اہل “المورد” قرآن سے بات کیوں نہیں کررہے اور التباس کا مرتکب کون ہے؟

Published On June 20, 2024
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 87)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 87)

مولانا واصل واسطی تیسری بات اس عبارت میں جناب غامدی نے یہ لکھی ہے کہ "قران میں اس کے جن احکام کا ذکر ہواہے ان کی تفصیلات بھی اسی اجماع وتواترپر مبنی روایت سے متعین ہو ں گی ۔ انہیں قران سے براہِ راست اخذ کرنے کی کوشش نہیں جائے گی " ( میزان ص 47) اس بات پر بھی جناب...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 87)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 86)

مولانا واصل واسطی اب دوسری مستثنی صورت کو دیکھتے ہیں: جناب غامدی لکھتے ہیں" دوم یہ کہ کسی معاشرے میں اگرقحبہ عورتیں ہوں توان سے نمٹنے کے لیے قران مجید کی روسے یہی کافی ہے کہ چار مسلمان گواہ طلب کیے جائیں ۔ جو اس بات پر گواہی دیں کہ فلان عورت فی الواقع زنا کی عادی ایک...

فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، میزان اور فرقان (قسط سوم)

فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، میزان اور فرقان (قسط سوم)

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر تلخیص : وقار احمد س ویڈیو میں جاوید احمد غامدی صاحب کی کتاب "میزان" کے باب مبادی تدبر قرآن میں قرآن فہمی کے لیے بیان کردہ دس اصولوں میں بنیادی ترین اصول "میزان اور فرقان " کو ڈسکس کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر زبیر صاحب فرماتے ہیں کہ یہ محض دو لفظ نہیں...

علامہ غامدی اور امت کے اجماعی مسائل

علامہ غامدی اور امت کے اجماعی مسائل

 ناقد : مولانا الیاس گھمن تلخیص : زید حسن   غامدی صاحب نے دین کو بگاڑ کر پیش کیا ہے ۔ اور وہ بدعت کا نہیں الحاد کا فتنہ ہیں  کیونکہ شریعت کے ثابت شدہ مسئلے کا انکار الحاد ہے ۔ غامدی صاحب نے بھی بہت سے مسلم مسائل کا انکار کیا ہے ۔ انکے نظریات کی مثالیں   انکی اپنی...

غامدی صاحب کی انتہاپسندی

غامدی صاحب کی انتہاپسندی

 محمد عبدالاکرم سہیل محترم جاوید احمد غامدی علم دین کے اعتبار سے دنیا کی ایک قابل قدر شخصیت ہیں اور پاکستان جیسے ملک میں فرقہ بندی کو مٹانے کیلئے آپ نے جس کار تجدید کا کام انجام دیا ہے اور دین پر بات کرنے کاجو ڈھنگ آپ نے سکھایا ہے وہ نہایت ہی قابل تعریف ہے اور شاید...

غلبہء دین اور جاوید احمد غامدی

غلبہء دین اور جاوید احمد غامدی

شبیع الزمان  مسلمانوں کے اجتمائی ظہور کی جتنی کچھ عملی شکلیں ممکن ہو سکتی تھیں،نظم جماعت،قوم یا ریاست ان تمام سے متعلق غامدی صاحب کو جمہور علماء کے تصور سے اختلاف ہے۔نہ ہی وہ اجتماعت کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی قومیت کی بناء اسلام تسلیم کرتے ہیں۔اپنی کتاب ’مقامات‘ میں...

ڈاکٹر زاہد مغل

استحسان کی اصطلاح سے امام شافعی جیسے جلیل القدر فقیہہ کو ایسا شبہ لگا کہ انہوں نے اسے شریعت سازی قرار دے دیا، لیکن اس کے باوجود احناف و مالکیہ نے اس اصطلاح کو ترک نہیں کیا بلکہ اس کا مفہوم واضح کیا اور آج تک وہ یہ اصطلاح بولتے ہیں۔ اس کا مفہوم واضح ہوجانے کے بعد یہ بحث نہیں ہوئی کہ تم ایسی اصطلاح کیوں بولتے ہو جس سے شبہ لگے۔ یہی بات شیخ ابن عربی کہیں گے کہ جب ہم نے اپنی تحاریر میں قدم قدم پر اپنی مراد واضح کردی تو اس کے بعد تمہارا یہ اعتراض علمی طور پر بامعنی نہیں کہ اس سے التباس ہوسکتا ہے۔ اہل سنت ہونے کا یہ کوئی پیمانہ نہیں کہ معانی کے بیان کے لئے وہ خاص اصطلاح بولنا بھی لازم ہے جو علماء کا اجتہاد ہے۔ شیخ ابن عربی غامدی صاحب سے کہیں گے کہ دیکھو سنت کی آپ کی اصطلاح سے مولانا زاھد الراشدی صاحب جیسے صاحب علم بھی شبہ میں پڑ گئے اور آپ کو وضاحت لکھنا پڑی لیکن پھر بھی آپ نے اصطلاح نہ بدلی۔ الغرض اصطلاح سے التباس کا اعتراض ایک سطحی بات ہے، بالخصوص کہ جب مدعی کا دعوی کسی شے کو اسلام سے باہر ایک متوازی بات ثابت کرنا ہو۔

