شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

Published On March 18, 2025
تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)

حسان بن علی جیسا کہ عرض کیا کہ غامدی صاحب احکام میں حدیث کی استقلالی حجیت کے قائل نہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں "یہ چیز حدیث کے دائرے میں ہی نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے" (ميزان) جیسے سود دینے والے کی مذمت میں اگرچہ حدیث صراحتا بیان ہوئی ليكن غامدی...

تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (2)

تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (2)

حسان بن علی اور یہ واضح رہے کہ انکارِ حجیتِ حدیث کے حوالے سے غلام احمد پرویز، اسی طرح عبداللہ چکڑالوی کا درجہ ایک سا ہے کہ وہ اسے کسی طور دین میں حجت ماننے کے لیے تیار نہیں (غلام احمد پرویز حديث کو صرف سیرت کی باب میں قبول کرتے ہیں، دیکھیے کتاب مقام حدیث) اور اس سے کم...

تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (1)

تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (1)

حسان بن علی غامدی صاحب کے اسلاف میں ماضی کی ایک اور شخصیت غلام قادیانی، حدیث کے مقام کے تعین میں لکھتے ہیں : "مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کے لیے تین چیزیں ہیں. ١) قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جسے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ...

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف

حسان بن علی غامدی صاحب کے اسلاف میں ايک اور شخصیت، معروف بطور منکرِ حجيتِ حدیث، اسلم جيراجپوری صاحب، حقیقت حدیث بیان کرتے ہوئے اختتامیہ ان الفاظ میں کرتے ہیں "قرآن دین کی مستقل کتاب ہے اور اجتماعی اور انفرادی ہر لحاظ سے ہدایت کے لیے کافی ہے وہ انسانی عقل کے سامنے ہر...

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

ڈاکٹر زاہد مغل حدیث کی کتاب کو جس معنی میں تاریخ کی کتاب کہا گیا کہ اس میں آپﷺ کے اقوال و افعال اور ان کے دور کے بعض احوال کا بیان ہے، تو اس معنی میں قرآن بھی تاریخ کی کتاب ہے کہ اس میں انبیا کے قصص کا بیان ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا: وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ...

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے جو غالی معتقدین ان کی عذر خواہی کی کوشش کررہے ہیں، وہ پرانا آموختہ دہرانے کے بجاے درج ذیل سوالات کے جواب دیں جو میں نے پچھلی سال غامدی صاحب کی فکر پر اپنی کتاب میں دیے ہیں اور اب تک غامدی صاحب اور ان کے داماد نے ان کے جواب میں کوئی...

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب

 

کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار سے نجات دلانے کی کوشش کی اور نتیجتاً میزان کے ابواب میں اپنی فقہ دے دی جسے وہ شریعت قرار دیتے ہیں۔
بعض دوستوں نے “شرع منزل” اور “شرع غیرمنزل” کے فرق کی بات کی تو عرض کیا کہ ان دونوں میں عملاً آپ کیسے فرق کرتے ہیں؟ جسے آپ شرع منزل کہتے ہیں وہ آپ کا فہم ہی تو ہے۔ ضروری نہیں کہ کوئی دوسرا بھی اسے شرع منزل مان لے اگر اس کے اصولوں کی روشنی میں وہ شرع منزل کا حصہ نہیں ہے۔
مثال کے طور پر فقہاے کرام کا اتفاق ہے کہ قتل خطا میں قاتل پر کفارہ ہے لیکن ان کا اس پر اختلاف ہے کہ قتل عمد میں قاتل پر کفارہ ہے یا نہیں؟ امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر قتل خطا میں کفارہ ہے تو قتل عمد میں تو بدرجۂ اولی ہونا چاہیے۔ اسے دلالۃ النص کہتے ہیں (جسے بعض نے قیاس المعنی بھی کہا اور یہ قیاس کی وہ قسم ہے جس کے متعلق شافعیہ تو کیا، ظاہریہ کا بھی ماننا ہے کہ یہ صحیح ہے۔) گویا شافعیہ قتل خطا کے کفارے کی طرح قتل عمد کے کفارے کو بھی نص سے ثابت مانتے ہیں۔ اس کے برعکس امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ قتل عمد کی سزا کے متعلق نصوص (جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ العمد قود) کے اشارے سے معلوم ہوا کہ قتل عمد میں کفارے کی سزا نہیں ہے اور حنفیہ کے اصول کی رو سے دلالۃ النص کی بہ نسبت اشارۃ النص زیادہ قوی ہے۔
اب ہمارے دوست ہی ہمیں بتادیں کہ قتل عمد میں کفارہ شرع منزل کا حصہ ہے یا شرع غیر منزل کا؟ ویسے وہ جو کچھ بھی بتائیں گے، وہ ان کی فقہ ہی ہوگی۔
یہیں سے اس سوال کا جواب بھی واضح ہونا چاہیے جو بعض اہل علم نے اٹھایا کہ شریعت تو ایک ہے لیکن فقہ تو کئی ہیں۔ جی نہیں۔ میرے لیے شریعت وہی ہے جو میرے فہم کے مطابق شریعت ہے۔ میں اپنے فہم میں غلطی کا امکان مانتا ہوں اور غلطی واضح ہونے پر مان بھی لوں گا کہ شریعت یہ نہیں وہ ہے لیکن اس کے بعد سابقہ راے میرے لیے شریعت نہیں رہے گی۔
بھئی، یہ وہی مسئلہ ہے جسے اصول فقہ میں یوں ذکر کیا جاتا ہے کہ مجتہدین کے اختلاف میں کیا سب حق پر ہوتے ہیں یا حق پر کوئی ایک ہی ہوتا ہے؟ حنفی اصول یہی ہے کہ حق پر ایک ہی ہوتا ہے، اگرچہ دوسروں کو بھی اجتہاد کا اجر ملے گا۔ اپنی حد تک مکمل کوشش کے بعد جسے میں نے حق سمجھا وہ میرے لیے حق ہے۔ امر واقعہ میں وہ حق ہے یا نہیں؟ اس کا علم اللہ کے سوا کس کو ہوسکتا ہے؟ اس نے مجھے حتی الوسع کوشش کا مکلف ہی بنایا ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ کیا قیاس سے ثابت شدہ حکم شریعت کا حصہ ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب بھی بالکل واضح ہے۔ جو فقہاے کرام یہ مانتے ہیں کہ قیاس حجت ہے وہ اصل میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں منصوص احکام پر قیاس کا حکم دیا ہے۔ اسی لیے ان کےلیے قیاس سے ثابت شدہ حکم بھی شریعت کا حصہ ہوتا ہے۔ تاہم جو ظاہری فقہاے کرام قیاس کو حجت نہیں مانتے ان کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول نے منصوص احکام پر قیاس کی اجازت نہیں دی ہے۔ اسی لیے ان کے نزدیک قیاس سے ثابت احکام شریعت کا حصہ نہیں ہیں۔
یہی بات استحسان، استصحاب اور استنباط کے دیگر طرق کے متعلق بھی کہی جائے گی۔
بلکہ یہی بات غامدی صاحب کا حلقہ اپنے اصولوں کے متعلق بھی مانتا ہے، جیسے نظم قرآن، اتمام حجت وغیرہ۔
بلکہ یہی کچھ “فقہ دستور” کے متعلق بھی صحیح ہے۔ دستور کی تعبیر کے متعلق بعض اصول کچھ جج صاحبان مانتے ہیں اور اس وجہ سے قرار دیتے ہیں کہ فلاں بات دستور کی رو سے ضروری ہے۔ جو ان اصولوں کو نہیں مانتے وہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ دستور میں یہ کہاں لکھا ہوا ہے؟
ھذا ما عندی، و العلم عند اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…