غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 80)

Published On April 14, 2024
کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ سوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حدیث و سنت کا مفہوم : اہل اسلام اور غامدی صاحب  غامدی صاحب کے اندراس شوخ چشمانہ جسارت کاحوصلہ کیوں پیدا ہوا ؟ اس لیے کہ وہ آپ کے طریقے اور عمل کو ’سنت ‘ سمجھنے کے لیے تیار نہیں؛ چناں چہ ان کے ٹیپ کا بند ملا حظہ فرمائیں ’’لہٰذا سنت صرف یہی...

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

ڈاکٹر زاہد مغل مشرف بیگ اشرف جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور تبیین پر نقد کا سلسلہ جاری ہے جس میں یہ واضح کیا گیا کہ ان کے تصور تبیین کی نہ صرف یہ کہ لغت میں کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ یہ اس لفظ کے قرآنی محاورے و استعمالات کے بھی خلاف ہے۔ تاہم غامدی صاحب یہ تاثر بھی...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

ڈاکٹر زاہد مغل  توحید کا چوتھا درجہ: توحید وجودی اب توحید کے چوتھے درجے کی بات کرتے ہیں جس پر سب سے زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے اور جسے غامدی صاحب نے کفار و مشرکین جیسا عقیدہ قرار دے کر عظیم ضلالت قرار دیا ہے۔ علم کلام کے مباحث میں اس درجہ توحید کی گفتگو کو "توحید...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ دوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صحابہ کرام کا عمل اور رویہ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم اور احادیث رسول میں کوئی فرق نہیں کیا اور دونوں کو نہ صرف یکساں واجب الاطاعت جانا بلکہ احادیث کو قرآن ہی کا حصہ گردانا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ اول

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ماہنامہ الشریعہ میں مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ کے کتابچے ’’غامدی صاحب کا تصور حدیث وسنت‘‘ کا اور ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت بنام ’’الشریعہ کا طرز فکر اور پالیسی: اعتراضات واشکالات کا جائزہ‘‘ کا اشتہار دیکھا تو راقم نے نہایت ذوق وشوق کے...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط اول

ڈاکٹر زاہد مغل تعارف جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب "برہان" میں تصوف کے موضوع کو تختہ مشق بناتے ہوئے اکابر صوفیاء کرام بشمول امام غزالی پر ضلالت اور کفریہ و شرکیہ  نظریات فروغ دینے کے فتوے جاری فرمائے ہیں۔ نیز ان کے مطابق حضرات صوفیاء کرام نے خدا کے دین کے...

