غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 63)

Published On April 3, 2024
حیاتِ مسیح علیہ السلام : اسکالر صاحب کو جواب

حیاتِ مسیح علیہ السلام : اسکالر صاحب کو جواب

مقرر : مفتی منیر اخون  تلخیص : زید حسن سائل : ہمارے ہاں عموما سمجھا جاتا ہے کہ مسیح علیہ السلام زندہ ہیں اور قربِ قیامت تشریف لائیں گے لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں ۔ اسکی دلیل یہ ہے کہ قرآن میں انکے زندہ موجود ہونے کا ثبوت نہیں ہے ۔ مفتی...

وجہِ تخلیقِ کائنات نبیﷺ کی ذات یا عبادت؟

وجہِ تخلیقِ کائنات نبیﷺ کی ذات یا عبادت؟

مقرر : مفتی منیر اخون  تلخیص : زید حسن سائل : ہر مسلمان سمجھتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وجہ تخلیقِ کائنات ہیں لیکن ایک اسکالر کا کہنا ہے کہ آپ نہیں بلکہ خدا کی عبادت وجہِ تخلیقِ کائنات ہے ۔مفتی منیر اخون : اسکالر صاحب کو مقصد اور علت میں فرق نہ کرنے سے شبہہ ہوا...

ڈاڑھی سنت یا نہیں ؟

ڈاڑھی سنت یا نہیں ؟

مقرر : مفتی منیر اخون  تلخیص : زید حسن سائل : ڈاڑھی کے بارے میں غامدی صاحب کہتے ہیں کہ وہ دین کا حصہ نہیں ہے اور انکا استدلال یہ ہے کہ اسکا قرآن میں تذکرہ نہیں ہے ۔ مفتی منیر اخوان : قرآن شرعی قانون کی کتاب ہے جس میں اصول بیان ہوتے ہیں ، جزئیات و فروعات نہیں ۔ وحی صرف...

واقعہ اسری و معراج : غامدی کو جواب

واقعہ اسری و معراج : غامدی کو جواب

مقرر : مفتی منیر اخوان  تلخیص : زید حسن سائل  :  غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ اسری اور معراج کا واقعہ منامی ہے اور بیداری میں حضور ﷺ نے یہ سفر نہیں کیا ۔ اس پر وہ قرآن کے " رؤیا" سے استدلال کرتے ہیں کہ اسکا معنی غیر معروف نہیں ہے اور کوئی ایسا قرینہ بھی موجود نہیں ہے کہ...

کیا بخاری سو فیصد صحیح ہے ؟ غامدی صاحب کو جواب

کیا بخاری سو فیصد صحیح ہے ؟ غامدی صاحب کو جواب

مقرر : محمد علی مرزا  تلخیص : زید حسن سائل :  غامدی صاحب اور انکی پیروی میں قاری حنیف ڈار صاحب بخاری اور مسلم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جتنے بھی گستاخانِ رسول ہیں وہ انہی کتابوں کی روایات کا حوالہ دیتے ہیں  ۔ انہی کتب میں خدا کے جہنم میں پنڈلی ڈالنے ، حضرت عائشہ رض کے...

غامدی ازم کی گمراہی

غامدی ازم کی گمراہی

مقرر : ساحل عدیم  تلخیص : زید حسن   جب انسان کو اپنا آپ پورا حوالہ کرنے کا کہا جاتا ہے تو وہ اسکے لئے مشکل کام ہوتا ہے جبکہ نبیوں کی دعوت یہی تھی ۔ غامدی ازم کی طرف کوگوں کا شدت سے میلان اسی وجہ سے ہے کیونکہ ڈاکٹر اسرار صاحب کے بالکل برعکس انکی دعوت اجتماعی جد و...

