راقم نے لکھا تھا کہ عام جرم میں طاقت اور تشدد کا استعمال ضروری نہیں ہے جبکہ دہشت گردی کا لازمی عنصر طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی ہے۔ باقی رہے وہ جرائم جن میں طاقت استعمال کی جاتی ہے یا اس کی دھمکی دی جاتی ہے تو ان میں اور دہشت گردی میں فرق کے لیے راقم نے کہا تھا کہ اگر ایسے جرم کا لازمی نتیجہ عمومی خوف کے احساس کا پیدا ہونا ہو یا یہی اس سے مقصود ہو تو یہ دہشت گردی ہوگی ورنہ نہیں۔ اس پر اعتراض کرتے ہوئے منظور صاحب نے لکھا کہ کیا آپ قتل کی دھمکی دینے والے پر قتل کی سزا نافذ کرنے کی اجازت دیں گے؟
اس کے متعلق میں نے عرض کیا تھا کہ یہ قیاس مع الفارق ہے۔ قتل کے جرم اور دہشت گردی میں فرق ہو تا ہے۔ یقینا قتل کا جرم اور قتل کی دھمکی دو الگ جرائم ہیں۔ مگر دہشت گردی کی دھمکی بھی دہشت گردی ہی ہو تی ہے۔ دہشت گردی دراصل دوسروں کو خوفزدہ کرکے ان کے حقوق پر تعدی ہو تی ہے۔ یہ ”خوفزدہ کرکے حقوق پر تعدی“ طاقت کے استعمال کے ذریعے بھی ہو سکتی ہے ا ور اس کی دھمکی کے ذریعے بھی۔ البتہ پہلی صورت میں سزا سخت ہو گی اور دوسری صورت میں نسبتاً کم۔ تاہم سزاؤں میں فرق کی وجہ سے جرم کی ماہیت (Nature)میں تبدیلی نہیں ہو گی بلکہ صرف درجے (degree)کا ہی فرق ہوگا۔
ایک اور ماہر قانون برائن جینکنز (Brian Jenkins) بڑے دلچسپ انداز میں دہشت گردی کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں :
”دہشت گردی کی تمام صورتیں اصلاً جرائم ہیں۔ اس کی اکثرشکلیں آداب القتال کی خلاف ورزی پر مبنی ہوتی ہیں۔ تمام صورتوں میں طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی شامل ہوتی ہے اور اس کے ساتھ کوئی مطالبہ ہوتا ہے۔ عموماً اس کاروائی کا نشانہ غیر مسلح شہری ہوتے ہیں۔ محرکات ہمیشہ سیاسی ہوتے ہیں۔ کاروائی اس طرح کی جاتی ہے کہ اسے بڑی شہرت حاصل ہو۔ کاروائی کرنے والے عموماً کسی منظم گروہ کے رکن ہوتے ہیں، اور عام مجرموں کے برعکس کاروائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ اخیراً دہشت گردی کی کاروائی میں لازماً یہ عنصر موجود ہوتا ہے کہ کاروائی کے نفسیاتی اثرات اس کے فوری مادی نقصانات سے زیادہ ہوں۔“
اس تعریف کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دہشت گردی کی بعض ایسی صفات ذکر کی گئی ہیں جو ”کلی“ یا ”لازمی“ہیں، یعنی وہ دہشت گردی کی پر کاروائی میں پائی جاتی ہیں، جبکہ بعض ایسی خصوصیات بھی ذکر کی گئی ہیں جو ”اکثری“ یا ”عمومی“ ہیں جو عام طور پر تو پائی جاتی ہیں مگر بعض اوقات دہشت گردی کی کاروائی ان کے بغیر بھی پائی جاسکتی ہے۔ پہلے کلی صفات پر نظر دوڑائیے:
۱۔ دہشت گردی کی تمام صورتیں اصلاً جرائم ہیں۔
۲۔ تمام صورتوں میں طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی شامل ہوتی ہے۔
۳۔ تمام صورتوں میں طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی کے ساتھ کوئی مطالبہ ہوتا ہے۔
۴۔ محرکات ہمیشہ سیاسی ہوتے ہیں۔
