غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط اول)

Published On January 4, 2024
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 8)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 8)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے جو تیسری آیت اس سلسلہ میں استدلال کے لیے پیش کی ہے  وہ سورۃ المائدہ کی 48 نمبر آیت ہے ۔وہ پھر ان تین آیتوں سے کچھ  مصنوعی قواعد بناتے ہیں ۔ جس کا ہم آگے چل کر تجزیہ پیش کرینگے ۔ مگر اس آیت کا تعلق  ماضی کے صحیفوں سے ہے ۔کہ قرآن ان پر...

دورانِ عدت نکاح پر غامدی صاحب کی غلط فہمیاں

دورانِ عدت نکاح پر غامدی صاحب کی غلط فہمیاں

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت کے دوران میں نکاح کے متعلق غامدی صاحب اور ان کے داماد کی گفتگو کا ایک کلپ کسی نے شیئر کیا اور اسے دیکھ کر پھر افسوس ہوا کہ بغیر ضروری تحقیق کیے دھڑلے سے بڑی بڑی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اگر غامدی صاحب اور ان کے داماد صرف اپنا نقطۂ نظر...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 8)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 7)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے قرآن مجید کے متعلق بھی مختصر سی بحث کی ہے ۔جس پر بہت کچھ کہنے کے لیے موجود ہے  مگر ہم اس کی تفصیل کرنے سے بقصدِ اختصار اعراض کرتے ہیں ۔ جناب نے قرآن کے اوصاف میں ایک وصف ،، فرقان ،،  ذکر کیاہے ۔اور دوسرا وصف ،، میزان ،، ذکرکیاہے ۔پھراس...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 8)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 6)

مولانا واصل واسطی ہم اس وقت ،، حدیث وسنت ،، کے موضوع سے ایک اور بحث کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ کیونکہ جناب غامدی نے ،، حدیث اور سنت ،، نے مبحث کو مختلف مقامات میں پھیلا رکھاہے۔درمیان میں دیگر مباحث چھیڑ دیئے ہیں ، ہم بھی انہیں کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جاوید غامدی نے...

غامدی اور خضریاسین: تفسیر وتفہیم کے معاملے پر میرا نقطہ نظر

غامدی اور خضریاسین: تفسیر وتفہیم کے معاملے پر میرا نقطہ نظر

گل رحمان ہمدرد غامدی صاحب نے مقامات میں دبستانِ شبلی کے بارے بتایا ہے کہ اس کے دو اساسی اصولوں میں سے ایک اصول یہ تھا کہ دین کی حقیقت جاننے کےلیۓ ہمیں پیچھے کی طرف جانا ہوگا ”یہاں تک کہ اُس دور میں پہنچ جاٸیں جب قرآن اتر رہا تھا اور جب خدا کا آخری پیغمبر خود انسانوں...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 8)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 5)

مولانا واصل واسطی ہم نے اوپر جناب غامدی کی ایک عبارت پیش کی ہے کہ ،، چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہوسکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیاجاسکتاہے (میزان ص15) میں نے کہیں جناب غامدی کا اپنا قول غالبا،، اشراق ،، کے کسی شمارے میں...

ڈاکٹر خضر یسین

یہ خالصتا علمی انتقادی معروضات ہیں۔ غامدی صاحب نے اپنی تحریر و تقریر میں جو بیان کیا ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنی معروضات پیش کر رہے ہیں۔ محترم غامدی صاحب کے موقف کو بیان کرنے میں یا سمجھنے میں غلطی ممکن ہے۔ غامدی صاحب کے متبعین سے توقع کرتا ہوں، غلطی بیانی یا غلط فہمی کی ضرور نشاندہی کریں گے۔

سب پہلے تصور “ماخذ دین” آتا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک دین کا واحد ماخذ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ “دین حق” وہی ہے جسے آنجناب علیہ السلام اپنے قول، فعل اور تقریر و تصویب دین قرار دیں۔