مولانا واصل واسطی

اب چند اور عبارتیں بھی سورتِ نحل ( 123) کے متعلق دیکھتے ہیں ۔ محمدعلی لاہوری لکھتے ہیں ،، ملتِ ابراہیمی پر چلنے کا ارشاد  یعنی وہی کام کرو جو ابراہیم نے کیا۔ مطلب یہ ہے کہ تم بھی شرک کی بیخ کنی کرو  جس طرح حضرت ابراہیم نے کی ۔ کیوں کہ ملتِ ابراہیمی کا اصل الاصول تو یہی بیان کیا ہے کہ وہ مشرکوں میں سے نہ تھا ۔شرک سے دنیا کو صاف کرنا حضرت ابراہیم کا بھی مقصد تھا ۔یہی مقصد محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا بھی تھا ( بیان القران ج1 773)  شیخ جمال الدین قاسمی بھی ،،ان اتبع ملةابراھیم ،، کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ،، ای بعد ھذہ الکرمات والحسنات التی اعطیناہ ایاھا فی الدارین ، شرفناہ وکرمناہ بامرنا ، باتباعک ایاہ فی التوحید واصول الدین التی لاتتغیر فی الشرائع کامرالمبدا والمعاد والحشر والجزاء وامثالھا ، لافی الشریعة واوضاعھا واحکامھا فانھا تتغیر بحسب المصالح واختلاف الازمنة والطبائع وماعلیہ احوال الناس من العادات والخلائق ( محاسن ج 10 ص 557 )  یہی بات اجمالا ہم نے اوپر لکھی ہے ۔ دیگر مفسرین نے بھی ایسی ہی باتیں لکھی ہیں ۔ابن جزی المالکی نے سورتِ انعام کی آیت  ،، فبھدھم اقتدہ ،، کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ،، استدل بہ من قال ان شرع من قبلنا شرع لنا ، فمااصول الدین من التوحید والایمان باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاخر فاتفقت فیہ جمیع الشرائع واما الفروع ففیھا وقع الاختلاف بین الشرائع ،  والخلاف ھل یقتدی النبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فیھا بمن قبلہ ام لا ؟( التسھیل ج1 ص 278)اورامام قرطبی اپنی عادت اوراصول کے مطابق اس آیت کی تشریح میں چند اقوال نقل کرتے ہیں ۔ اور پھر راجح قول کی تصریح کرتے ہیں ،، قال ابن عمر امر باتباعہ فی مناسک الحج کماعلّم ابراھیم جبریل علیھما السلام وقال الطبری امرباتباعہ فی التبرؤ من الاوثان والتزین بالاسلام و قیل امر باتباعہ فی جمیع ملتہ الا ماامر بترکہ قالہ بعض اصحاب الشافعی علی ماحکاہ الماوردی والصحیح الاتباع فی عقائد الشرع دون الفروع لقولہ تعالی ،، لکل جعلنا منکم شرعةومنھاجا ،، ( المائدہ 48)  یعنی راجح قول قرطبی نے نزدیک بھی یہی ہے کہ اس اتباع سے مراد اصول میں اتباع ہے فروع میں نہیں ( الجامع ج 10 ص 175) امام رازی نے اس آیت سے عقائد مراد لینے پر ایک اشکال کا مع ضعیف جواب کے ذکر کیا تھا ۔ جس کے پھر ہم نے چار دیگر جوابات بھی عرض کردیئے تھے ۔ ابو حیان اندلسی نے بھی اس بات کی الگ زاویے سے وضاحت کی ہے ۔وہ بھی دیکھنے کے قابل ہے ۔فرماتے ہیں : ولایحتاج الی ھذا لان المعتقدالذی تقتضیہ دلائل العقول لایمتنع ان یوحی لتظافرالمعقول والمنقول علی اعتقادہ الا تری الی قولہ تعالی ( قل انما اوحی الی انما الھاکم الہ واحد ) فلیس اعتقاد الوحدانیة بمجردالوحی فقط وانما تظافر المنقول عن اللہ فی ذالک مع دلیل العقل وان کان انتفاء الشرک لیس مستندہ مجردہ الوحی بل الدلیل العقلی والدلیل الشرعی تظافرا علی ذالک ( البحر ج5 ص 695) ہمیں صرف نمونہ مفسرین کے اقوال کا پیش کرنا تھا ۔ معتبر اقوال اس بات میں دو ہی ہیں  (1) ایک بات یہ ہے کہ اس آیت میں عقائد اوراصول میں اتباع مطلوب ہے (1) دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے  تمام دین میں اتباع مقصود ہے (3) ایک ضعیف بللکہ اضعف قول یہ بھی بعض تفاسیر میں منقول ہے کہ صرف فروع میں اتباع مطلوب ہے ۔ مگر محقق مفسرین کے نزدیک اصح قول عقائد اوراصول میں اتباع کا ہی ہے۔، اس کے بعد تمام شریعت میں اتباع کا قول ہے ۔ مگر اس پر وہ اشکال وارد ہوتا ہے جس کو ہم نے پیچھے ذکر کیا ہے ۔ اور کچھ مفسرین نے اسے نقل بھی کیا ہے ۔ تیسرا قول محققین کے نزدیک اضعف الاقوال ہے ۔ اس تحقیق سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ جو لوگ اس آیت سے فروع میں اتباع مراد لیتے ہیں   ان کے اس قول کی کوئی بنیادبہرحال اس آیت میں موجود نہیں ہے۔ اس بات کو ذراسمجھنے کی ضرورت ہے ۔اگر یہ اتباع جس کا اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے ہم فروع میں مان لیں تو اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  وحی کی بنیاد پر یہ اتباع کرتے تھے   تب تو یہ وحی کی اتباع ہو گئی ۔ ملتِ ابراہیم کی کس طرح سے اتباع ہوئی ؟ اس کا ہمیں علم نہیں ہے ۔اگر عقائد میں اتباع ہو تو ممکن ہے کہ عقائد میں سب انبیاء کرام اورملتیں شریک ہیں ۔لیکن اگر فروع میں اتباع مراد ہے تو ان میں شراکت بہرحال موجود نہیں ہے ۔اوراگر وہ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان فروع کا اتباع اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ وہ اعمال اور افعال عرب وغیرہ میں رائج تھے ۔ تو  عرض کرتے ہیں کہ پہلے عرب میں مجموعی طور سے وہ اعمال وافعال رائج نہیں تھے بلکہ بعض مشرکین میں بھی بعض لوگوں کے دعوی کے مطابق رائج تھے ۔ اور پھر جو اعمال وافعال رائج بھی تھے  وہ بدعات سے خالص ہرگز نہیں تھے۔ اگر ان بدعات سے بھی ہم ان اعمال کو خالص مان لیں   تو پھر ان کا ثبوت سیدنا ابراہیم سے بطریقِ ظن ووہم ثابت تھا ۔قطعی دلائل سے بالکل ثابت نہیں تھا۔ اور ہمارے یہ کرم فرما تو دین میں ،، ظنی ،، کا نام سن کر بدک جاتے ہیں ۔ پھر وہ ان ،، ظنیات ،، کی اتباع نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے لازم مانتے ہیں؟ اور اس بات پر وہ کس طرح اور کیوں اصرار کرتے ہیں ؟ ہمارا مقصود ادھر فقط یہ ہے کہ یہ اتباع کا حکم فروع میں نہ تھا بلکہ عقائد اوراصول میں تھا   جن کےثبوت کے لیے عام لوگوں کے افکار واعمال کو دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ قران میں ان عقائد واصول کا ذکر ہوا ہے۔ اور عرب معاشرے  میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے عقائد کو تو جانتے تھے مگر ان اعمال سے قطعی بے خبرتھے ۔ جیسے موحد الجاھلیة زید بن عمروبن نفیل کے متعلق تو تفسیر اور تاریخ میں مشہور ہے کہ وہ کہا کرتے تھےکہ میں بتوں کی پوجا نہیں کرتا  کیوں سیدنا ابراہیم علیہ السلام جو ہمارے دادا تھے وہ بھی شرک نہیں کرتے تھے۔ زید بن عمرو بتوں پر ذبح شدہ جانور کا گوشت بھی اسی وجہ سے نہیں کھاتے تھے ۔ اورکہا کرتے تھے کہ:

