حسان بن علی جیسا کہ عرض کیا کہ غامدی صاحب احکام میں حدیث کی استقلالی حجیت کے قائل نہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں "یہ چیز حدیث کے دائرے میں ہی نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے" (ميزان) جیسے سود دینے والے کی مذمت میں اگرچہ حدیث صراحتا بیان ہوئی ليكن غامدی...
شریعت خاموش ہے “ پر غامدی صاحب کا تبصرہ”
تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (2)
حسان بن علی اور یہ واضح رہے کہ انکارِ حجیتِ حدیث کے حوالے سے غلام احمد پرویز، اسی طرح عبداللہ چکڑالوی کا درجہ ایک سا ہے کہ وہ اسے کسی طور دین میں حجت ماننے کے لیے تیار نہیں (غلام احمد پرویز حديث کو صرف سیرت کی باب میں قبول کرتے ہیں، دیکھیے کتاب مقام حدیث) اور اس سے کم...
تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (1)
حسان بن علی غامدی صاحب کے اسلاف میں ماضی کی ایک اور شخصیت غلام قادیانی، حدیث کے مقام کے تعین میں لکھتے ہیں : "مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کے لیے تین چیزیں ہیں. ١) قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جسے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ...
تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف
حسان بن علی غامدی صاحب کے اسلاف میں ايک اور شخصیت، معروف بطور منکرِ حجيتِ حدیث، اسلم جيراجپوری صاحب، حقیقت حدیث بیان کرتے ہوئے اختتامیہ ان الفاظ میں کرتے ہیں "قرآن دین کی مستقل کتاب ہے اور اجتماعی اور انفرادی ہر لحاظ سے ہدایت کے لیے کافی ہے وہ انسانی عقل کے سامنے ہر...
بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے
ڈاکٹر زاہد مغل حدیث کی کتاب کو جس معنی میں تاریخ کی کتاب کہا گیا کہ اس میں آپﷺ کے اقوال و افعال اور ان کے دور کے بعض احوال کا بیان ہے، تو اس معنی میں قرآن بھی تاریخ کی کتاب ہے کہ اس میں انبیا کے قصص کا بیان ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا: وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ...
کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے جو غالی معتقدین ان کی عذر خواہی کی کوشش کررہے ہیں، وہ پرانا آموختہ دہرانے کے بجاے درج ذیل سوالات کے جواب دیں جو میں نے پچھلی سال غامدی صاحب کی فکر پر اپنی کتاب میں دیے ہیں اور اب تک غامدی صاحب اور ان کے داماد نے ان کے جواب میں کوئی...
ڈاکٹر زاہد مغل
ایک ویڈیو میں جناب غامدی صاحب حالیہ گفتگو میں زیر بحث موضوع پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دین یا شریعت خاموش ہونے سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ شریعت نے اس معاملے میں سرے سے کوئی حکم ہی نہیں دیا بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ شارع نے یہاں کوئی معین حکم نہیں دیا ہوتا جیسے مثلا حدود کے معاملے میں کہا کہ چور کے ہاتھ کاٹو وغیرہ۔ چنانچہ جب شریعت نے اس طرح معین حکم نہ دیا ہو تو شرع کے قواعد نیز علت پر مبنی قیاس وغیرہ کے ذریعے ایک معین حکم معلوم کیا جاتا ہے اور یہ اجتہاد ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جیسے انسانی اعضا کی پیوندکاری کا معین حکم شارع نے بیان نہیں کیا لیکن علما قواعد شریعت وغیرہ کے ذریعے اس کا حکم معلوم کرتے ہیں۔ لہذا یہ کہا جائے گا کہ انسانی اعضا کی پیوندکاری کے معاملے میں دین خاموش ہے، یعنی اس کا معین حکم خدا نے مقرر نہیں کیا، البتہ قواعد و دینی نظائر وغیرہ کے ذریعے مجتہد اس کا حکم معلوم کرے گا۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ان قواعد سے معلوم کردہ حکم بھی شریعت کی گویائی ہی ہے تو یہ کہنا بھی درست ہے، لیکن غامدی صاحب اپنے خاص مفہوم والی خاموشی کے لفظ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔
غامدی صاحب کے اس جواب سے پہلی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ اسے نزاع لفظی قسم کی چیز سمجھتے ہیں کیونکہ خود انہوں نے مان لیا ہے کہ اجتہاد کے ذریعے معلوم شدہ حکم دین و شریعت بمعنی حکم اللہ ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ غامدی صاحب کے مدافعین کو یہاں ٹھنڈا سانس لینا چاھئے جو اس بابت ان کے موقف کی اپنی جانب سے توجیہات کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ غامدی صاحب نے “خاموشی” (مسکوت عنہ) کے مفہوم کو جس طرح بیان کیا ہے، اصول فقہ کے ماہرین اس سے بہتر طریقے پر اسے “منطوق” اور “مفھوم” کی اصطلاحات میں بیان کرتے ہیں (منطوق اور مفہوم کی تعریفات اور اقسام اصول فقہ کی کتب میں ملاحظہ کرنا چاھئے)۔ کلام کا “منطوق” معین حکم بیان کرنے سے وسیع اور جامع معنی کا حامل ہے (حنفی اصطلاح میں یہ “عبارت النص” سے قریب تصور ہے)۔ “مسکوت عنہ” کلام کے صرف منطوق کے لحاظ سے ہوتا ہے نہ کہ مفھوم کے، اور کلام میں یہ دونوں (منطوق و مفہوم) متکلم کے پیش نظر ھوتے ہیں۔ خطاب کے منطوق اور مفھوم دونوں کی نسبت متکلم ہی کی جانب ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ ایک کی شارع کی جانب اور ایک کی مجتھد کی جانب۔ اگر کوئی شخص ایسا شرعی حکم بیان کرے جس کی نسبت شارع کے خطاب کی جانب نہ ہو تو اسے بدعت کہتے ہیں نہ کہ اجتہاد۔ چنانچہ غامدی صاحب کا اس بات پر زور دینا کہ ایک خدا کا حکم ہے اور دوسرا مجتہد کا فہم، یہ کوئی بامعنی بات نہیں کیونکہ کل دین توقیف ہے۔ خدا کی جانب سے معین حکم مقرر کرنے کی کیفیت کبھی معین فرد و کیفیت کا حکم بیان کرنا ہوتا ہے اور کبھی عمومی قاعدے کی صورت جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس بھی شخص پر یہ لفظ درست ہو اس کا یہ حکم ہے۔ جیسے جب شارع نے کہا کہ “چور کے ہاتھ کاٹو” تو اس عمومی بیان کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ شخص جس پر چور کا اطلاق ہے اس کا یہ معین حکم ہے۔ چنانچہ شریعت کے قواعد دراصل اسی کیفیت پر معین افراد و کیفیات کا معین حکم بیان کررہے ہوتے ہیں اور مجتہد بس انہیں ظاہر کرتا ہے۔ لہذا ان کی اختیار کردہ تعبیر اس پہلو سے بھی اولی نہیں۔
اگر وہ یہ کہیں کہ مجتہد کے اخذ کردہ حکم میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے نیز دیگر مجتہدین کا اس کے اجتہاد سے اختلاف جائز ہوتا ہے، تو یہ فرق بھی مفید مطلب نہیں اس لئے کہ جسے وہ شریعت کا معین حکم کہتے ہیں اس کے فہم میں بھی مجتہدین کا اختلاف ہوتا ہے نیز یہاں بھی ہر اختلاف موجب کفر و تضلیل نہیں۔ خود غامدی صاحب کو بھی ایسے متعدد “معین احکام” میں اختلاف ہے نیز کتاب “میزان” میں ان کے درج کردہ معین احکام میں سے ہر ایک سے اختلاف کرنے والوں کی وہ تضلیل و تکفیر بھی نہیں کرتے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)
حسان بن علی جیسا کہ عرض کیا کہ غامدی صاحب احکام میں حدیث کی استقلالی حجیت...
تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (2)
حسان بن علی اور یہ واضح رہے کہ انکارِ حجیتِ حدیث کے حوالے سے غلام احمد...
تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (1)
حسان بن علی غامدی صاحب کے اسلاف میں ماضی کی ایک اور شخصیت غلام قادیانی،...