علامہ زمحشری کی عبارت سے غامدی صاحب کے استدلال پر تبصرہ

Published On February 4, 2024
حیات و نزولِ عیسی

حیات و نزولِ عیسی

سوال کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین جاوید احمد غامدی کے بارے میں، جس کے درجِ ذیل عقائد وخیالات ہیں اور ان کی دعوت واشاعت میں ہمہ تن مصروف ہے ۔حیات ونزول عیسیٰ کا منکر ہے ،۔ کہتا ہے عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے ہیں۔﴿میزان،ص۷۸۱﴾۔ظہور مہدی کا بھی منکر ہے ،...

نظریات جاوید احمد غامدی

نظریات جاوید احمد غامدی

سوال دین اسلام کامل و مکمل دین اور ربانی ضابطۂ حیات ہے، جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ بزرگ و برتر نے اپنے ذمہ لی ہے، اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں بہت سے فتنوں نے جنم لیا اور اسلامی عمارت کو ڈھانے کی بھر پور کوشش کی، لیکن اللہ تعالیٰ نے علمائے امت کے ہاتھوں ان...

من سب نبیا فاقتلوہ

من سب نبیا فاقتلوہ

سوال : حدیث "من سب نبیا فاقتلوہ" کی تحقیق مطلوب ہے، آیا یہ حدیث صحیح اور قابل اعتبار ہے یا کہ نہیں؟غامدی چینل والے اس کو ناقابل اعتبار قرار دےرہے ہیں۔اس کا کیا جواب ہے؟ جواب اگرچہ بظاہربعض تجدد پسند لوگ حدیث کی قبولیت کے لیے قرآنی موافقت کو شرط قرار دیتے ہیں اور اسناد...

جاوید احمد غامدی کے نظریات

جاوید احمد غامدی کے نظریات

سوال : جاوید احمد غامدی کے نظریات کے بارے میں راہ نمائی فرمائیں،  کہاں تک ان کا اعتبار کرنا درست ہے؟ جواب جاوید احمد غامدی کے بہت سے نظریات قرآن و حدیث کے صریح نصوص کے خلاف اور اہلِ سنت و الجماعت کے اجماعی و اتفاقی عقائد سے متصادم ہیں،  جن میں سے چند درج ذیل ہیں الف۔ ...

بیس رکعت تراویح اور غامدی صاحب کا موقف

بیس رکعت تراویح اور غامدی صاحب کا موقف

سوال : جاوید احمد غامدی کے نزدیک تراویح کی نماز سرے سے ہے ہی نہیں, برائے کرم مفصل جواب عنایت فرمائیں؟ جواب بیس رکعت تراویح ادا کرنا سنتِ مؤکدہ ہے اور یہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا، البتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین روز تراویح کی باقاعدہ...

حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کی قبر

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر

مولانا عند الحمید تونسوی     اہلِ اسلام کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور انہیں سولی پر نہیں چڑھایا گیا، بلکہ زندہ ہی آسمانوں پر اُٹھالیا گیا، قیامت کے قریب وہ آسمان سے زمین پر نازل ہوں...

ڈاکٹر زاہد مغل

علامہ جار اللہ زمحشری (م 538 ھ) کی جس عبارت کو محترم غامدی صاحب نے مسئلہ تبیین پر اپنے مدعا کا بیان قرار دیا، اس عبارت سے کیا جانے والا استدلال بھی مخدوش بے۔ علامہ زمحشری لکھتے ہیں:

ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ يعنى ما نزل الله إليهم في الذكر مما أمروا به ونهوا عنه ووعدوا وأوعدوا

یعنی اے نبی لوگوں کے لئے آپ کی جانب نازل کردہ ذکر سے اوامر و نہی اور وعد و وعید کو بیان کردیں۔ اس سے محترم غامدی صاحب نے یہ استدلال کیا کہ علامہ زمحشری نے بھی گویا یہ کہا کہ لتبین للناس کا مطلب قرآن میں مذکور حلال و حرام اور وعد و وعید کو بیان کردیں یا ظاہر کردیں نہ کہ ان کی شرح کردیں۔

