غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 47)

Published On March 13, 2024
نزول عیسی اور قرآن، غامدی صاحب اور میزان : فلسفہ اتمام حجت

نزول عیسی اور قرآن، غامدی صاحب اور میزان : فلسفہ اتمام حجت

حسن بن علی نزول عیسی کی بابت قرآن میں تصریح بھی ہے (وإنه لعلم للساعة فلا تمترن بها واتبعون، سورة الزخرف - 61) اور ایماء بھی (وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ،سورة النساء - 159؛ ويكلم الناس في المهد وكهلا، سورة آل عمران - 46؛ أفمن كان على بينة من ربه ويتلوه...

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

ڈاکٹر محمد مشتاق ردِّ عمل کی نفسیات نائن الیون کے بعد پاکستان میں بم دھماکوں اورخود کش حملوں کا بھی ایک طویل سلسلہ چل پڑا اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے علاوہ سوات اور دیر میں بھی تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی آپریشن کیے گئے۔ جنرل مشرف اور حکومت کا ساتھ...

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط سوم

ڈاکٹر محمد مشتاق بادشاہ کے بجائے بادشاہ گر یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان اسلامک فرنٹ کے تجربے کی ناکامی کے بعد بھی غامدی صاحب اور آپ کے ساتھی عملی سیاست سے یکسر الگ تھلگ نہیں ہوئے اور اگلے تجربے کےلیے انھوں نے پاکستان تحریکِ انصاف اور عمران خان کی طرف رخ کیا۔ ڈاکٹر...

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق اتمامِ حجت اور تاویل کی غلطی ۔1980ء کی دہائی کے وسط میں جناب غامدی نے ’نبی اور رسول‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جو اس وقت میزان حصۂ اول میں شائع کیا گیا۔ یہ مضمون دراصل مولانا اصلاحی کے تصور ’اتمامِ حجت‘ کی توضیح پر مبنی تھا اور اس میں انھوں نے مولانا...

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق ۔22 جنوری 2015ء کو روزنامہ جنگ نے’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘ کے عنوان سے جناب غامدی کا ایک کالم شائع کیا۔ اس’جوابی بیانیے‘ کے ذریعے غامدی صاحب نے نہ صرف ’دہشت گردی‘کو مذہبی تصورات کے ساتھ جوڑا، بلکہ دہشت گردی پر تنقید میں آگے بڑھ کر اسلامی...

فہم نزول عیسی اور غامدی صاحب

فہم نزول عیسی اور غامدی صاحب

حسن بن علی غامدی صاحب نے بشمول دیگر دلائل صحیح مسلم کی حدیث (7278، طبعہ دار السلام) کو بنیاد بناتے ہوئے سیدنا مسیح کی آمد ثانی کا انکار کیا ہے. حدیث کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ رومی...