رہے وہ حضرات جو اہل سنت کے فریم ورک کو حجت نہیں سمجھتے بلکہ قرآن و سنت سے براہ راست استدلال کا شوق رکھتے ہیں تو ان سے ہم کہتے ہیں کہ آپ نے نفس نبوت کی جو تعریف مقرر کی ہے وہ غلط ہے اور تمام نصوص کا استقراء نہیں کرتی۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ جس حدیث میں آیا کہ نبوت باقی رہے گی اس حدیث کو قرآن کے تحت ہونا ہے جس نے بتا دیا کہ نبوت ختم ہوگئی۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ قرآن کی کوئی ایک آیت پیش کیجئے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ نبوت بالکلیہ ختم ہوگئی۔ ان کا استدلال دراصل یوں ہوتا ہے:

الف) نبوت (یعنی مخاطبہ الہیہ) صرف اس نبوت کے مفہوم میں بند ہے جسے انبیاء کرام کے خاص مفہوم والی نبوت کہتے ہیں

ب) انبیاء کی بعثت کا سلسلہ ختم ہوگیا، یہ بات قرآن میں کہی گئی ہے

ج) لہذا نبوت بالکلیہ ختم ہوگئی، لہذا اب حدیث کو قرآن کے مطابق ایڈجسٹ ہونا ہے

مدعا (ج) تب ثابت ہوگا جب مقدمہ (الف) قرآن سے ثابت ہو، ان دوستوں کے دعوے کے برعکس قرآن سے عین اس کا الٹ ثابت ہے کہ خدا کی مخاطبت بصورت وحی غیر انبیاء ایک طرف غیر انسانوں سے بھی ہوتی ہے۔ جب مقدمہ (الف) ہی قرآن کے خلاف ہے تو یہ کہنا تحکم ہے کہ حدیث کو قرآن کے تحت ایڈجسٹ ہونا ہے نہ کہ قرآن کو حدیث کے تحت۔ بات کو آسان کرنے کے لئے ہم مثال دیتے ہیں۔ زید کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اپنے بچوں، دیگر رشتے داروں، دوستوں اور طلباء کو تحفہ دیتا ہے البتہ بچوں کو ایک خاص قسم کا تحفہ دیتا ہے۔ پھر ہمیں معلوم ہوا کہ زید کی اولاد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ تو کیا اس سے یہ بھی لازم آیا کہ زید کی جانب سے ہر قسم کا تحفہ دینے کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا؟ ہرگز نہیں، الا یہ کہ یہ ثابت کیا جائے کہ زید صرف اپنی اولاد ہی کو تحفہ دیتا تھا، اس کے علاوہ وہ کسی کو تحفہ نہیں دیتا تھا۔ لیکن اگر یہ بات ثابت ہو کہ زید اپنی اولاد کے سوا بھی لوگوں کو تحفہ دیتا تھا تو سلسلہ اولاد کا خاتمہ زید کی جانب سے ایک خاص قسم کا تحفہ دئیے جانے کے خاتمے کی دلیل ہے نہ کہ ہر قسم کا تحفہ دئیے جانے کے سلسلے کے خاتمے کی دلیل، جو ہر قسم کے تحفہ عطا کئے جانے کے خاتمے کا دعوے دار ہے وہ تحکم کا مرتکب ہے اور یا اسے بنیادی منطق بھی نہیں آتی۔ یہی معاملہ مخاطبہ الہیہ بصورت وحی کا ہے کہ از روئے قرآن یہ انبیاء کے ساتھ خاص نہیں، تو انبیاء کے سلسلے کا خاتمہ اس بات کی دلیل کیسے ہوگیا کہ اللہ اب کسی سے کسی بھی قسم کی مخاطبت نہیں کرتا؟ سلسلہ انبیاء کے خاتمے سے صرف یہ ثابت ہوا کہ ایک خاص قسم کی مخاطبت ختم ہوگئی نہ کہ نفس مخاطبت۔ آیت “خاتم النبیین” کو پیش کرکے یہ نتیجہ نکالنا کہ خدا کی جانب سے نفس مخاطبت بصورت وحی ختم ہوگئی خلط مبحث ہے۔