 ارب واحد ام الف رب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادین اذاتقسمت الامور

ترکت اللات والعزّی جمیعا ۔۔۔۔کذالک یفعل الرجل البصیر

 مگر اعمال وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نہیں جانتے تھے ۔ اور پھراعمال وافعال میں غلطی ہونے اور لگنے کا تو امکان بلکہ وقوع کا بھی تصور بہرحال موجود رہتا ہے۔ لیکن درست عقائد کے اضداد تو بالاتفاق کفر ، شرک اورنفاق ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان میں پڑنا بالاجماع متصور نہیں ہے ۔ اس لیے درست بات وہی ہے جو ہم نے اوپر لکھ لی ہے۔ اب اس آیت کی دوسری مماثل آیت سورتِ انعام کو بھی ذرا دیکھتے ہیں۔ اس کی تفسیر میں تو سب کا اتفاق ہے کہ عقائد اور اصول میں اقتدا مقصود ہے۔ محمد علی کاندھلوی لکھتے ہیں کہ ،، ظاہر ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے اللہ تعالی وہ ہدایت توخود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دے چکا   یعنی اپنی وحی سے دے چکا ۔اورمزید برآن ان انبیاء کرام کی کوئی کتابیں دنیا میں موجود نہ تھیں   کہ ان کو پڑھ کر عمل کرنے کی ہدایت ہوتی ، اور جو کچھ ان کی تعلیم باقی رہ گئی   وہ خود ظنیات میں سے تھی۔ پس ان کی ہدایت کے اقتدا سے مراد صرف ان کے طریق کی موافقت ہے ۔ اور مطلب یہ ہے کہ جس طرح توحید کے قائم کرنے میں انہوں نے مشکلات کامقابلہ کیا اسی طرح تم بھی صبر سے اس کام کوکرو  ۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ الفاظ ،، قل لااسالکم علیہ اجرا ،، بتاتے ہیں کہ مراد یہاں پیغامِ توحید کا پہنچانا ہے۔یہاں اقتدا سے شرائع کی پیروی مراد لینا بالکل غلط ہے ۔ایسی پیروی کاحکم ہوتا تو پھر پہلے اللہ تعالی ان تمام کتابوں کو تحریف سے پاک کرکے آپ کو دیتا اورآنحضرت کاعمل بھی یہ ثابت کرتا یعنی عملا آپ پہلے شرائع کی باتوں کو لے کر ان پر اپنے دین کی بنیاد رکھتے ۔ مگر ایسا نہیں ہوا ۔پس یہ معنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف ہونے کیوجہ سے قابلِ قبول نہیں ہے ( بیان القران ج1ص 477) جو لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ محمد علی کاندھلوی سے مکتبِ فراہی کے اساطین کتنا استفادہ کرتے ہیں ؟ وہ ہمیں ان کاباربار حوالہ دینے میں معذور سمجھیں گے  ۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینے کی ہے کہ اگر بالفرض ہم یہ بات تسلیم کرلیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان اعمال وافعال کا بجالانا اور زندہ کرنا مطلوب تھا توپھر یہ بدیہی بات تھی کہ صحابہِ کرام کے دلوں میں ان مشرکینِ عرب اور یہود ونصاری کے ساتھ محبت پیداہو جاتی کیونکہ مشترکات کا تو فریقین پر غیرشوری طور سے یہی اثرہوتا ہے۔ اس کا انکار ایک غبی یا متعصب شخص ہی کرسکتاہے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آحادیث میں وافر ذخیرہ ایسا موجود ہے کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ،، خالفوا المشرکین ،، اور ،، خالفوا الیھود والنصاری ،، کے الفاظ موجود ہیں ۔ بلکہ بعض روایات سے تو یہاں تک پتہ چلتاہےکہ صحابہِ کرام پر اس بات کا بہت شدت سے اثر پڑا تھا اور وہ  ان یہود ونصاری کے سخت مخالف ہو گئے تھے ۔ مثال کےلیے صرف ایک حدیث پیشِ خدمت ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہِ کرام کو حیض میں عورتوں سے دور رہنے کا حکم فرمایا   تو ایک صحابی نے عرض کیا کہ یارسول اللہ اگر ہمیں حیض میں بھی عورتوں سے صحبت اور مجامعت کی اجازت مل جائیں تو یہود کی مزید اور سخت مخالفت ہوجائے گی ۔مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، لا ،اصنعوا کل شیئ الاالنکاح ،، یعنی جماع اپنی بیویوں سے اس حال میں نہ کرو ۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کی ایسی امتیازی اوراختصاصی اجتماعیت اور قومیت بنانا چاہتے ت ، جو سب سے الگ اورممیز ہو ۔ آلوسی لکھتے ہیں ،، ای اجعل ھداھم منفردا بالاقتداء واجعل الاقتداء مقصورا علیہ والمراد بھداھم عند جمع طریقھم فی الایمان باللہ تعالی وتوحیدہ واصول الدین دون الشرائع القابلة للنسخ فانھا بعد النسخ لاتبقی ھدی وھم ایضا مختلفون فیھا فلایمکن التاسی بھم جمیعا ومعنی امرہ صلی اللہ علیہ وسلم بالاقتداء بذالک الاخذبہ لامن حیث انہ طریق اولئک الفخام بل من حیث انہ طریق العقل والشرع ففی ذالک تعظیم وتنبیہ علی ان طریقھم ھوالحق الموافق لدلیل العقل والسمع ( روح المعانی ج4 205) ان تمام عبارات کاخلاصہ یہ ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیگر انبیاء کرام علیھم السلام کے اتباع کاحکم عقائد اوراصول میں کرنے کا تھا ، اور یہی راجح قول ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

اشراق کا استشراق

اشراق کا استشراق

حافظ محمد ریحان جاید احمد غامدی اور ان کے مکتبہء فکر سے تقریباً ہر پڑھا...