ڈاکٹر محمد امین مغربی تہذیب کے غلبے کے نتیجے میں جب اہل مغرب نے مسلمان ممالک پر قبضہ کر لیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اس وقت تک جو صورت حال ہے کہ مغربی استعمار بظاہر مسلم ممالک سے نکل گیا ہے لیکن اپنا تہذیبی، تعلیمی، سیاسی اور معاشی تسلط بہرحال اس نے مسلم دنیا پر...
رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب
معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق کے جواب میں
ابو عمار زاہد الراشدی محترم جاوید احمد غامدی کے بعض ارشادات کے حوالے سے جو گفتگو کچھ عرصے سے چل رہی ہے اس کے ضمن میں ان کے دو شاگردوں جناب معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق خان نے ماہنامہ اشراق لاہور کے مئی ۲۰۰۱ء کے شمارے میں کچھ مزید خیالات کا اظہار کیا ہے جن کے بارے میں...
کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط چہارم
(ڈاکٹر حافظ محمد زبیر) امام ابن قیمؒ کا موقف امام صاحب سنت کے ذریعے قرآن کے نسخ کے قائل نہیں ہیں اور سنت کو ہر صورت میں قرآن کا بیان ہی ثابت کرتے ہیں۔ امام ابن قیمؒ نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ متقدمین علمائے سلف تخصیص ‘تقیید وغیرہ کے لیے بھی نسخ کا لفظ استعمال کر...
کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط سوم
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر امام شاطبیؒ کا موقف امام شاطبیؒ کا موقف بھی وہی ہے جو کہ امام شافعی ؒ کاہے کہ سنت نہ توقرآن کو منسوخ کرتی ہے اور نہ ہی اس کے کسی حکم پر اضافہ کرتی ہے بلکہ یہ اس کا بیان(یعنی قرآن کے اجمال کیتفصیل‘ مشکل کا بیان‘مطلق کی مقید اور عام کی مخصص) ہے۔امام...
کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط دوم
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر قرآن وسنت کا باہمی تعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے مُبَیّن(وضاحت اورتشریح کرنے والے) ہیں اور جناب غامدی صاحب بھی اس بات کو مانتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب ’برہان‘ میں قرآن و سنت کے باہمی تعلق کے عنوان سے اس موضوع پر مفصل گفتگو کی...
کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط اول
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر ہر دور میں انسان اپنے’ ما فی الضمیر ‘ کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے زبان کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ انسان اپنے خیالات ‘افکار ‘نظریات‘جذبات اور احساسات کو اپنے ہی جیسے دوسرے افراد تک پہنچانے کے لیے الفاظ کو وضع کرتے ہیں۔ کسی بھی زبان...
ابو عمار زاہد الراشدی
ہم محترم جاوید احمد غامدی صاحب کا یہ ارشاد گزشتہ کالم میں پیش کر چکے ہیں کہ سنت ان کے نزدیک دین ابراہیمیؑ کی کسی ایسی روایت کے تسلسل کا نام ہے جسے جناب نبی اکرمؐ نے بھی مناسب ترمیم و اضافہ کے ساتھ باقی رکھا ہو۔ ان کے اس ارشاد کی کسوٹی پر ہم رجم کی شرعی حیثیت کے مسئلہ کو پرکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ بات واضح کر سکیں کہ غامدی صاحب محترم اور ان کے رفقاء رجم کے معاملہ میں خود اپنے قائم کردہ اصول پر قائم نہیں رہ سکے۔
رجم کے لفظی معنی سنگسار کرنا ہے یعنی کسی شخص کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دینا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں متعدد جرائم کی شرعی سزا کے طور پر بطور قانون رائج تھا۔ مثلاً
شرک اور بت پرستی کے لیے سنگسار کرنے کی سزا تھی۔ (بحوالہ استثناء ۷/۱۷)
ہفتہ کے دن کی بے حرمتی پر سنگسار کی سزا تھی۔ (گنتی ۳۶-۳۲/۱۵)
جادوگر کے لیے سنگسار کی سزا تھی۔ (احبار ۲۷/۲۰)
اللہ تعالیٰ کی توہین پر سنگسار کی سزا تھی۔ (احبار ۱۴-۱۳/۲۴)
غیر اللہ کی نذر ماننے والے کے لیے سنگسار کی سزا تھی۔ (احبار ۲-۱/۲۰)
اسی طرح شادی شدہ مرد یا عورت کے زنا کا مرتکب ہونے پر بھی اس کے لیے شرعی سزا یہ تھی کہ اسے برسرعام سنگسار کر دیا جائے۔ چنانچہ توریت کی کتاب استثناء باب ۲۲ آیت ۲۲ میں ہے کہ
’’اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے ہوئے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں، یعنی وہ مرد بھی جس نے اس عورت سے صحبت کی اور وہ عورت بھی۔‘‘