۵۔ کاروائی اس طرح کی جاتی ہے کہ اسے بڑی شہرت حاصل ہو۔
۶۔ دہشت گردی کی کاروائی میں لازماً یہ عنصر موجود ہوتا ہے کہ کاروائی کے نفسیاتی اثرات اس کے فوری مادی نقصانات سے زیادہ ہوں۔
اب دہشت گردی کی ان صفات پر نظر ڈالیے جو اکثری ہیں:
۱۔ اس کی اکثرشکلیں آداب القتال کی خلاف ورزی پر مبنی ہوتی ہیں۔
۲۔ عموماً اس کاروائی کا نشانہ غیر مسلح شہری ہوتے ہیں۔
۳۔ کاروائی کرنے والے عموما ًکسی منظم گروہ کے رکن ہوتے ہیں۔
۴۔ کاروائی کرنے والے عموما ًعام مجرموں کے برعکس کاروائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
ہمیں اس تعریف سے بنیادی طور پر اتفاق ہے تاہم دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے:
اولاً یہ کہ دہشت گردی کی کاروائی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ کسی تنظیم کے ارکان کریں۔ اس کا ارتکاب کوئی فرد بھی کرسکتا ہے اور ریاست بھی۔
ثانیاً یہ کہ دہشت گردی کی کاروائی کی ذمہ داری قبول کرنے کی روایت اب دم توڑ رہی ہے۔ ذمہ داری اس لیے قبول کی جاتی تھی کہ جس مقصد کے لیے وہ کاروائی کی جاتی تھی اس کی طرف لوگوں کی توجہ ہو۔ تاہم اب ایسا نہیں کیا جا تا جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس قسم کی کاروائی کے نتیجے میں لوگوں کی ہمدردیاں دہشت گردوں کے مقصد کے بجائے دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے ساتھ ہوجاتی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کا مقصد چند لوگوں کو دہشت زدہ کرنا ہوتا ہے اور یہ مقصد بسا اوقات یوں حاصل کیا جاتا ہے کہ کاروائی کرنے والے ”نامعلوم حملہ آور“ کی صورت میں پراسرار دشمن بن جائیں۔
اس ساری بحث سے معلوم ہوا کہ دہشت گردی اس فعل کو کہتے ہیں جس میں قانوناً ناجائز طریقے سے طاقت کا استعمال کیا جائے یا اس کی دھمکی دی جائے، یا جس کا طریقہ تو جائز ہو مگر اس کا ہدف وہ لوگ ہوں جن کو قانوناً حملے سے تحفظ حاصل ہو، خواہ وہ جنگجو ہوں یا شہری، اور اس فعل کا لازمی نتیجہ یہ ہو کہ معاشرے یا اس کے کسی مخصوص طبقے میں عمومی طور پر خوف کا احساس پیدا ہو جائے،خواہ اس کا ارتکاب افراد کریں، یا ان کی تنظیم،یا کوئی حکومت۔
یہ صحیح ہے کہ بین الاقوامی قانون نے دہشت گردی کی متفقہ تعریف نہیں پیش کی مگر حملے کی چند صورتیں ایسی ہیں جن کو قانوناً دہشت گردی قرار دیا ہے، مثلاً:
۱۔ شہری آبادی یا تنصیبات پر حملہ؛
۲۔ شہری ہوابازی کے طیاروں کو اغوا کرنا؛
۳۔ شہریوں یا جنگجوؤں کو یرغمال بنانا؛
۴۔ جنگجوؤں پر ان لوگوں کا حملہ جو شہریوں کے بھیس میں ہوں؛
۵۔ جنگجوؤں پر زہریلی گیسوں اور کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال وغیرہ۔
ہم اس کتاب کے تیسرے حصے میں تفصیل سے واضح کرچکے ہیں کہ یہ تمام امور جس طرح بین الاقوامی قانون کے تحت ناجائز ہیں اسی طرح اسلامی شریعت کے تحت بھی حرام ہیں۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…