کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟ غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

Published On February 25, 2025
فہم نزول عیسی اور غامدی صاحب

فہم نزول عیسی اور غامدی صاحب

حسن بن علی غامدی صاحب نے بشمول دیگر دلائل صحیح مسلم کی حدیث (7278، طبعہ دار السلام) کو بنیاد بناتے ہوئے سیدنا مسیح کی آمد ثانی کا انکار کیا ہے. حدیث کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ رومی...

تراث ، وراثت اور غامدی صاحب : حصہ دوم

تراث ، وراثت اور غامدی صاحب : حصہ دوم

حسن بن علی اسی طرح تقسیم میراث کے دوران مسئلہ مشرکہ (حماریہ یا ہجریہ) کا وجود مسلم حقيقت ہے جس کے شواہد روایتوں میں موجود ہیں لیکن غامدی صاحب (سورۃ النساء آيت 12 اور آیت 176) كى خود ساختہ تفسیر کے نتیجے میں یہ مسئلہ سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا. اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ...

سنت نبوی اور ہمارے مغرب پرست دانشوروں کی بیہودہ تاویلیں

سنت نبوی اور ہمارے مغرب پرست دانشوروں کی بیہودہ تاویلیں

بشکریہ : ویب سائٹ " بنیاد پرست"۔ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم   اور جدید تہذیب  نے   مسلمانوں کے ذہنوں پر جو اثرات مرتب کیے ہیں ، اس کی عجیب عجیب مثالیں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں،  یہود ونصاری نے ہمارے جوانوں کی اس حد تک برین واشنگ کردی ہے کہ  یہ    نہ صرف جدید تہذیب و...

مسئلہ تکفیر : غامدیت و قادیانیت

مسئلہ تکفیر : غامدیت و قادیانیت

عبد اللہ معتصم ایک  مسئلہ تکفیر کا ہے۔ اس میں بھی غامدی صاحب نے پوری امت سے بالکلیہ ایک الگ اور شاذ راستہ اختیار کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ صرف پیغمبر ہی کسی شخص یا گروہ کی تکفیر کر سکتا ہے۔ کسی غیرنبی، عالم، فقیہ یا مفتی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی شخص یا گروہ کو...

مرتد کی سزائے قتل سے انکار

مرتد کی سزائے قتل سے انکار

عبد اللہ معتصم یہ بات اسلامی قانون کے کسی واقف کار آدمی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام میں اس شخص کی سزا قتل ہے جو مسلمان ہوکر پھر کفر کی طرف لوٹ جائے۔ ہمارا پورا دینی لٹریچر شاہد ہے کہ قتل مرتد کے معاملے میں مسلمانوں کے درمیان کبھی دورائے نہیں پائی گئیں۔ نبیصلی اللہ علیہ...

قرآن کی من مانی تفسیر

قرآن کی من مانی تفسیر

عبد اللہ معتصم اپنے پیش رو مرزا قادیانی کی طرح غامدی صاحب بھی قرآن کی من مانی تفسیر، الفاظ کو کھینچ تان کر اپنے مطلب کی بات نکالنے میں طاق ہیں۔ قرآن کی معنوی تحریف اور جمہور امت سے ایک الگ اعتزال کی راہ اپنانا اور ایک امتیازی رائے رکھنا ان کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔...