اس کی تائید حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی انجیل میں بھی ہے جیسا کہ انجیل یوحنا باب ۸ آیت ۳ میں ہے کہ
’’اور فقیہ اور فریسی ایک عورت کو لائے جو زنا میں پکڑی گئی تھی، اسے بیچ میں کھڑا کر کے یسوع سے کہا اے استاذ ! یہ عورت زنا میں عین فعل کے وقت پکڑی گئی ہے، توریت میں موسیٰ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کریں پس تو اس عورت کے بارے میں کیا کہتا ہے؟‘‘
اس کے بعد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دین ابراہیمیؑ کی اس مسلسل روایت کی توثیق فرمائی۔ چنانچہ امام بخاریؒ صحیح بخاری کی کتاب الحدود میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت کرتے ہیں۔ یہ روایت بخاری شریف کے پانچ چھ دیگر مقامات میں بھی موجود ہے اور ان سب روایات کو سامنے رکھتے ہوئے واقعہ کی ترتیب یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں ایک یہودی جوڑا یعنی مرد اور عورت زنا کے مجرم کے طور پر پیش کیے گئے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ میں تمہاری کتاب کے مطابق اس مقدمہ کا فیصلہ کروں گا اور خود یہود کے علماء سے دریافت کیا کہ تمہارے ہاں اس جرم کی سزا کیا ہے؟ کہنے لگے کہ ہمارے ہاں زنا کی سزا یہ ہے کہ دونوں کا منہ کالا کر کے پھرایا جائے اور کوڑے مارے جائیں۔ آنحضرتؐ نے پوچھا کہ کیا تمہارے دین میں اس کی سزا رجم (سنگسار کرنا) نہیں ہے؟ یہودی علماء نے جواب دیا کہ نہیں۔
اس پر مجلس میں موجود حضرت عبد اللہ بن سلامؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ! یہ جھوٹ بولتے ہیں، تورات میں زنا کی سزا سنگسار کرنا ہی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ یہود کے بڑے علماء میں سے تھے جو مسلمان ہوگئے تھے اور صحابی رسول تھے۔ ان کے کہنے پر آپؐ نے یہودی علماء کو تورات لانے کے لیے کہا، تورات لائی گئی اور ایک یہودی عالم نے اس کا متعلقہ حصہ پڑھنا شروع کیا مگر اس طرح کہ رجم والی آیت پر اس نے ہاتھ رکھ دیا اور آگے پیچھے پڑھتا رہا۔ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ جھٹکا اور وہ آیت پڑھی جس میں زنا کی سزا رجم بیان کی گئی ہے۔ اس پر جناب نبی اکرمؐ نے اس یہودی جوڑے کو سنگسار کر دیا۔
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسلمانوں کے ایک سے زیادہ کیس آئے جن میں آپؐ نے زنا کے شادی شدہ مرتکب حضرات کو سنگسار کرنے کی سزا دی۔ پھر خلفائے راشدینؓ کے زمانہ میں اس سزا کا تسلسل باقی رہا۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق امیر المومنین حضرت عمرؓ نے خطبہ جمعہ میں اس بات کا اعلان کیا کہ کتاب اللہ کی رو سے شادی شدہ مرد یا عورت کے لیے زنا کی سزا رجم کرنا ہی ہے اور کوئی شخص اس کے بارے میں کسی شک و شبہ کا شکار نہ ہو۔ پھر بخاری شریف ہی کی روایت کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے دور خلافت میں زنا کے ایک کیس میں رجم کی سزا دی اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ میں یہ سزا جناب نبی اکرمؐ کی سنت کے مطابق دے رہا ہوں۔ اس کے بعد امت کے جمہور اہل علم کا یہی موقف رہا ہے اور چودہ سو سال کے دوران جہاں بھی حدود شرعیہ نافذ ہوئی ہیں وہاں شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے زنا کی سزا یہی نافذ رہی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ دین ابراہیمیؑ کی یہ روایت جس کا ذکر تورات میں موجود ہے، انجیل اس کی تصدیق کرتی ہے، جناب نبی اکرمؐ نے نہ صرف اس کی تصدیق کی بلکہ اسے بطور قانون نافذ کر کے اس کے تسلسل کو برقرار رکھا، اور امت میں بھی چودہ سو سال سے یہی سزا ’’شرعی حد‘‘ کے طور پر متعارف چلی آرہی ہے۔ پھر دین ابراہیمیؑ کا یہ تاریخی اور اجماعی تعامل آخر غامدی صاحب کے ہاں کیوں قابل قبول نہیں ہے؟
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدیت: غامدی صاحب کے افکار و نظریات کا منصفانہ جائزہ
مصنف: مفتی محمد وسیم اختر شاذلی (رئیس دارالافتاء فیضانِ شریعت ، کراچی)...
بیس رکعت تراویح اور غامدی صاحب کا موقف
سوال : جاوید احمد غامدی کے نزدیک تراویح کی نماز سرے سے ہے ہی نہیں, برائے...
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر
مولانا عند الحمید تونسوی اہلِ اسلام کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ حضرت...