مولانا واصل واسطی احبابِ کرام جناب غامدی کی توجیہِ حدیث سے پہلے اس حدیث کا ترجمہ ان کے قلم سے پڑھ لیں ، جوکل کی پوسٹ میں گذرگئی ہے ۔وہ لکھتے ہیں :عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ رفاعہ نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو اس کے ساتھ عبدالرحمن بن الزبیر قرظی نے نکاح کرلیا ، سیدہ عائشہ...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 34)
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط ششم)
ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب کی دینی فکر اور اس کے پورے تنظیمی ڈھانچے کو سمجھنا خاصہ دشوار کام ہے کیونکہ ان کا بیان ایک منظم فکر کی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور نہ دین اور دینی شعور کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔ ممکن ہے، میرا یہ تبصرہ بعض احباب کو سخت گیری کا مظہر لگے۔ لیکن...
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط پنجم)
ڈاکٹر خضر یسین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، خاتم الوحی ہے اور آنجناب علیہ السلام کی ذات، خاتم النبیین ہیں۔ قرآن مجید کے بعد نہ ایسی وحی ممکن ہے جو انسانیت پر واجب الایمان و العمل ہو اور نہ آنجناب علیہ السلام کے بعد کوئی نبی و رسول ممکن ہے۔ آنجناب علیہ...
غامدی صاحب کا تصور تبیین اور مسئلہ بقرۃ پر ان کی وضاحت پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل کچھ عرصہ قبل ایک تحریر میں متعدد مثالوں کے ذریعے یہ واضح کیا گیا تھا کہ اصولیین جسے نسخ، تقیید و تخصیص (اصطلاحاً بیان تبدیل و تغییر) کہتے ہیں، قرآن کے محاورے میں وہ سب “بیان” ہی کہلاتا ہے اور اس حوالے سے محترم مولانا اصلاحی صاحب اور محترم جاوید احمد...
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)
ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب نے اپنی دینی فکر میں بہت ساری باتیں، خود سے وضع کی ہیں۔ ان کے تصورات درحقیقت مقدمات ہیں، جن سے اپنے من پسند نتائج تک وہ رسائی چاہتے ہیں۔ "قیامِ شھادت" کا تصور درحقیقت ایک اور تصور کی بنیاد ہے۔ اسی طرح نبوت و رسالت کے فرق کا مقدمہ بھی ایک اور...
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط سوم)
ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب نے بعض دینی تصورات خود سے وضع کئے ہیں یا پھر ان کی تعریف ایسی کی ہے جو خانہ زاد ہے۔ ان تصورات میں "نبوت" اور "رسالت" سب سے نمایاں ہیں۔ ان کے نزدیک انبیاء و رسل دونوں کا فارسی متبادل "پیغمبر" ہے۔ نبی بھی پیغمبر ہے اور رسول بھی پیغمبر ہے۔ مگر...
مولانا واصل واسطی
جناب غامدی نے اگے کچھ مباحث بیان کیے ہیں جن کے بارے میں ہم اپنی گذارشات احباب کے سامنے پیش کرچکے ہیں ۔آگے انھوں نے ،، حدیث اور قران ،، کے زیرِ عنوان ان حدیثی مسائل پر لکھا ہے جن کے متعلق ھہارے عام علماء کرام کا تصور یہ ہے کہ ان سے قران کے نصوص منسوخ یا مخصوص ہیں۔ ہم ان مسائل کے تذکرے میں ہی ان کے ،، لاجواب ،، استدلالات کا جائزہ احباب کے سامنے رکھیں گے تاکہ وہ دونوں راہوں کے بیچ میں صحیح فیصلہ کرسکیں ۔ جناب غامدی لکھتے ہیں کہ ،، چوتھے سوال کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے قران کے نسخ اوراس کی تحدید وتخصیص کا یہ مسئلہ سوء فہم اور قلتِ تدبّر کا نتیجہ ہے ، اس طر ح کا کوئی نسخ یا تحدید وتخصیص سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی کہ اس سے قران کی یہ حیثیت کہ وہ میزان اور فرقان ہے ، کسی لحاظ سے مشتبہ قرار پائے ۔قران کے بعض اسالیب اور بعض آیات کا موقع ومحل جب لوگ سمجھ نہیں پائے توان سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےارشادات کی صحیح نوعیت بھی ان پر واضح نہیں ہوسکی ۔ اس طرح کی جتنی مثالیں بالعموم پیش کی جاتی ہیں ان سب کا معاملہ یہی ہے ، ان میں سے بعض روایتوں کی سند پر بھی اعتراضات ہیں لیکن یہ چونکہ پیش کی جاتی ہیں اس لیے اس سے قطع نظر ہم ان میں سے ایک ایک کو لےکر ان کے بارے میں اپنا نقطہ نظر وضاحت کے ساتھ بیان کیے دیتے ہیں ( میزان ص 35) یہ تو جناب غامدی کے دعاوی وبیانات ہیں مگر وہ جیساکہ ہم نے پہلے کہیں بیان کیا ہے ہمیشہ کمزور مقامات پر حملہ آور ہوتے ہیں اور پھر لوگوں کے سامنے اس کو اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے انھوں نے مونٹ اوریسٹ کو سرکرلیا ہو ۔اورقوی جگہوں سے کترا کر گذرتے ہیں ۔ اب اس مبحث میں ہم سینکڑوں مسائل ایسے ان کے سامنے پیش کرسکتے ہیں جن سے وہ بعافیت جان بچاکر نکلے ہیں ۔ مثلا نبی صلی اللہ علیہ السلام کے میراث کا اپنے ورثا پرتقسیم نہ ہونے کا مسئلہ ہے ۔ قران نے مردہ مسلمان شخص کے متعلق وراثت کی عمومی بات بیان کی ہے ۔اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی کوئی تخصیص موجود نہیں ہے مگر صحابہِ کرام رضوان اللہ علیھم نے بالاجماع اس آیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیثِ سیدناابوبکر کی بنا پر خاص کیا ہے ۔اگر قران کی تخصیص وتحدید حدیثِ رسول سے نہیں ہوسکتی تو ذرا اس مسئلے کی معقول توجیہ کرکے بتادیجئے ۔ اس لیے جناب نے اس مسئلہ کو میراث کے مبحث میں بھی نہیں چھیڑا بلکہ کنی کتراکر چلے ہیں ۔وہاں صرف دو مسائل کی زور زبردستی سے توجیہ کی ہے مگر جاننے والوں پر ان کی بے بسی صاف عیاں ہے۔ احباب اسے ذرا ملاحظہ فرماکر لطف اندوز ہوں۔، وہاں ،،آباؤکم وابناؤکم لاتدرون ایھم اقرب لکم نفعا ( النساء آیت 11) والی آیت پیش کی ہے ۔ پھر اس سے ایک قاعدہ اپنی فکر کے مطابق بنایا ہے ۔پھر اس کے تحت ،، وراثتِ مسلم عن الکافر والکافر عن المسلم ،، کے مسئلہ کو رکھا ہے ۔ ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں ۔،، لیکن ان میں سے کوئی اگر اپنے مورث کے لیے منفعت کے بجائے سراسر اذیت بن جائے ، تو اللہ تعالی کی طرف سے علتِ حکم کا یہ بیان تقاضا کرتا ہے کہ اسے وراثت سے محروم قراردیا جائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے پیشِ نظر جزیرہ نمائے عرب کے مشرکین اوریہود ونصاری کے بارے میں فرمایا ،، لایرث المسلم الکافرولاالکافر المسلم ،، نہ مسلمان (ان میں سے ) کسی کافر کے وارث ہونگے اورنہ یہ کافر کسی مسلمان کے ،، یعنی اتمامِ حجت کے بعد جب یہ منکرینِ حق خدا اورمسلمانوں کے کھلے دشمن بن کر سامنے آگئے ہیں تو اس کے لازمی نتیجے کے طور پر قرابت کی منفعت بھی ان کی اورمسلمانوں کے درمیان ہمیشہ کےلیے ختم ہوگئی ۔چنانچہ یہ اب آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے ( میزان ص 523) اتنی تحریفات قران وحدیث میں کرکے بھی اگرکوئی اس طرح کی مشکلات سے جان نہ چھڑاسکے ، تو وہ انتہائی غبی شخص ہے ۔ مگر ہم ادھر جناب غامدی کےان تمام مقدمات کو فرضا علی سبیل التسلیم والتنزل ان سے مناقشہ کررہے ہیں ورنہ ہمارے نزدیک وہ تمام مقدمات ہی باطل ہیں جن پرانھوں نے یہ مسئلہ کھڑا کیا ہے ۔لیکن وہ تفصیل پھر سہی ۔ اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ اتمامِ حجت ہونے کے بعد بہت ساری قرابتیں ،، سراسر اذیت ،، تو کیا باعثِ اذیت بھی نہیں ہوتی بلکہ دنیا کی لحاظ سے نفع بخش ہوتی ہیں ، اور میراث بھی دنیاوی شے ہے جیسے ابوطالب کی قرابت سیدنا علی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نفع بخش تھی ۔ کیا کوئی شخص اس قرابت کے نفع بخش ہونے سے انکارکر سکتاہے ؟ وہ آخر کیوں میراث سے محروم ہونگے ؟ اسی طرح سیدنا ابوبکر کی اولاد کب ان کے لیے باعثِ آذیت تھی ؟ سراسر آذیت کو تو دور چھوڑئیے ؟ وہ کیوں وراثتِ باپ سے محروم ہوجاتے بالفرض ؟ ،، نفعِ قرابت نہ جاننا ،، الگ چیز ہے ، قرابت کا ،، آذیتِ محض ،، ہونا الگ مسئلہ ہے کہ ایک مجہول ہے ، اور دوسری معلوم بالعین والحس ہے ، مگر کسی کی ،، قرابت ،، کا بالعین والحس نفع بخش ہونے کے بعد اسے کیوں میراث سے اس آیت کے تحت محروم کیا جاسکتا ہے ۔ اس کی وضاحت جناب غامدی نے نہیں کی ہے ؟ کیونکہ وہ لوگ ،، لاتدرون ،، کے تحت آتے ہی نہیں ہیں ؟ اور اگر آپ جواب میں کہتے ہیں کہ معلوم باالعین والحس نفع بخش چیز بھی ضرر رسان ہوسکتی ہے کیونکہ انسان کی عقل ناقص اورعلم محدود ہے جیساکہ آپ نے لکھا بھی ہے ،، کہ سلسلہِ کلام کے بیچ میں یہ آیت ( النساء 11) جس مقصد کی لیے آئی ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں پر یہ بات واضح کردی جائے کہ انسان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ تقسیمِ وراثت کے معاملے میں وہ انصاف پر مبنی کوئی فیصلہ کرسکتا ، والدین اوراولاد میں سے کون بلحاظِ منفعت اس سے قریب تر ہے وہ نہیں جانتا ۔ علم وعقل میں اس کے لیے کوئی بنیاد تلاش نہیں کی جاسکتی اس لیے یہ فیصلہ اس کا پروردگار ہی کرسکتا تھا ؟( میزان ص 522) تو پھر ہم آپ سے سوال یہ کریں گے کہ ،، طیبات اورخبائث ،، کے بارے میں آپ نے کس طرح اس کے ،، محدود علم اورناقص عقل ،، پراعتماد کرلیاہے ؟ جو لوگ والدین اوراولاد جن کو وہ روازنہ اپنے سامنے دیکھتے اورساتھ رہتے ہیں ، ان میں بھی وہ ،، اقرب نفعا ،، آپ کے بقول نہیں جان سکتے ۔وہ آخر ان ،، طیبات اوراورخبائث ،، کو کس طرح جان سکتے ہیں جو ان کے تزکیہِ قلبی ونفسی پر مثبت اور منفی اثرات ڈالتے ہیں ؟ جیسا کہ اگے قریب ہی آپ کی اپنی عبارت سامنے آجائے گی ؟ دوسراسوال یہ ہے کہ کیا اتمامِ حجت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی پرہو سکتی ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں ہو سکتی توکیا پھر ان لوگوں سے جن پر اتمامِ حجت نہیں ہوئی ہے قتال کی اجازت شرعا درست ہوگی یا نہیں ؟ اگر درست نہیں ہے تو صحابہِ کرام نے پوری دنیا سے کیوں جنگیں کی تھی ؟ اور اگر آپ کہتے ہیں کہ انہوں نے اتمام حجت ان لوگوں پرکی تھی ؟ تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا ان کی اتمامِ حجت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتمامِ حجت کی طرح تھی یا پھر الگ تھی؟ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تھی تو پھر ان سب قوموں میں جن سے جنگیں ہوئی ہیں ، اسی طرح کی اتمامِ حجت آپ کو دلائل کے ساتھ دکھانی ہوگی ۔محض خالی خولی باتوں اور دعوں سے کام نہیں چلے گا ؟ اوراگریہ اتمامِ حجت ان سے الگ ہے تو پھر اس کا اعتبارکس شرعی بنیاد پر ہے ؟ اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اتمامِ حجت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی ہوسکتی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ مذکور حدیثِ میراث ان لوگوں تک کس دلیل کی بنیاد پرخاص کرلی ہے کہ جن پر صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اتمامِ حجت کی تھی ؟ دیگر پر کیوں حجت نہیں ہے ؟حدیث کو عام کیوں نہیں رہنے دیا جیساکہ تمام اہلِ علم نے کیا تھا ؟ اوراس حدیث میں اس تخصیص پر آخر کونسا قرینہ موجود ہے ؟پھر آپ لوگوں کے نزدیک تو اہلِ کتاب کو اصطلاحا ،، کافر ،، نہیں کہاجاسکتا ۔ اس حدیث میں کیسے ان کو ،، الکافر ،، کہا گیا ہے؟
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدی صاحب کا تصور تاریخ: ایک تنقیدی جائزہ
محمد حسنین اشرف غامدی صاحب کی میٹافزکس میں جہاں بہت سے تصورات تنقیح طلب...
غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا تنقیدی جائزہ
ڈاکٹر زاہد مغل اس مضمون میں ہم جاوید احمد غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا...
غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہر...