غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 82)

Published On April 15, 2024
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 52)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 52)

مولانا واصل واسطی ہم نے گزشتہ تحریر میں  جو چند عبارتیں ابن ہشام کے حوالے سے پیش کی تھیں  ان میں بعض پرابوالقاسم سہیلی نے جرح کی ہے ۔ ان میں ایک یہ ہے کہ جبریل نے وضو اورنماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائی ۔ ممکن ہے کوئی شخص اس سے استفادہ کرلے ۔ تو ہم عرض کرتے ہیں...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 52)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 51)

مولانا واصل واسطی اب ہم جناب غامدی کے پیش کردہ سنن پر ایک ایک کرکے کچھ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں نماز کو دیکھتے ہیں جس کے بارے میں حافظ محب اور جناب غامدی  دونوں کا فرمان ہے کہ ،، اس سے عرب پوری طرح واقف تھے ، بلکہ وہ نماز ادا بھی کرتے تھے  جیساکہ سیدنا...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 52)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 50)

مولانا واصل واسطی اگے جناب اس ،، اہتمامِ وقوع فعل ، سے چند اصول برآمد کرتے  ہوئے لکھتے ہیں کہ ،، چنانچہ کوئی بچہ اگر اپنے باپ یاکوئی عورت اپنے شوہر کی جیب سے چند روپے اڑالیتی ہے   یاکوئی شخص کسی کی بہت معمولی قدروقیمت کی کوئی چیز چرالے جاتاہے   یاکسی کے باغ سے کچھ پھل...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 52)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 49)

مولانا واصل واسطی اس مبحث میں ہم ،، سرقہ ،، یعنی چوری کے متعلق جناب غامدی کے افکارکا تجزیہ کریں گے ۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ ،، چوری کی سزا قران مجید کی سورہِ مائدہ میں اس طرح بیان ہوئی ہے ،، والسارق والسارقة فاقطعوا ایدیھما ، جزاء بماکسبا ، نکالا من اللہ ، واللہ عزیز...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 52)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 48)

مولانا واصل واسطی اس تحریر میں جناب غامدی کی اس نقل کردہ عبارت کا جائزہ لیتے ہیں   جو انہوں نے زمخشری کی ،، الکشاف ،، کے حوالے سے لکھی ہے ۔ اس عبارت میں زمخشری نے دعوی کیا ہے کہ ،، میتة ،،  کالفظ دیگر میتات مثلا مچھلی اورٹدی وغیرہ کو عرف اور عادت کی بنا پر شامل نہیں...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 52)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 47)