مولانا واصل واسطی

اس محفل میں جناب غامدی کی ایک اور تحقیق احبابِ کرام کے سامنے پیش کریں گے  جس میں جناب نے اپنے زعم کے مطابق یہ ثابت کیاہے   کہ اس ،، حدیث ،، سے بھی قران کی ،، تخصیص وتحدید ،، کا دعوی محض علماء میں ،، قلتِ تدبر یا سوء فہم ،، کا نتیجہ ہے ۔پہلے جناب کی عبارت دیکھ لیں لکھتے ہیں کہ ،، اللہ تعالی نے جو چیزیں حرام ٹھہرائی ہیں   ان میں ایک ، میتة ، یعنی مردار بھی ہے ۔ عربی زبان کی اسالیب سے واقف ہرشخص جانتا ہے  کہ اس کا ایک لغوی مفہوم بھی ہے   اور یہ عرف وعادت کی رعایت سے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ پہلی صورت میں یہ ہراس چیز کے لیے مستعمل ہے  ۔ جس پر موت وارد ہوگئی ہو  لیکن دوسری صورت میں عربیت سے آشنا کوئی شخص اسے  مثال کے طور پر ٹڈی یا مردہ مچھلی کے لیے استعمال نہیں کرسکتا ۔ چنانچہ بیان کیاگیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،، احلت لنا میتتان ودمان الجراد والحیتان والکبد والطحال ،، ( ترجمہ ) ہمارے لیے دو مری ہوئی چیزیں اوردوخون حلال ہیں۔ مری ہوئی چیزیں مچھلی اور ٹڈی ہے اور دوخون جگر اور تلی ہیں ( میزان ص 40) اس حدیث کے متعلق جناب نے اپنی اس کتاب یہ حاشیہ بھی چڑھایا ہے کہ ،، یہ روایت جس سند سے بیان ہوئی ہے وہ محدثین کے نزدیک موقوف ہے ،، ( ایضا)  ہم پہلے اس حاشیہ کے متعلق بات کریں گے پھر اس کے بعد اصل موضوع پر آنے کی کوشش کریں گے ۔اس عبارت سے غالبا جناب غامدی لوگوں کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں   کہ یہ ہمارا احسان ہے کہ ہم ہرگری پڑی روایت پربحث کرتے ہیں   کیونکہ ان سے ان ہمارے مخالف بچاروں نے استدلال کیا ہوا ہوتا ہے۔ ورنہ یہ روایات سرے قابلِ التفات ہی نہیں ہیں اس لیے کہ موقوف ہیں ۔مگر ہم عرض کریں کہ جناب بخاری کی کتاب المغازی میں اور مسلم کی کتاب الصید الذبائح  میں ،، حدیثِ عنبر ،، وارد ہے  جس کی سند سلسلة الذھب خلافا لمنکری الحدیث ۔ اورخون کا مسئلہ تو قران نے خود حل کیا ہے  کہ دوسرے مقام میں اس کی تفسیر ،، مسفوح ،، سے کی ہے۔اب ذرا ،، حدیثِ عنبر ،، کے کچھ حصے دیکھ لیتے ہیں  ۔ امام مسلم نے اس حدیث کو سیدنا جابربن عبداللہ سے مختلف اسناد کے ساتھ روایت کی ہے۔اس میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں ،، فرفع لنا علی ساحل البحر کھیئة الکثیب الضخم ، فاتیناہ فاذاھی دابّة تدعی العنبر قال قال ابوعبیدة ،، میتة ،، ثم قال لا بل نحن رسل رسول اللہ وفی سبیل اللہ وقداضطررتم فکلوا ( مسلم کتاب الصید والذبائح ،) اس ،، حدیث ،، کے آخری الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہِ کرام نے اسے ،، میتة ،، ہی سمجھا ہے لیکن پھر اس بنا پر اسے کھانے کے لیے جائز قرادیا تھا کہ وہ اس وقت مضطر ومجبور تھے ۔ اورمضطر کے لیے تو ،، میتة ،، کی اجازت خود قران مجید نے دی ہے   لہذا اس پر کوئی اشکال وارد ہی نہیں ہوتا ۔