الغرض ہمارے یہ لوگ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ حدیث کو ان کی بنائی ہوئی اصطلاح کے تحت ایڈجسٹ ہونا ہے لیکن یہ اپنی بنائی ہوئی اصطلاح ہی کو عین قرآن کہہ رہے ہوتے ہیں جبکہ قرآن میں وہ کہیں مذکور نہیں۔ اگر ان کا دعوی ہے کہ یہ اصطلاح کہیں مذکور ہے اور نبوت ان کی بنائی ہوئی اس اصطلاح میں بند ہے تو وہ آیت پیش کریں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ متوازی دین کی تمہت لگانے والے اور خود کو قرآن کا اصلی وارث فرض کرنے والے اس موضوع پر قرآن سے بات ہی نہیں کرنا چاہتے، بلکہ چاہتے ہیں کہ ان کی منہ کی باتوں کو قرآن سمجھا جائے، فیاللعجب! اہل “المورد” نے نبوت کی جو اصطلاح بنائی ہے وہ قرآن و سنت کے حقائق پر پردہ ڈال کر التباس پیدا کرنے والی ہے۔ چنانچہ اہل “المورد” نے یہ کام کیا ہے کہ انہوں نے تحفے کی ایسی اصطلاحی تعریف مقرر کی جس کے بعد صرف وہی چیز تحفہ کہلا سکے جو اولاد کو دیا جاتا تھا اور باقی چیزیں تحفے سے باہر ہوگئیں حالانکہ زید ان سب کو تحفہ ہی کہہ رہا ہے۔ اب جس نے زید کے کلام کے پیش نظر دیگر کو بھی تحفہ کہا، تحفے کے مفہوم کو اپنی خاص اصطلاح میں بند کردینے والے یہ لوگ اس کے پیچھے پڑ گئے کہ تم نے “ختم تحفہ” کی بات کی خلاف ورزی کی ہے حالانکہ زید نے کبھی یہ کہا ہی نہیں کہ ہر قسم کا تحفہ دیا جانا ختم ہوگیا، اس کے برعکس اس نے نہ صرف یہ کہا کہ ہم ہر چیز کو تحفہ دیتے ہیں بلکہ جہاں اس خاص تحفے کے بند ہونے کا اعلان کیا عین اس موقع پر بھی کہا کہ تحفے کی بعض صورتیں جاری رہیں گی۔ الحمد للہ اھل سنت کبھی اس مغالطے کا شکار نہ ہوئے جو اہل المورد کو ہوا۔

المورد کے کچھ فاضلین کا کہنا ہے کہ شیخ اور مرزا قادیان میں صرف یہ فرق ہے کہ شیخ کے مطابق اولیاء کے وحی و الھام سے ویسی تکلیف لازم نہیں آتی جس کا انکار موجب کفر ہو جبکہ مرزا قادیان اس تکلیف کا قائل ہے۔ ان دوستوں کی جانب سے یہاں لفظ “صرف” کا استعمال ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ میں بھی موجود ہوں اور خدا بھی موجود ہے، صرف اتنا فرق ہے کہ میں خدا کے موجود کرنے سے موجود ہوں اور وہ از خود موجود ہے! وہ صفت جو ایک شے کی حقیقت کو دوسری کی حقیقت سے الگ و ممیز کرے، اسے اس شے کا “خاصہ یا خصوصیت” کہتے ہیں۔ صفت خاصہ کے ساتھ “صرف” لگا کر دو اشیاء کے مابین فرق کو بے معنی و ہلکا دکھانے کی کوشش کرنا از خود بے معنی و ہلکی بات ہے۔ ان دوستوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ منطق پڑھیں قبل اس سے کہ یہ حقائق کو خلط ملط کرکے بندے کو خدا بنا دیں کہ دونوں ہی موجود ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…