مولانا واصل واسطی اس محفل میں جناب غامدی کی ایک اور تحقیق احبابِ کرام کے سامنے پیش کریں گے  جس میں جناب نے اپنے زعم کے مطابق یہ ثابت کیاہے   کہ اس ،، حدیث ،، سے بھی قران کی ،، تخصیص وتحدید ،، کا دعوی محض علماء میں ،، قلتِ تدبر یا سوء فہم ،، کا نتیجہ ہے ۔پہلے جناب کی...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی اگے لکھتے ہیں ” قران کا یہی پس منظر ہے جس کی رعایت سے یہ چندباتیں اس کی شرح و تفصیل میں بطورِاصول ماننی چاہیئں (1) اول یہ کہ پورا دین خوب وناخوب کے شعور پر مبنی ان حقائق سے مل کر مکمل ہوتاہے جوانسانی فطرت میں روزِاول سے ودیعت ہیں ۔اور جنہیں قران معروف اورمنکرسے تعبیر کرتا ہے ۔ شریعت کے جواوامرونواہی تعین کے ساتھ قران میں بیان ہوئے ہیں ۔وہ ان معروفات ومنکرات کے بعد اور ان کی اساس پرقائم ہیں ۔ انہیں چھوڑ کر شریعت کا کوئی تصور اگر قائم کیاجائے گا   تووہ ہرلحاظ سے ناقص اورقران کے منشا کے بالکل خلاف ہوگا “( میزان ص 47) جناب غامدی نے اسی کتاب میں دوسری جگہ مولانا مودودی کی عبارت سے اس کی پوری تفصیل کی ہے اگرچہ ان کانام نہیں لیاہے ۔ مگرصرف اتنی محنت اس عبارت میں کی ہے کہ  اس کی ترتیب کو الٹ دیا ہے ۔ جناب سورہِ شمس کی آیت ” فالہمہا فجورہا وتقواہا”( الشمس 8) کی تحقیق میں لکھتے ہیں ” انسان کے لیے خیروشرکوجاننے کاذریعہ کیاہے ؟ یہ فسلفہِ اخلاق کابنیادی سوال ہے ۔ قران نے ان آیتوں میں واضح کردیاہے کہ اللہ تعالی نے جس طرح انسان کو دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سننے کےلیے کان دیئے ہیں   بالکل اسی طرح نیکی اوربدی کو الگ الگ پہچاننے کے لیے ایک حاسہِ اخلاقی بھی عطا فرمایا ہے ۔ وہ محض ایک حیوانی اور عقلی وجود ہی نہیں ہے ۔اس کے ساتھ ایک اخلاقی وجود بھی ہے ۔اس کے معنی یہ ہیں  کہ خیروشرکاامتیازاورخیر کے خیر اورشرکے شرہونے کااحساس انسان کی تخلیق کے ساتھ  ہی اس کے دل وماغ میں الہام کردیا گیاہے ۔ بعض دوسرے مقامات پریہی حقیقت” اناہدینہ السبیل ” ( ہم نےاسے خیروشرکی راہ سمجھادی)اور ” ہدینہ النجدین” ( ہم نے کیااسے دونوں راستے نہیں سجھائے ) کے الفاظ میں واضح کی گئی ہے ۔ یہ امتیازواحساس ایک عالمگیر حقیقت ہے۔ چانچہ برے سے برا آدمی بھی گناہ کرتا ہے   تو پہلے مرحلے میں اسے چھپانے کی کوشش کرتاہے “( میزان ص 198) اب ہم مولانا مودودی کی عبارت پیش کرتے ہیں ۔ اس سے دوفائدے ہوتے ہیں ۔ ایک فائدہ تو یہ ہے کہ جناب غامدی کے ماخذ اور مدرک تک احباب کو رسائی کا علم ہوجاتا ہے ۔ اوردوسرا فائدہ یہ ہوتا ہےکہ پھر جب ہم اس رائے پر تنقید کرتے ہیں   تو احباب ان دانشور کے علاوہ دیگر دانشوروں کے جال میں بھی نہیں پھنستے ۔ مولانا مودودی سورہِ دہر کی آیت ” ان ہدینہ السبیل ما شاکراواما کفورا “( الدہر 3) کی تفسیر میں لکھتے ہیں ” یعنی ہم نے اسے محض علم وعقل کی قوتیں دے کرہی نہیں چھوڑدیا   بلکہ ساتھ ساتھ اس کی راہنمائی بھی کی  ہے  تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ شکر کا راستہ کونسا ہے اور کفرکا راستہ کون سا ؟ اس کے بعد جوراستہ بھی وہ اختیار کرے اس کاذمہ دار وہ خود ہے ۔ سورہِ بلد میں یہی مضمون ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے ” وہدینہ النجدین ” اورہم نے اسے دونوں راستے ( یعنی خیروشر کے راستے) نمایاں کرکے بتادئیے ۔ اور سورہِ شمس میں یہی بات اس طرح بیان کی گئی ہے ” ونفس وماسواہا فالہمہا فجورہا وتقواہا ” اورقسم ہے ( انسان کے ) نفس کی اور اس ذات کی جس نے اسے ( تمام ظاہری وباطنی قوتوں کے ساتھ ) استوارکیا ۔ پھر اس کا فجور اور اس کاتقوی دونوں اس پرالہام کردئے ۔ ان تمام تصریحات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھاجائے ۔ اورساتھ ساتھ قران مجید کےان تفصیلی بیانات کو بھی نگاہ میں رکھاجائے ۔جن میں بتایاگیاہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی ہدایت کےلیے دنیا میں کیا کیا انتظامات کیے ہیں ۔ تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس آیت میں راستہ دکھانے سے مرادراہنمائی کی کوئی ایک صورت نہیں ہے  بلکہ بہت سی صورتیں ہیں ۔ جن کی کوئی حدونہایت نہیں ہے” ( تفہیم القران ج6 ص 188) پھران مختلف صورتوں میں سے کچھ بتفصیل بتائی ہیں ۔ ان میں پہلی صورت کے متعلق لکھتے ہیں ” ہرانسان کوعلم وعقل کی صلاحتیں دینے کے ساتھ ایک اخلاقی حس بھی دی گئی ہے   جس کی بدولت وہ فطری طور پر بھلائی اور برائی میں امتیاز کرتا ہے ۔ بعض افعال اور اوصاف کو برا جانتاہے اگرچہ وہ خود ان میں مبتلا ہو ۔ اوربعض اوصاف وافعال کو اچھاجانتاہے  اگرچہ وہ خود ان سے اجتناب کررہا ہو ۔ حتی کہ جن لوگوں نے اپنی اغراض وخواہشات کی خاطر ایسے فلسفے گھڑلیے ہیں   جن کی بنا پربہت سی برائیوں کو انہوں نے اپنے لیے حلال کرلیاہے ۔ ان کاحال بھی یہ ہے کہ وہی برائیاں اگر کوئی دوسرا ان کے ساتھ کرے تو وہ اس پرچیخ اٹھتے ہیں ۔اوراس وقت معلوم ہوجاتا ہے   کہ اپنے جھوٹے فلسفوں کے باوجود حقیقت میں وہ ان کوبراہی سمجھتے ہیں ۔اسی طرح نیک اعمال واوصاف کو خواہ کسی نے جہالت اورحماقت ودقیانوسیت ہی قراردے رکھا ہو   لیکن جب کسی انسان سے خود اس کی ذات کو کسی نیک سلوک کافائدہ پہنچتا ہے   تواس کی فطرت اسے قابلِ قدر سمجھنے پرمجبورہوجاتی ہے” ( تفہیم القران ج6ص 188) دوجگہ اور مولانا مودودی نے یہ بحث لکھی ہے جس میں بعینہ غامدی والے الفاظ بھی موجود ہیں ۔ یہاں تو صرف وہی مفہوم موجود ہے ۔ ہمارے نزدیک اس بات میں بہت سارے خلل موجود ہیں جن میں بعض کا تذکرہ بہت ضروری ہے (1) پہلی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ ان آیات کا تعلق ان لوگوں نے اپنے زورِقلم سے فطرت کے ساتھ بنادیا ہے ۔ ورنہ فی الحقیقت ان آیات کا اس سے کوئی تعلق نہیں بنتا ہے ۔ ذراان آیات پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں ۔ پہلے سورہِ دہرکی آیت پڑھ لیتے ہیں  ” انا ہدینہ السبیل اما شاکرا واما کفورا “( الدہر 3) یعنی  ہم نے انسان کو راستہ دکھایا خواہ وہ شکرکرنے والا بنے یاکفر کرنے والا” اب اس آیت کا تعلق اگر کوئی فطرت سے بنائے جیسا کہ ان حضرا ت کا قول وتحقیق ہے ۔ پھر یہ بات بھی ان کو تسلیم کرنی پڑے گی کہ شریعت اور پیغمبر کے وجودسے پہلے اور اس کے بغیر بھی کفر اور شکر کا تصورموجود ہے ۔ اورنہ صرف موجود ہی ہے بلکہ اللہ تعالی بھی اس پرمؤاخذہ کرتا ہے ۔ کیونکہ اس سے بعد والی آیت میں ہے” انا اعتدنا للکافرین سلسلا واغلالا وسعیرا “( الدہر 4) تواگر اس سے پہلی آیت فطرت کے علم کے سلسلے میں وارد ہے تو پھرماننا پڑے گا کہ آیت بھی اس سلسلے میں نازل ہے ۔ اوراگر یہ آیت شریعت کے سلسلے میں نازل ہے تو پھر وہ اسی شریعت سے متعلق ہے ۔ اب دوسری آیت کو دیکھ لیتے ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ” ونفس وماسواہا فالہمہا فجورہاوتقواہا “( الشمس 8) یعنی   اور نفسِ انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا پھر اس کی بدی اور پرہیزگاری اس پرالہام کردی ”  یہاں بھی دیکھئے تقوی اور فجور کی بات موجود ہے ۔اور اس آیت کے بعد والی آیت میں آخرت میں فلاح ونامرادی ” قدافح ۔ وقد خاب “کی بات موجودہے ۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص اس آیت کو فطرت کے علوم سے جوڑے گا  تو پھر اس کامذہب یہ بھی ہونا چاہئے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلماور شریعت کے بغیر بھی آخرت میں فلاح وخسران دونوں ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح آیت سورت البلد ” وہدینہ النجدین “( البلد 10)  کا مسئلہ بھی ہے ۔ کیونکہ اس کے بعد بھی” فلااقتحم العقبہ ” آیا ہے ۔ العقبہ ۔ کامطلب خود جنابِ غامدی یہ بتاتے ہیں کہ ” انسانوں سے ہمدردی اورخدا کی بندگی دونوں کےلیے نفس کونقد لذتوں سے دستبردار ہوناپڑتا ہے ۔ لہذا یہ دونوں چیزیں انسان پرہمیشہ شاق گذرتی ہیں ۔ قران مجید نے اسی رعایت سے انہیں گھاٹی پرچڑھنے سے تعبیرکیا ہے “( البیان ج 5 ص 459)  پس جب ان آیات کا مفہوم یہ لیں گے تو بندے عقیدہ میں شکراورکفر  ۔اور عمل میں فجوروتقوی ۔ اوراخلاق میں انسانی ہمدردی اورخداکی بندگی خود پہچان لیں گے نبی ورسول توانہی امور کوسمجھانے اوربتانے کےلیے آتے ہیں ۔پس جب بندے یہ خود اپنی فطرت سے معلوم کرسکتے ہیں توانہیں انسانوں کے پاس بھیجنے اور آنے کی آخرکیا ضرورت ہوگی ؟

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…