مولانا واصل واسطی

اس مذکورہ بالا مسئلہ میں جناب غامدی نے چند اور باتیں بھی بطورِ اصول لکھی ہیں ۔ مگر ان میں سے بھی کوئی بات اوراصول بھی اپنے مدعا کامثبت نہیں ہے۔ جناب کی ایک عبارت کاخلاصہ یہ ہے  کہ جب کوئی نبی علیہ السلام اپنی قوم پرحجت پوری کرتا ہے   تو اس قوم پر پھر اللہ کا عذاب آجاتا ہے ۔ اگر نبی علیہ السلام کے ساتھی معتد بہ ہوں اور انہیں دارالہجرت میسر ہو تو اس قوم کو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے ساتھیوں کے ذریعے سے عذاب دیا جاتا ہے ۔ اور اگروہ قلیل تعداد میں ہوں  تو پھر آسمانی آفات سے اس قوم کا صفایا کیاجاتا ہے ۔( میزان ص 541)  اس عبارت سے ان لوگوں کے چند اوراصول معلوم ہوگئے ہیں ۔ (3) تیسرا اصول یہ ہے کہ مجرم قوم کوعذاب دینے کے لیے انکے پاس دو  طریقے ہیں ۔ مگر قران مجید کوجب ہم پڑھتے ہیں  تو عذاب کا ان دوطریقوں میں انحصار کا دعوی ٹوٹ جاتا ہے ۔ یہ ساری باتیں ہم ان کی عبارات کی روشنی میں کرتے ہیں ۔ اب موسی علیہ السلام کی سیرت کاجائزہ لیجے   تو موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل پر اتمامِ حجت بھی ان لوگوں کے ہاں کیا ہے ۔ مگر وہ قوم ٹھیک نہیں ہوتی ۔ کبھی کہتی ہے کہ ” ہمارے لیے بھی کوئی الہ بنائیے  جیسا کہ ان لوگوں کےلیے مجسم الہ ہے “۔ اور کبھی کہتی ہے ” تو جا اور تیرا  رب اور دونوں لڑو ،ہم تو یہیں بیٹھے ہیں” سیدنا موسی ان لوگوں سے اتنے تنگ آگئے تھے   کہ اللہ تعالی سے دعا فرمائی   کہ اے اللہ میں اپنی ذات اور اپنے بھائی کے سوا کسی پربھی اختیار نہیں رکھتا ” فافرق بیننا وبین القوم الفاسقین” ( المائدہ 25) ۔۔ لہذا توہم میں اور ان فاسق لوگوں کے درمیان جدائی ڈال دے” مگر اللہ تعالی نے ان کی یہ دعاقبول نہیں فرمائی ۔ جناب غامدی اس کی وجہ یہ لکھتے ہیں ” اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا موسی علیہ السلام کی طرف سے سبک دوشی کی درخواست تو قبول نہیں کی گئی ۔ اس لیے کہ اس صورت میں تمام بنی اسرائیل ہلاک کردیئے جاتے “( البیان ج1ص 617) اب اللہ تعالی نے ان پربیت المقدس کی زمین کو چالیس سال کے لیے حرام قرار دیدیا  اور فرمایا “قال فانہا محرمة علیہم اربعین سنة یتیہون فی الارض فلاتاس علی القوم الفاسقین ” ( المائدہ 26)  اس آیت میں تو عذابِ الہی کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے ۔ صرف اتنی سی بات ہے کہ چونکہ وہ بیت المقدس کی فتح کے لیے جہاد نہیں کررہے ہیں   تو مارے مارے اورسرگردان پہرتے رہیں گے ۔ فاسق  تو وہ پہلے بقول سیدنا موسی علیہ السلام تھے  ۔ یہ بالکل اس طرح ہے جیسے ہم لوگوں کے زمانے میں خطباء کہتے ہیں کہ ” جب ہم کفار کے خلاف جہاد نہیں کریں گے   تواسی طرح ذلیل وخوار رہیں گے” تو کیا ہم لوگ عذابِ الہی کا محل ہیں ؟ پھر جناب غامدی نے اس دعا کی عدمِ قبولیت کی بھی خانہ ساز توجیہ کی ہے ۔حالانکہ وہ لوگ تو ان حضرات کے نزدیک مستحقِ عذاب بن گئے تھے کیونکہ ان پر جنابِ موسی علیہ السلام نے حجت بھی پوری کی تھی۔ تو اگر یہ لوگ سارے مرجاتے تو اس میں کیا مسئلہ پیدا ہوسکتا تھا ؟ درست توجیہ دعا کی عدمِ قبولیت کی یہ ہے   کہ اللہ تعالی نے ان کو حجت کے کامل ہونے کے متعلق نہیں بتایا تھا ۔ اسی لیے قران مجید  میں بھی اس بات کی کوئی تصریح موجود نہیں ہے ۔ جناب غامدی نے چونکہ یہاں بلا دلیل موسی علیہ السلام کے اِتمام حجت کو مان لیا ہے   اسی لیے تو انہوں نے اس دعا کی یہ فاسد توجیہ کی ہے۔  یہی مسئلہ ان حضرات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی درپیش ہے۔ وہاں بھی انہوں نے بلادلیل دعوائے اتمامِ حجت کیا ہے ۔ بلکہ سیدنا عیسی علیہ السلام کے متعلق بھی انہوں نے بلا دلیل دعوائے اتمامِ حجت کیا ہے ۔ مگر وہاں چونکہ جناب غامدی کے اس قول  پر کہ “سیدنا عیسی وفات پاگئے ہیں ” مضبوط اعتراضات وارد ہورہے تھے کہ سیدنا عیسی علیہ السلام تو رسولِ خدا تھے ۔ (1) جس کا اپنی قوم پرغلبہ بھی آپ لوگوں کے نزدیک یقینی ہوتا ہے (2) اوران پر اتمامِ حجت کرنا بھی لازم ہے ورنہ پھر سیدنا یونس علیہ السلام  کے عمل کی توجیہ آپ  کے نزدیک کیا ہوگی ؟ پھر کوئی رسول علیہ السلام درمیانِ دعوت میں انبیاء کرام کی طرح قتل تو نہیں ہو سکتے ہیں ۔ مگر تم لوگوں کے نزدیک سیدنا عیسی علیہ السلام ان دونوں کے بغیر وفات پاگئے ہیں ۔ یہ کیا بات ہوئی ؟ تو جناب غامدی نے لوگوں کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کےلیے دو فضول باتیں لکھ دیں ۔ ایک بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم پراتمامِ حجت کیا تھا ۔ مگر اس بات کی دلیل کیا ہے ؟ محض دعوائے جناب غامدی ۔ اور دوسری بات کے متعلق بھی بلادلیل دعوی کیا ہے کہ قرانی آیت سے ذاتا ان کا غلبہ مراد نہیں ہوتا ۔ بلکہ نفسِ غلبہ مراد ہے چاہے ان کا ذاتی ہو اورچاہے ان کے متبعین کا ہو ۔ اس جواب کو ہم گذشتہ صفحات میں موضوع بنا چکے ہیں  کہ قران کی آیت آل عمران میں” اتبعوک “سے مراد ان کے سچے پیرو ہیں یا محض منتسبین ؟ یہ لوگ اس سے محض نام لیوا منتسبین مراد لیتے ہیں ۔ سیدنا عیسی علیہ السلام کی طرف محض رسمی منتسب لوگ جیسے ابھی کے مسیحی عوام “لاغلبن انا ورسلی ” کے مصداق کس شرعی دلیل کی بنیادپرہو سکتے ہیں؟  ذرا اس بات کی وضاحت کرلیں ؟  پھرجناب غامدی نے صرف دعاء موسی کی اس فاسد توجیہ پر اکتفاء نہیں کیا ہے ۔ بلکہ اگے لکھا ہے کہ” مگران کے لیے سزا کا فیصلہ سنادیاہے ۔ بائبل میں یہ فیصلہ اس طرح بیان ہوا ہے ” اورخداوند نے موسی اور ہارون سے کہا میں کب تک اس خبیث گروہ کی جو میری شکایت کرتی رہتی ہے برداشت کروں ؟ بنی اسرائیل جومیرے خلاف شکایتیں کرتے رہتے ہیں ۔ میں نے وہ سب شکایتیں سنی ہیں ۔ سوتم ان سے کہ دو ۔ خداوند کہتا ہے مجھے اپنی حیات کی قسم ہے جیسے تم نے میرے سنتے کہا ہے ۔ میں تم سے ضرور ویساہی کرونگا ۔ تمہاری لاشیں اس بیابان میں پڑی رہیں گی ۔ اور تمہاری ساری تعداد میں سے یعنی بیس برس سے لیکراس سے اوپر اوپر کی عمر کے سب جتنے گنے گئے ہیں ۔ اورمجھ پر شکایت کرتے رہئے ہیں ۔ ان میں سے کوئی اس ملک میں جس کی بابت میں نے قسم کھائی تھی   کہ تم کو وہاں بساؤں گا ۔ جانے نہ پائے گا ۔ سوایفنّہ کے بیٹے کالب اور نون کے بیٹے یوشع کے ۔ اور تمہارے بال بچے جن کی بات تم نے یہ کہا   کہ وہ تو لوٹ کامال ٹھیریں گے ۔ ان کومیں وہاں پہچاونگا ۔ اورجس ملک کو تم نے حقیرجانا ۔ وہ اس کی حقیقت پہچانیں گے ۔اور تمہارا یہ حال ہوگا   کہ تمہاری لاشیں اسی بیابان میں پڑی رہیں گی ۔ اورتمہارے لڑکے بالے چالیس برس تک بیابان میں آوارہ پھرتے ۔ اورتمہاری زناکاریوں  ( بد عہدیوں )کاپھل کھاتے رہیں گے ” ( البیان ج1ص 618) بائبل کے اس فاسد بالوجوہ الکثیرہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ (1) خداوند ان پر بہت غصہ تھے ۔ (2) اور وہ ان کی شکایتوں سے بہت تنگ تھے ۔ تو پھر کیوں موسی علیہ السلام کے دعا کو قبول نہیں کیا کہ سارے بیک وقت مرجاتے؟ صحراء میں پڑنے سے تو وہ اور شکایت کریں گے اوروہاں مرنے سے تو بدعاء موسی افضل تھا ؟ لاشیں کیوں پڑی ہوں گی ؟ کیا انہیں مردہ دفن کا طریقہ معلوم نہیں تھا کیا ؟پھر کیا یوشع اورکالب ان سے اس عذاب میں الگ رہے ہیں ؟ اس بات کا کیاثبوت ہے ؟ اوراگر الگ رہے ہیں تو ان لوگوں نے پھر انہیں کیوں  یہ جواب نہیں دیا کہ مصیبت کے وقت میں ہم سے الگ رہے ۔ اب آکر ہمیں جہاد کرنے کا حکم دیتے ہو ؟ بہرحال یہ ایک فضول روایت ہے ۔ قران کے الفاظ اس کا ساتھ بالکل نہیں دیتے ۔ اورنہ قران کے الفاظ ان فضولیا ت کے متحمل ہیں ۔ہم بائبل کو ماخذ بنانے کے متعلق بات کریں گے ۔ مگر چلو ہم جناب کی اس تحقیق کو من وعن مان لیتے ہیں ۔ پھرکہتے ہیں کہ یہ خود ان کی تحقیق کے خلاف ہے   دو وجوہات کی بنا پر ۔ایک تو اس وجہ سے کہ جناب غامدی نے لکھا تھا کہ آسمانی آفات وبلایا اتمامِ حجت کے بعد مشرکین پرآتے ہیں ۔ یہ لوگ تو مسلمان تھے مگر  “یہ  لاشیں جو صحراوں اوربیابانوں میں پڑی رہیں گی” تو کیا یہ آسمانی بلا اورآفت کا نتیجہ نہیں ہے ؟ یقینا ہے ؟ اگر جناب اس کو آسمانی آفت وبلا نہ مانیں تو پھر ہم کہیں گے کہ یہ کام سیدنا موسی وہارون علیہما السلام اوریوشع وکالب نے بھی توانجام نہیں دیا تھا ۔ تو اس کامطلب یہ ہوا کہ پھر عذابِ الہی کی دو صورتوں میں انحصار کی بات غلط ہے ۔ یہی دوسری وجہ ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس اصول سے بھی ان لوگوں کا مدعا ثابت نشد ۔ اب پھر سے اس درج کو ایک بار ملاحظہ کرلیں (4) چوتھا اصول یہ ہے کہ جس رسول کو اپنی زندگی میں اپنی قوم پر غلبہ نہ ملا تو پھر اس کے متبعین ان کے دشمنوں پرغالب ہونگے ۔ جناب غامدی لکھتے ہیں کہ ” سیدنا مسیح کے اٹھائے جانے کے بعد ان کے منکریں پر عذاب کا فیصلہ جس پہاڑ پر سنایا گیا وہ زیتون ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ بنی اسرائیل پر اب ہمیشہ کےلیے مسیح کے ماننے والوں کا غلبہ ہوگا ۔ اوروقتا فوقتا ایسے لوگ ان پرمسلط ہوتے رہیں گے   جوانہیں نہایت برے عذاب چکھائیں گے “( میزان ص 169) یہ بات اگر آیت “وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین” والی آیت کا ترجمہ ہے ۔ تو ہمارا اشکال بعینہ وہی قائم ہے ۔ جس ابھی اوپر تذکرہ ہوا ہے ۔ اور پھر اس بات کی تاریخی دلیل ہونی چاہئے کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کے سچے پیرو ان کے دشمنوں پر کبھی غالب آئے ہوں ؟صرف پہاڑ پرسزا کا سنایاجانا کافی نہیں ہے ۔اورپھر وقتا فوقتا مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کا ان پرغلبہ پانے کا اس مسئلہ سے کیا تعلق ہے ؟ یہاں تو صرف ان لوگوں کا مسئلہ درپیش اورمقصود ہے جن پرعیسی علیہ السلام نے اتمام حجت کیا تھا۔ اسکے متعلق بتادیجئے جناب ۔ اس کے متعلق اگر کچھ ہے توپیش کریں ۔ ورنہ ادھر ادھر بھاگنے کی کیا ضرورت ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…