غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 82)

Published On April 15, 2024
اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط دوم

اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط دوم

مسرور اعظم فرخ  گزشتہ کالم میں غامدی صاحب کے موقف پر براہ راست گفتگو کرنے سے پہلے کچھ اصولی چیزیں بیان کی گئیں تاکہ اگلے مراحل کے مباحث کے لئے ایک مدد گار بنیاد فراہم ہو سکے۔غامدی صاحب اپنے پہلے مضمون (جنگ 22 جنوری 2015ء) میں رقمطراز ہیں:’’یہ خیال بے بنیاد ہے کہ ریاست...

اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط دوم

اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط اول

مسرور اعظم فرخ اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘‘اور ’’ریاست اور حکومت‘‘کے عنوانات سے جاوید غامدی صاحب کے دو مضامین روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شائع ہو چکے ہیں۔ پہلا 22جنوری2015ء کو اور دوسرا 21فروری 2015ء کو شائع ہوا۔پہلا مضمون اگر محض الجھاؤ کا شکا ر تھا تو اس کی وضاحت میں...

خلافت : ایک قطعی فرضِ الہی

خلافت : ایک قطعی فرضِ الہی

عمر علی اول ۔ امام الجزيری، جو کہ چودھویں صدی ہجری کے معروف عالم ہیں اور ان کی رائے تقابلی فقہ میں مستند مانی جاتی ہے، نے نقل کیا ہے کہ چاروں امام (ابو حنیفہ، مالک، شافعي، احمد،رحمۃ اللہ عليھم) امامت (خلافت) کو ایک فرض سمجھتے تھے اور اس بات پر بھی متفق تھے کہ مسلمانوں...

عورت کا سوال اور غامدی صاحب کا غلط جواب

عورت کا سوال اور غامدی صاحب کا غلط جواب

ناقد : مولانا طارق مسعود صاحب تلخیص : زید حسن غامدی صاحب سے ایک خاتون نے  رجم کی بابت سوال کیا  کہ " امتِ مسلمہ کی روایت میں تمام بڑے آئمہ محصن کے زنا کی سزا رجم بتاتے ہیں لیکن آپ کہتے ہیں کہ اسکی سزا رجم نہیں بلکہ کوڑے ہیں ۔ تو کیا انہیں قرآن سمجھ میں نہیں آیا تھا" ...

منکرینِ حدیث کا رد : جاوید غامدی کو جواب

منکرینِ حدیث کا رد : جاوید غامدی کو جواب

ناقد : سیف اللہ محمدی  صاحب تلخیص : زید حسن منکرینِ حدیث عمل سے بھاگنے اور خود کو بچانے کے لئے احادیث کا انکار کرتے ہیں ۔ کیونکہ قرآن میں احکامات کا اجمال ہے جبکہ اسکی تفصیل احادیث میں موجود ہے ۔ جیسے قرآن کہتا ہے : نماز پڑھو ، زکوۃ دو  یا بیت اللہ کا حج کرو ۔ اب ان...

فکرِ غامدی : قرآن فہمی کے بنیادی اصول ( قسط چہارم)

فکرِ غامدی : قرآن فہمی کے بنیادی اصول ( قسط چہارم)