علامہ زمحشری کی یہ عبارت اوپن اینڈڈ قسم کی عبارت ہے جس کو معنی پہناتے ہوئے دیگر امور کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے، محض یہ الفاظ مفید مطلب نہیں۔ اگر یہ ثابت کیا جائے کہ علامہ زمحشری بذریعہ سنت تخصیص، تقیید و تبدیل کو بیان نہیں سمجھتے تھے تب کہیں جاکر ان کے ان الفاظ سے وہ مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے جو غامدی صاحب کا مقصود ہے۔ علامہ زمحشری کی تفسیر سے ہمیں کوئی ایسا جامع مقام نہیں مل سکا جس سے ان کا تصور بیان واضح ہوجائے، تاہم چوری کی سزا اور اسی طرح زانی کی سزا وغیرہ جیسے متعدد امور پر آپ کی آراء کا احاطہ کرنے سے معاملہ بالکل صاف ہوجاتا ہے کہ قرآن کے حلال و حرام کی تبیین میں وہ سنت کو کیا مقام دیتے تھے۔ یہاں ہم بات کو طویل نہیں کرنا چاہتے، اہل علم حضرات علامہ زمحشری کی تفسیر کشاف کی جانب رجوع کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ علامہ زمحشری فقہی معاملات میں حنفی تھے اور احناف کے نزدیک قرآن کے حلال و حرام کو واضح کرنے میں سنت کو کلیدی اہمیت حاصل ہے، یہاں تک کہ ان کے ہاں نسخ بھی بذریعہ سنت بیان ہے۔ یہاں ہم اسی آیت پر حنفی عالم امام دبوسی (م 430 ھ) کی رائے پیش کرتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ حنفی، نسخ اور سنت کے تعلق کو بیان کی بحث میں کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ بعض لوگوں کی رائے تھی کہ نسخ بذریعہ سنت جائز نہیں کہ یہ تبیین نہیں بلکہ تبدیل ہے اور سورہ نحل کی آیت کی رو سے نبی تبیین کرتے ہیں۔ “تقویم الادلۃ” سے امام دبوسی کا جواب ملاحظہ کریں:

ثم الدليل على الجواز ابتداء قول الله تعالى: {وأنزلنا إليك الذكر ‌لتبين ‌للناس ما نزل إليهم} فإذا أنزل الله تعالى نسخ ما في القرآن بحكم آخر بوحي غير متلو في القرآن صار الحكم الثاني مما نزل إلى الناس، ويلزم النبي صلى الله عليه وسلم بيانه للناس بحكم هذه الآية فإنه ألزمه بيان ما نزل إلى الناس من الأحكام وصار قوله: {وأنزلنا إليك الذكر} في معنى إنا أرسلنا إلى الناس وجعلناك رسولًا بما أنزلنا إليك الذكر ‌لتبين ‌للناس ما نزل إليهم من الأحكام

مفہوم: “نسخ بذریعہ سنت کے جوازکی دلیل یہ آیت ہے کہ “ہم نے آپ کی جانب یہ ذکر نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ چیز بیان کردیں جو ان کی جانب نازل کی گئی”۔ جب اللہ تعالی غیر متلو وحی یعنی سنت کے ذریعے قرآن میں مذکور حکم کو منسوخ فرماتا ہے تو یہ دوسرا حکم “جو لوگوں کی جانب نازل کیا گیا ” کے حکم میں شامل ہوجاتا ہے۔ اور اس آیت کی رو سے آپﷺ پر لوگوں کے لئے اس دوسرے حکم کو بیان کرنا لازم تھا کیونکہ اللہ نے آپﷺ پر لوگوں کے لئے ان احکام کے بیان کو لازم قرار دیا ہے جو آپ پر نازل ہوں۔ پس اللہ کا قول “ہم نے آپ پر ذکر نازل کیا” کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے آپ کولوگوں کی طرف مبعوث کیا اور آپ کو اس چیز کو پہنچانے والا بنایا جو آپ کی جانب نازل ہو تاکہ آپ لوگوں کے لئے ان احکام کو بیان کردیں جو ان کے حق میں مقرر کئے گئے۔”

غور کیجئے کہ امام دبوسی کس صراحت کے ساتھ نسخ بذریعہ سنت کے لئے اس آیت کا لارہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ علامہ زمحشری معتزلی تھے تب بھی بات نہیں بنتی کیونکہ معتزلہ کے نزدیک بھی یہ امور تبیین میں شامل تھے۔ اس کے لئے علامہ الحسین البصری (م 436 ھ) کی کتاب “المعتمد فی اصول الفقہ” ملاحظہ کی جاسکتی ہے جہاں انہوں نے عین تخصیص کے اثبات کے لئے سورہ نحل کی متعلقہ آیت کو پیش کیا ہے۔

الغرض خلاصہ یہ کہ تفسیری روایت میں علامہ طبری اور علامہ زمحشری میں سے کسی بھی مفسر نے سورۃ نحل کی متعلقہ آیت پر وہ موقف اختیار نہیں کیا جو غامدی صاحب کا موقف ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

اشراق کا استشراق

اشراق کا استشراق

حافظ محمد ریحان جاید احمد غامدی اور ان کے مکتبہء فکر سے تقریباً ہر پڑھا...