ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...
نیشن سٹیٹ اور غامدی صاحب
داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ
مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...
تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب تلخیص : زید حسن اس ویڈیو میں سپیکر حافظ محمد زبیر صاحب نے " بعض افراد" کے اس دعوے کہ آپ کی تفہیمِ غامدی درست نہیں ، کو موضوعِ بحث بنایا ہے ۔ لیکن اس پر از راہِ تفنن گفتگو کرنے کے بعد چند اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے اور غامدی منہج پر سوالات...
تراویح کے متعلق غامدی صاحب کے غلط نظریات کا رد
ڈاکٹر نعیم الدین الازہری صاحب تلخیص : زید حسن رمضان المبارک کی بابرکت ساعات میں امتِ مسلمہ روزے اور عبادات میں مشغول ہے ، لیکن سوشل میڈیا پر چند ایسی آوازیں گاہے بگاہے اٹھتی نظر آتی ہیں جن میں ان عبادات کا انکارکیا گیا ہے جن پر امتِ مسلمہ ہزاروں سالوں سے عمل کرنی چلی...
ابن عابدین شامی کی علامہ غامدی کو نصیحت
سمیع اللہ سعدی علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فتاوی شامی میں متعدد مقامات پر مسئلہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :۔و ھذا مما یعلم و یکتم یعنی یہ مسئلہ سیکھنا تو چاہیے ،لیکن عممومی طور پر بتانے سے گریز کیا جائے ۔فقاہت اور دین کی گہری سمجھ کا یہی تقاضا ہے کہ کتابوں میں...
علمِ کلام پر غامدی صاحب کی غلط فہمی
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب جناب غامدی صاحب علم کلام پر ماہرانہ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ علم بے معنی و غیر ضروری ہے اس لئے کہ یہ فلسفے کے اس دور سے متعلق ہے جب وجود کو علمیات پر فوقیت دی جاتی تھی، علم کلام وجودی فکر والوں کے طلسم خانے کا جواب دینے کے لئے وضع کیا...
ڈاکٹر تزر حسین
غامدی صاحب اور حسن الیاس جب نیشن سٹیٹ کی بات کرتے ہیں تو وہ لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم نشین سٹیٹ کے دور میں جی رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے دینی فکر میں موجود اصظلاحات جدید دور میں قابل عمل نہیں اور اس چیز نے دینی فکر کو جمود کا شکار کردیا ہے۔ انکی رائے میں دین میں ایسا کوئی حکم نہیں جو کہ نشین سٹیٹ کی تردید میں ہو۔ اور اس بنیاد پر جدید دور کے پڑھے لکھے لوگ اس کی موقف کی تائید بھی کرتے ہیں اور غامدی صاحب کی فکر سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ اور عمومی طورپر غامدی صاحب بھی اس بدلی ہوئی دنیا کے ساتھ چلنے کی بات کرتے ہیں اور اس حوالے سے روایتی فکر پر تنقید کرتے ہیں۔ اس نیشن سٹیٹ کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نیشن سٹیٹ میں ریاست کا کوئی مذہب نہیں اور نہ ہی ائین میں کوئی مذہبی بات کی جاسکتی ہے کیونکہ ایسا کرنا نیشن سٹیٹ کے تصور کے خلاف ہیں اور یہ کہ ایسا کرنا کوئی مذہبی بنیاد نہیں رکھتا۔
وہ اسلامی احکام کو ایک پارٹی کے منشور کی سطح پر لے کر اتے ہیں اور ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ دینی احکام کو نافذ کرنا مسلمان حکمران کا کام ہے یہ ریاست سے متعلق نہیں۔ وہ اس حوالے سے سیکولرزم کے بہت قریب پہنچتے پہنچتے رک جاتے ہیں اور اپنی فکر اور سیکولرزم میں ایک لائن کھینچ لیتے ہیں۔
اج حسن الیاس صاحب نے جزیرہ نما عرب کے حوالے سے پوسٹ کی اور یہ کہا کہ جزیرہ نما عرب میں مندر اور کسی اور عبادت خانہ بنانے کی اجازت نہیں۔ اور ابھی جو عرب امارات میں جو مندر بنا ہے یہ دینی حکم کی خلاف ورزی ہے۔ اس پر بہت سارے جدید پڑھے لکھے لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ نیشن سٹیٹ کے اس دور میں اس حکم کی کیا حیثیت بنتی ہے۔ کہ اپ ہر جگہ مسجد بناتے رہے لیکن اپنے مقدس زمین پر کسی اور کی عبادت خانہ بنانے کی اجازت نہ ہو۔ بہت سارے لوگوں کو غامدی صاحب کی طرف سے یہ موقف عجیب لگتا ہے۔ اور وہ اسکو جدید دور کے تقاضوں کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔ اور اس حوالے سے حسن صاحب اور غامدی صاحب کا جواب بھی یہی ہے جو کہ عمومی طور پر روایتی فکر کیطرف سے اتا ہے۔ اور وہ یہ کہ جدید دور کے لوگ مغربی تہذیب سے اتنے مرعوب ہوچکے ہیں کہ انکو معیار جدید مغربی تہذیب ہے اور یہ لوگ صرف کلچرل مسلمان ہیں۔ ان لوگوں کے مطابق جو معیار جدید تہذیب کی طرف سے اتا ہیں دین کا وہی حکم انکے لیے قابل قبول ہیں۔ حسن صاحب نے ایسے لوگوں کو بالکل اسی انداز میں جواب دیا ہے جس طرح روایتی فکر کے لوگ انکو نیشن سٹیٹ کے حوالے سے دیتے ہیں۔
اس بحث میں میرے لیے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جدید فکر اور مغربی تہذیب کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر ایک کنفلکٹ ضرور موجود ہیں۔ اور جب غامدی صاحب یہ بات کہتے ہیں کہ نیشن سٹیٹ کو مان کر ہمیں اگے جانا چاہیے تو وہ خود بھی نیشن سٹیٹ کے تصور یا اسکے بعض پہلووں کو رد کرتے ہیں جہاں وہ اسکے دینی فکر کے مقابل اجائے۔ غامدی صاحب ٹکراو کی اس لائن کو بہت قریب جاکر کینچھتے ہیں اور باقی لوگ تھوڑا فاصلہ سے اسکو کھینچ لیتے ہیں۔ اور دوسری اہم بات یہ کہ غامدی صاحب کے ہاں بھی جو اصل بحث ہے وہ یہ ہونی چاہیے کہ دین کیا کہتا ہے یہ نہیں کہ فلاں اصطلاح اج کے دور میں قبول ہے یا نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ غامدی صاحب جدیدیت کے بہت سارے اقدار کو مان کر بھی بعض مغربی اقدار کے خلاف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تزر حسین صاحب نے السٹر یونیورسٹی (یوکے) سے کمپوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور اسی مضمون سے بطور لیکچرار منسلک ہوں۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
علمِ کلام پر غامدی صاحب کی غلط فہمی
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب جناب غامدی صاحب علم کلام پر ماہرانہ تبصرہ کرتے...
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ہفتم )
مولانا صفی اللہ مظاہر العلوم ، کوہاٹ اقدامی جہاد اور عام اخلاقی دائرہ:۔...
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ششم )
مولانا صفی اللہ مظاہر العلوم ، کوہاٹ اقدامات صحابہ اور غامدی صاحب کا...