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر تلخیص : وقار احمد اس ویڈیو میں ہم غامدی صاحب کے اصول تدبر قرآن میں میزان و فرقان میں قرات کے اختلاف پر گفتگو کریں گے غامدی صاحب لکھتے ہیں۔۔۔ایک یہ کہ قرآن میں بعض مقامات پر قراء ت کے اختلافات ہیں ۔یہ اختلافات لفظوں کے اداکرنے ہی میں نہیں...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی اگے لکھتے ہیں ” قران کا یہی پس منظر ہے جس کی رعایت سے یہ چندباتیں اس کی شرح و تفصیل میں بطورِاصول ماننی چاہیئں (1) اول یہ کہ پورا دین خوب وناخوب کے شعور پر مبنی ان حقائق سے مل کر مکمل ہوتاہے جوانسانی فطرت میں روزِاول سے ودیعت ہیں ۔اور جنہیں قران معروف اورمنکرسے تعبیر کرتا ہے ۔ شریعت کے جواوامرونواہی تعین کے ساتھ قران میں بیان ہوئے ہیں ۔وہ ان معروفات ومنکرات کے بعد اور ان کی اساس پرقائم ہیں ۔ انہیں چھوڑ کر شریعت کا کوئی تصور اگر قائم کیاجائے گا   تووہ ہرلحاظ سے ناقص اورقران کے منشا کے بالکل خلاف ہوگا “( میزان ص 47) جناب غامدی نے اسی کتاب میں دوسری جگہ مولانا مودودی کی عبارت سے اس کی پوری تفصیل کی ہے اگرچہ ان کانام نہیں لیاہے ۔ مگرصرف اتنی محنت اس عبارت میں کی ہے کہ  اس کی ترتیب کو الٹ دیا ہے ۔ جناب سورہِ شمس کی آیت ” فالہمہا فجورہا وتقواہا”( الشمس 8) کی تحقیق میں لکھتے ہیں ” انسان کے لیے خیروشرکوجاننے کاذریعہ کیاہے ؟ یہ فسلفہِ اخلاق کابنیادی سوال ہے ۔ قران نے ان آیتوں میں واضح کردیاہے کہ اللہ تعالی نے جس طرح انسان کو دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سننے کےلیے کان دیئے ہیں   بالکل اسی طرح نیکی اوربدی کو الگ الگ پہچاننے کے لیے ایک حاسہِ اخلاقی بھی عطا فرمایا ہے ۔ وہ محض ایک حیوانی اور عقلی وجود ہی نہیں ہے ۔اس کے ساتھ ایک اخلاقی وجود بھی ہے ۔اس کے معنی یہ ہیں  کہ خیروشرکاامتیازاورخیر کے خیر اورشرکے شرہونے کااحساس انسان کی تخلیق کے ساتھ  ہی اس کے دل وماغ میں الہام کردیا گیاہے ۔ بعض دوسرے مقامات پریہی حقیقت” اناہدینہ السبیل ” ( ہم نےاسے خیروشرکی راہ سمجھادی)اور ” ہدینہ النجدین” ( ہم نے کیااسے دونوں راستے نہیں سجھائے ) کے الفاظ میں واضح کی گئی ہے ۔ یہ امتیازواحساس ایک عالمگیر حقیقت ہے۔ چانچہ برے سے برا آدمی بھی گناہ کرتا ہے   تو پہلے مرحلے میں اسے چھپانے کی کوشش کرتاہے “( میزان ص 198) اب ہم مولانا مودودی کی عبارت پیش کرتے ہیں ۔ اس سے دوفائدے ہوتے ہیں ۔ ایک فائدہ تو یہ ہے کہ جناب غامدی کے ماخذ اور مدرک تک احباب کو رسائی کا علم ہوجاتا ہے ۔ اوردوسرا فائدہ یہ ہوتا ہےکہ پھر جب ہم اس رائے پر تنقید کرتے ہیں   تو احباب ان دانشور کے علاوہ دیگر دانشوروں کے جال میں بھی نہیں پھنستے ۔ مولانا مودودی سورہِ دہر کی آیت ” ان ہدینہ السبیل ما شاکراواما کفورا “( الدہر 3) کی تفسیر میں لکھتے ہیں ” یعنی ہم نے اسے محض علم وعقل کی قوتیں دے کرہی نہیں چھوڑدیا   بلکہ ساتھ ساتھ اس کی راہنمائی بھی کی  ہے  تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ شکر کا راستہ کونسا ہے اور کفرکا راستہ کون سا ؟ اس کے بعد جوراستہ بھی وہ اختیار کرے اس کاذمہ دار وہ خود ہے ۔ سورہِ بلد میں یہی مضمون ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے ” وہدینہ النجدین ” اورہم نے اسے دونوں راستے ( یعنی خیروشر کے راستے) نمایاں کرکے بتادئیے ۔ اور سورہِ شمس میں یہی بات اس طرح بیان کی گئی ہے ” ونفس وماسواہا فالہمہا فجورہا وتقواہا ” اورقسم ہے ( انسان کے ) نفس کی اور اس ذات کی جس نے اسے ( تمام ظاہری وباطنی قوتوں کے ساتھ ) استوارکیا ۔ پھر اس کا فجور اور اس کاتقوی دونوں اس پرالہام کردئے ۔ ان تمام تصریحات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھاجائے ۔ اورساتھ ساتھ قران مجید کےان تفصیلی بیانات کو بھی نگاہ میں رکھاجائے ۔جن میں بتایاگیاہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی ہدایت کےلیے دنیا میں کیا کیا انتظامات کیے ہیں ۔ تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس آیت میں راستہ دکھانے سے مرادراہنمائی کی کوئی ایک صورت نہیں ہے  بلکہ بہت سی صورتیں ہیں ۔ جن کی کوئی حدونہایت نہیں ہے” ( تفہیم القران ج6 ص 188) پھران مختلف صورتوں میں سے کچھ بتفصیل بتائی ہیں ۔ ان میں پہلی صورت کے متعلق لکھتے ہیں ” ہرانسان کوعلم وعقل کی صلاحتیں دینے کے ساتھ ایک اخلاقی حس بھی دی گئی ہے   جس کی بدولت وہ فطری طور پر بھلائی اور برائی میں امتیاز کرتا ہے ۔ بعض افعال اور اوصاف کو برا جانتاہے اگرچہ وہ خود ان میں مبتلا ہو ۔ اوربعض اوصاف وافعال کو اچھاجانتاہے  اگرچہ وہ خود ان سے اجتناب کررہا ہو ۔ حتی کہ جن لوگوں نے اپنی اغراض وخواہشات کی خاطر ایسے فلسفے گھڑلیے ہیں   جن کی بنا پربہت سی برائیوں کو انہوں نے اپنے لیے حلال کرلیاہے ۔ ان کاحال بھی یہ ہے کہ وہی برائیاں اگر کوئی دوسرا ان کے ساتھ کرے تو وہ اس پرچیخ اٹھتے ہیں ۔اوراس وقت معلوم ہوجاتا ہے   کہ اپنے جھوٹے فلسفوں کے باوجود حقیقت میں وہ ان کوبراہی سمجھتے ہیں ۔اسی طرح نیک اعمال واوصاف کو خواہ کسی نے جہالت اورحماقت ودقیانوسیت ہی قراردے رکھا ہو   لیکن جب کسی انسان سے خود اس کی ذات کو کسی نیک سلوک کافائدہ پہنچتا ہے   تواس کی فطرت اسے قابلِ قدر سمجھنے پرمجبورہوجاتی ہے” ( تفہیم القران ج6ص 188) دوجگہ اور مولانا مودودی نے یہ بحث لکھی ہے جس میں بعینہ غامدی والے الفاظ بھی موجود ہیں ۔ یہاں تو صرف وہی مفہوم موجود ہے ۔ ہمارے نزدیک اس بات میں بہت سارے خلل موجود ہیں جن میں بعض کا تذکرہ بہت ضروری ہے (1) پہلی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ ان آیات کا تعلق ان لوگوں نے اپنے زورِقلم سے فطرت کے ساتھ بنادیا ہے ۔ ورنہ فی الحقیقت ان آیات کا اس سے کوئی تعلق نہیں بنتا ہے ۔ ذراان آیات پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں ۔ پہلے سورہِ دہرکی آیت پڑھ لیتے ہیں  ” انا ہدینہ السبیل اما شاکرا واما کفورا “( الدہر 3) یعنی  ہم نے انسان کو راستہ دکھایا خواہ وہ شکرکرنے والا بنے یاکفر کرنے والا” اب اس آیت کا تعلق اگر کوئی فطرت سے بنائے جیسا کہ ان حضرا ت کا قول وتحقیق ہے ۔ پھر یہ بات بھی ان کو تسلیم کرنی پڑے گی کہ شریعت اور پیغمبر کے وجودسے پہلے اور اس کے بغیر بھی کفر اور شکر کا تصورموجود ہے ۔ اورنہ صرف موجود ہی ہے بلکہ اللہ تعالی بھی اس پرمؤاخذہ کرتا ہے ۔ کیونکہ اس سے بعد والی آیت میں ہے” انا اعتدنا للکافرین سلسلا واغلالا وسعیرا “( الدہر 4) تواگر اس سے پہلی آیت فطرت کے علم کے سلسلے میں وارد ہے تو پھرماننا پڑے گا کہ آیت بھی اس سلسلے میں نازل ہے ۔ اوراگر یہ آیت شریعت کے سلسلے میں نازل ہے تو پھر وہ اسی شریعت سے متعلق ہے ۔ اب دوسری آیت کو دیکھ لیتے ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ” ونفس وماسواہا فالہمہا فجورہاوتقواہا “( الشمس 8) یعنی   اور نفسِ انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا پھر اس کی بدی اور پرہیزگاری اس پرالہام کردی ”  یہاں بھی دیکھئے تقوی اور فجور کی بات موجود ہے ۔اور اس آیت کے بعد والی آیت میں آخرت میں فلاح ونامرادی ” قدافح ۔ وقد خاب “کی بات موجودہے ۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص اس آیت کو فطرت کے علوم سے جوڑے گا  تو پھر اس کامذہب یہ بھی ہونا چاہئے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلماور شریعت کے بغیر بھی آخرت میں فلاح وخسران دونوں ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح آیت سورت البلد ” وہدینہ النجدین “( البلد 10)  کا مسئلہ بھی ہے ۔ کیونکہ اس کے بعد بھی” فلااقتحم العقبہ ” آیا ہے ۔ العقبہ ۔ کامطلب خود جنابِ غامدی یہ بتاتے ہیں کہ ” انسانوں سے ہمدردی اورخدا کی بندگی دونوں کےلیے نفس کونقد لذتوں سے دستبردار ہوناپڑتا ہے ۔ لہذا یہ دونوں چیزیں انسان پرہمیشہ شاق گذرتی ہیں ۔ قران مجید نے اسی رعایت سے انہیں گھاٹی پرچڑھنے سے تعبیرکیا ہے “( البیان ج 5 ص 459)  پس جب ان آیات کا مفہوم یہ لیں گے تو بندے عقیدہ میں شکراورکفر  ۔اور عمل میں فجوروتقوی ۔ اوراخلاق میں انسانی ہمدردی اورخداکی بندگی خود پہچان لیں گے نبی ورسول توانہی امور کوسمجھانے اوربتانے کےلیے آتے ہیں ۔پس جب بندے یہ خود اپنی فطرت سے معلوم کرسکتے ہیں توانہیں انسانوں کے پاس بھیجنے اور آنے کی آخرکیا ضرورت ہوگی ؟

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

اشراق کا استشراق

اشراق کا استشراق

حافظ محمد ریحان جاید احمد غامدی اور ان کے مکتبہء فکر سے تقریباً ہر پڑھا...