ڈاکٹر محمد زاہد مغل

محترم غامدی صاحب سے جناب حسن شگری صاحب نے پروگرام میں سوال کیا کہ آپ وحدت الوجود پر نقد کرتے ہیں تو بتائیے آپ ربط الحادث بالقدیم کے مسئلے کو کیسے حل کرتے ہیں؟
اس کے جواب میں جو جواب دیا گیا وہ حیرت کی آخری حدوں کو چھونے والا تھا کہ اس سوال کا جواب دینا دینی لحاظ سے ضروری نہیں، لہذا میں جواب نہیں دوں گا (ساتھ ہی انہوں نے یہ مثال بھی بیان فرمائی کہ مثلا حضرت علی خلیفہ تھے یا نہیں اس کا جواب دینا دینی ضرورت نہیں، گویا یہ دونوں ایک قسم کی اہمیت کے حامل مسائل ہیں)۔ اس جواب سے معلوم ہوتا ہے گویا غامدی صاحب اس مسئلے کو کوئی فلسفیانہ موشگافی وغیرہ سمجھتے ہیں۔ دینیات کے مجھ سے طالب علموں کے لئے دین کے ایک بنیادی ترین مسئلے سے متعلق ان کا یہ جواب گریز اور ادھورے پن کے سوا کچھ نہیں۔ اس جواب میں کئی سطح پر مسائل ہیں، مثلاً:
1) امت مسلمہ کے علما کا یہ موقف ہے کہ عقل و نقل میں تضاد نہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بنیادی ترین مسئلے پر عقل و نقل میں ہم آہنگی کی کیفیت کیا ہے؟ چنانچہ وحدت الوجود پر نقد کا شوق پورا کردینے سے اس سوال کا کوئی جواب فراہم نہیں ہوتا یہاں تک کہ متبادل بھی فراہم کیا جائے۔
2) اس مسئلے کا براہ راست تعلق قرآن مجید میں مذکور لفظ “خلق” اور “خالق” کے معنی سے ہے، یعنی خدا کے خالق ہونے کا کیا مطلب ہے؟ مسلم فلاسفہ و متکلمین اس بارے میں مختلف الخیال ہیں۔ تو کیا خلق کا معنی متعین کئے بغیر اسلامی عقیدے کا تقاضا پورا ہوسکتا ہے؟ کیا قرآن کی ان سینکڑوں آیات کا مفہوم مقرر ہوسکتا ہے جن میں یہ اور اس کے قریب المعنی الفاظ آئے ہیں (مثلا “جعل”)؟ دین میں یہ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ اس میں اختلاف کی بنا پر امام غزالی نے فلاسفہ کی تکفیر تک کی جبکہ ہمیں بتایا جارہا ہے کہ اس کا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں!
3) پھر ربط الحادث بالقدیم اس قدر بنیادی ہے کہ اس کی درست تفہیم پر ہی توحید و شرک کا مدار ہے۔ خدا اور مخلوق میں تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ ان دونوں میں وجہ تمییز کیا ہے؟ کیا عالم کو قدیم کہنا شرک کو لازم ہے؟ صفات باری اور ذات میں کیا نسبت ہے؟ کیا خدا اور کائنات میں اتحاد کی نسبت ہے؟ کیا حلول کی نسبت ہے؟ کیا عینیت کی نسبت ہے؟ کیا غیریت کی نسبت ہے، اگر ہاں تو یہ غیریت کس نوعیت کی ہے (مثلاً کیا یہ زمانی و مکانی ہے)؟ یہ ہیں وہ بنیادی سوالات جن کا عنوان “ربط الحادث بالقدیم” ہے، کیا ان بنیادی ترین سوالات کا جواب دئیے بغیر توحید و شرک کا مفہوم مقرر ہوسکتا ہے؟ کیا ان کا جواب دئیے بغیر ان سب آیات کا ہم آہنگ مطلب مقرر ہوسکتا ہے جو اس ضمن میں قرآن کے اندر مذکور ہیں؟ الغرض ربط الحادث بالقدیم کا مسئلہ محض فلسفیانہ بحث نہیں ہے بلکہ مذہبی عقیدے کا وہ لازمی و بنیادی ستون ہے جس پر تمام عقائد کی عمارت قائم ہے، اس سے غفلت کا نتیجہ شرک ہو سکتا ہے۔
چنانچہ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا جواب علمی طور پر غیر اطمینان بخش ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی عقائد کے مباحث سے نا آشنائی کا مظہر بھی ہوگا۔ دین کے ہر سنجیدہ طالب علم پر لازم ہے کہ وہ اس کا جواب دے اور اسی وجہ سے اس امت کے سب بڑے ذہنوں نے اس سوال کو بحث کا بنیادی نکتہ بنایا ہے اور عقیدے و اصول الدین کی سب کتب میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…