بخاری  میں اسی ،، حدیثِ عنبر ،، کے متعلق سیدنا جابر بن عبداللہ سے تین روایتیں نقل کی ہیں ان میں اگرچہ ،، میتة ،، کالفظ صراحتا موجود نہیں ہے مگر معنی یقینا ادھر بھی موجود ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ،، میتة ،،  کے کھانے کے متعلق سوال کیا ہے( ذکرنا ذالک للنبی صلی اللہ علیہ وسلم ) توانہوں نے جواب میں فرمایا ہے کہ ،، فقال کلوا رزقا اخرجہ اللہ لکم اطعمونا ان کان معکم منہ ، فاتاہ بعضھم فاکلہ ، ( بخاری باب غزوة سیف البحر ) نبی صلی اللی علیہ وسلم کے اس جواب سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ،، میتة ،،  ہی کے متعلق ان سے سوال کیا تھا ۔  ورنہ عملا اسے کھانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عام اصول تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے ایسے اعمال واحکام بجالاتے تھے جن میں ان کو شبہِ حرمت یاکراہت ہوتا تھا   جیساکہ سفر میں روزہ توڑنے کا مسئلہ تھا۔ یہاں بھی ایسی صورتِحال ذہنوں میں موجود تھی اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کا گوشت طلب کیا   اورملنے پراسے لوگوں کے سامنے کھا لیا ۔اگر یہ صرف مچھلی کے گوشت کا شوق تھا تب وہ اسے گھر لے جاتے   مگر ایسا انہوں نے نہیں کیا ۔ہمارا مقصد اس بحث سے یہ ہے کہ ایک تو اس ،، حدیث ،، کی سند صحیح ہے۔ مسئلہ صرف اس موقوف حدیث پر مبنی نہیں ہے کما قالہ ۔ اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ صحابہِ کرام نے اسے شرعی ،، میتة ،، سمجھا  اس لیے تو وہ پہلے اس سے رک گئے   پھر حالتِ اضطرار کو یاد کر کے اسے استعمال کیا ۔ مگر قران میں اس کے استعمال کے لیے ،، غیرباغ ولاعاد ،، کے الفاظ موجود ہیں   اورصحابہ کرام نے اس عنبر کو تقریبا پندرہ دن استعمال کیا ۔اس لیے ذہنوں میں سوال لازما پیدا ہوتاہے کہ ہم تجاوز کرنے والے تو نہیں ہوئے ؟ اورپھر اس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہے ۔ اور یہ بات تو ہم نے دوسری جگہ تفصیل سے بیان کی ہے  کہ جو لوگ قران مجید کے لیے ،، تخاطب ،، اور ،، لغت الخطاب ،، کی بات کرتے ہیں  وہ سارے اس پر متفق ہیں  کہ اس کےلیے وہی لغت معتبرہے کہ جس کا نزولِ قران کے وقت سکہ جاری تھا ۔بعد کے عرب میں رائج لغات ومحاورات کا کوئی اعتبار اس کے لیے نہیں ہے ۔یہ تو ایک شبہ کے دفع کےلیے جملہِ معترضہ ہوا۔ اب قران کے نزول کے زمانے میں جو بولی اہلِ عرب میں رائج تھی  وہ تو سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح اورسیدنا جابر بن عبداللہ وغیرہ کی بولی تھی۔  وہ مچھلی کواس حدیث میں ،، میتة ،، قرار دیتے ہیں اور ،، میتة ،، سے لغوی ،، میتة ،، مراد نہیں لیتے کیونکہ اگر وہ لغوی ،، میتة ،،  اس سے مراد لیتے تب تو اشکال پیدا ہونے کی گنجائش نہیں تھی کہ تمام لغوی ،، میتات ،، کو کس نے حرام قرار دیا ہے؟اتنی بات تو انتہائی مغفل و بے سواد لوگ بھی جانتے ہیں کہ ،، حلال چیز جب مرجائے ،، تو اسے ،، میتة ،، قران کی روسے کہا جاتا ہے ۔تو اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اسے وہ شرعی  ،، میتة ،، اپنے ذہن میں قرار دیاتھا جو اس درجِ بالا آیتِ بقرہ  کی رو سے حرام ہے۔ اور پھر جب انہیں اضطرار اوراپنی مجبوری کا خیال آیا تواس کو جائز سمجھ کرکھالیا ۔اب دیکھو کہ قران مجید کے مخاطین مچھلی کو شرعی ،، میتة ،، جانتے ہیں۔ مگر عرب زبان وادب کے یہ برخود غلط مدعی کہتے ہیں کہ ،، عربیت سے کوئی آشنا شخص اسے عرف وعادت کے اعتبار سے ٹڈی اور مچھلی کے لیے استعمال نہیں کرسکتا ،، اس پربقولِ اقبال یہی کہاجاسکتاہے کہ

 تیری نگاہ فرومایہ دست ہے کوتاہ

تیراگناہ ہے کہ نخلِ بلند کاہے گناہ

اب اس حدیث سے یہ بات بصراحت ثابت ہوگئی ہے کہ ،، میتة ،، کا اطلاق مچھلی پربھی ھوتا ہے  لہذا قران مجید کی ،، تخصیص وتحدید ،، کی بات پھر سامنے آ کر کھڑی ہوگئی ہے ؟ باقی رہی ٹڈی تو اس میں خونِ سائل نہیں ہے لہذااس پر کوئی اشکال سرے سے موجود نہیں ہے۔ جناب غامدی نے اصل اشکال سے جان بچانے کےلیے ابولقاسم زمخشری کی ایک عبارت کا سہارا لیا ہے ۔اس کو ادھر  ،، امامِ اللغہ ،، قراردیا ہے ۔ہم ان کی کتابوں  ،، الفائق ،، اور ،، اساس البلاغة ،، وغیرہ سے الحمد للہ استفادہ بھی کرتے ہیں ۔ مگر تعجب اس بات پر ہے کہ جناب غامدی نے ،، کلالہ ،، کی بحث ( میزان 516) میں اس کے ساتھ ،، امامِ اللغہ ،، کا لفظ نہیں لگایا ہے یہ بلاوجہ تو نہیں ہوسکتا نا ۔غور کرنے پروجہ معلوم ہوگئی الحمد للہ، کیونکہ ادھر جناب غامدی کو جزوی طور پر اس سے اختلاف تھا ۔ مگر یہاں اس سے کلی اتفاق ہے   اس لیے تو فرق کیا ہے ۔ہم کہتے ہیں کہ جناب زمخشری ہمارے اس کرم فرما جناب غامدی کی طرح ندرت پسند طبیعت کے مالک ہیں ۔ بعض اوقات غیرمدلل اقوال کو بھی مددل اورمحکم اقوال پر اس کمزوری کی وجہ سے ترجیح دیتے ہیں ۔ غالبا یہی بات  جناب غامدی کے ،، استادالاستاد ،، مولاناعبدالحمید فراہی نے بھی اس کے متعلق سورت ،، المسد ،، کی تفسیرمیں لکھی ہے ۔ اس لیے زمخشری کے اقوال کو ہم اس نظر سے نہیں دیکھتے جس نظر سے جناب غامدی اسے دیکھتے ہیں ۔ پھر جناب اس کے ساتھ ذہنی اورعقیدوی شراکت بھی تو رکھتے ہیں  مثلا(1)مسلسل گناہ کے مرتکبین کے لیے جناب بھی ابدی جہنم کے قائل ہیں (2) رؤیتِ باری کے متعلق بھی جناب کا وہی نظریہ ہے  (3) شفاعت کے متعلق بھی جناب کا وہی نظریہ ہے (4)  عذابِ قبر اورپلِ صراط کے متعلق بھی جناب اورزمخشری کی رائے تقریبا ایک ہے ۔مطلب یہ ہے کہ زمخشری کو ہم وہ حیثیت نہیں دیتے جو جناب دیتے ہیں ۔ اب جناب نے جو زمخشری کی عبارت اس مشکل سے جان چھڑانے کے لیے نقل کی ہے اسے دیکھ لیں لکھتے ہیں ،، امام اللغة زمخشری لکھتے ہیں : فان قلت فی المیتات مایحل و ھوالسمک والجراد قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،احلت لنا میتتان ودمان ، قلت قصد مایتفاھمہ الناس ویتعارفونہ فی العادة الاتری ان القائل اذا قال اکل فلان میتة ، لم یسبق الوھم الی السمک والجراد ، کمالو قال اکل دما لم یسبق الی الکبد والطحال ولاعتبار العادة والتعارف قالوا من حلف لایاکل لحما فاکل سمکا لم یحنث وان اکل لحما فی الحقیقة ( ترجمہ ) پھر اگرتم سوال کروگے کہ مری ہوئی چیزوں میں سے توکچھ ہمارے لیے حلال بھی ہیں  جیسے مچھلی اور ٹڈی۔ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ہمارے لیے دومری ہوئی چیزیں اور دوخون حلال کیے گئے  تو ہم جواب میں کہیں گے قران میں لفظِ ،، میتة ،، عرف وعادات کے اعتبار سے استعمال ہواہے ۔ کیاتم نہیں دیکھتے کہ جب کوئی کہنے والا کہتا ہے کہ فلان نے مردار کھایا تو ہماراخیال کبھی مچھلی یاٹڈی کی طرف نہیں جاتا ۔ جس طرح اگر اس نے کہا ہوتا کہ فلان شخص نے خون کھالیاہے توذہن کبھی جگر اورتلی کی طرف منتقل نہ ہوتا ۔ چنانچہ عرف وعادات ہی کی بناپر فقہاء نے کہاہے کہ جس نے قسم کھائی کہ وہ گوشت نہیں کھائے گا  پھر اس نے مچھلی کھالی تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی   درآن حالیکہ اس نے حقیقت میں گوشت ہی کھایا ہے ( میزان ص 41) بس اتنی سی عبارت نقل کرکے وہ چودہ سو سال سے فیمابین العلماء جاری بازی جیت گئے ہیں۔ ہم اگے اس کے متعلق اپنی معروضات پیش کریں گے ، ان شاءاللہ تعالی۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…