ہماری گزارش یہ ہے

“دین” کا ماخذ آنجناب علیہ السلام کی ذات گرامی نہیں ہے، آپ علیہ السلام کی ذات شریف “مہبط وحی” ہے۔ دین کا ماخذ “وحی خداوندی” ہے۔ آنجناب علیہ السلام اس وحی کے پہلے مکلف و مخاطب ہیں اور آنجناب کی اطاعت و اتباع میں آپ علیہ السلام کی امت اس کی مخاطب و مکلف ہے اور بالکل اسی طرح سے مکلف و مخاطب ہے جس آنجناب علیہ السلام خود ہیں۔ آنجناب علیہ السلام نے اپنے قول، فعل اور تقریر و تصویب سے دین نہیں بنایا۔ دین مکمل طور آنجناب علیہ السلام پر اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوا ہے۔

“دین” کتاب و سنت پر مشتمل ہے اور کتاب و سنت دونوں یکساں منزل من اللہ ہیں۔ دونوں الامۃ من حیث الامۃ  کا “مجمع علیہ” ہیں۔ “دین” صحابہ کرام کا یا کسی خاص زمانی و مکانی گروہ کا “مجمع علیہ” نہیں ہے بلکہ الأ مة من حيث الأمة کا “مجمع علیہ” ہے اور “نقل الكافة عن الكافة” کے ذریعے قیامت تک ایک دائمی استحضار eternal presence کے طور پر موجود و مشھود invisibly existent حقیقت ہے۔

محترم غامدی صاحب کا خیال ہے؛ دین کتاب و سنت ہے۔ کتاب سے مراد قرآن مجید ہے اور “سنت” سے ان کی مراد، دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے؛ جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید و اصلاح کے بعد اور بعض اضافوں کے ساتھ، اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔

ہماری معروضات

 کتاب سے متعلق غامدی کے دینی فکر کا جائزہ بعد میں لیا جائیگا۔ یہاں ہم ان کے تصور “سنت” کے متعلق کچھ کہنا چاھتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے؛ دین کی وضع و تشکیل میں آنجناب علیہ السلام کو قطعا دخل نہیں ہے۔ آپ علیہ السلام کسی حیثیت سے اپنے اختیارات یا اپنی صوابدید سے دین میں مداخلت نہیں فرما سکتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے؛ آنجناب علیہ السلام کی ہستی میں محمد بن عبداللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرق لایعنی ہے۔ نزول وحی کے بعد محمد بن عبداللہ والی کہانی ختم ہو جاتی ہے، نزول وحی کے بعد آپ علیہ السلام صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ رسالت صوابدیدی منصب نہیں ہے، تنزیلات ربانیہ کو بلا کم و کاست انسانوں کے سامنے پیش کر دینا ہے۔

“سنت” آنجناب علیہ السلام پر اسی طرح نازل ہوئی ہے جس طرح کتاب نازل ہوئی ہے۔ “سنت” منزل من اللہ، اعمال ہیں۔ انہیں مناسک دین بھی کہا جاتا ہے۔ جس طرح قرآن مجید ماقبل کتب سماوی سے ممتاز و منفرد ہے، اسی طرح آنجناب علیہ السلام پر نازل ہونے والی سنت/ مناسک عبادت بھی ممتاز و منفرد ہیں بلکہ ناسخ ہے۔ الصلوۃ کا لفظ اہل عرب کے نامانوس نہ تھا، لیکن اس کا وہ مدلول جو “نبوت محمدیہ” میں بتایا گیا ہے، عرب واقف تھے اس سے اور نہ غیرعرب واقف تھے۔

غامدی صاحب کے بیان سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے جیسے “سنت” کی وضع و تشکیل میں آنجناب علیہ السلام کے صوابدیدی اختیارات اصل الاصول ہیں۔ ظاہر ہے یہ سو فیصد غلط موقف ہے۔ “دین” روایت نہیں ہے بلکہ “تنزیل” ہے۔ روایت اور تنزیل میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ روایت انسان سے انسان تک ہوتی ہے اور “تنزیل” اللہ تعالی سے انسان تک ہوتی ہے۔ دین ابراہیمی کی روایت کا یہ تصور نبوت کو نظریہ بنا دیتا ہے۔ حق یہ ہے؛ “نبوت” نہ نظریہ ہے اور نہ اسے نظریہ بنایا جا سکتا ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…