غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 95)

Published On August 12, 2024
قائلینِ جوازِ موسیقی  کے استدلالات کا جواب

قائلینِ جوازِ موسیقی کے استدلالات کا جواب

ناقد : مفتی یاسر ندیم تلخیص : زید حسن ایک  میوزیک کمپوزر  ( جو موسیقی کے جواز و عدمِ جواز کی بابت جاننے کے متمنی تھے)کے سوال کے جواب میں سپیکر نے  غامدی صاحب کے موسیقی کی بابت جواز کے تصور پر نقد کیا ہے ۔ سپیکر نے اشراق میں غامدی صاحب کے مضامین کا حوالہ دیتے ہوئے...

فکرِ غامدی ، قرآن فہمی کے بنیادی اصول : ایک نقد (قسط دوم)

فکرِ غامدی ، قرآن فہمی کے بنیادی اصول : ایک نقد (قسط دوم)

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر تلخیص : وقار احمد اس ویڈیو میں ہم جاوید احمد غامدی کی کتاب میزان کے باب مبادی تدبر قرآن کا دوسرا اور تیسرا اصول "زبان کی ابانت " اور "اسلوب کی ندرت "زیر بحث لائیں گے۔زبان کی ابانت:غامدی صاحب اس بارے لکھتے ہیں کہ "قرآن عربی میں نازل ہوا ہے...

جاوید غامدی اور انکارِ حدیث

جاوید غامدی اور انکارِ حدیث

مصنف : پروفیسر محمد رفیق تلخیص : زید حسن اس کتاب میں ایک مقدمہ اور چودہ ابواب ہیں ۔ بابِ اول میں مصنف نے سنت کیا ہے اور کیا نہیں ؟ پر بحث کی ہے اور غامدی صاحب کے تصورِ سنت اور اس اصطلاح کے مخصوص معنی پر غامدی صاحب کے لغوی استدلالات پر بحث کی ہے ۔ دوسرے باب میں ایک اہم...

غامدی مذہب کیا ہے ؟

غامدی مذہب کیا ہے ؟

مصنف : پروفیسر محمد رفیق تلخیص : زید حسن یہ کتاب ایک مقدمہ ، پانچ ابواب اور ایک ضمیمہ پر مشتمل ہے ۔ مقدمہ میں مصنف نے غامدی صاحب کے افکار کو دینِ اسلام کے متوازی ایک نیا دین قرار دیا ہے ۔ جسکی دلیل کے طور پر مصنف نے روایتی علمیات کے اعتقادی نتائج اور ان سے غامدی صاحب...

فتنہء غامدیت کا علمی محاسبہ

فتنہء غامدیت کا علمی محاسبہ

مصنف : پروفیسر محمد رفیق تلخیص : زید حسن  یہ کتاب ایک مقدمہ اور دس ابواب پر مشتمل ہے ۔  مقدمہ میں مصنف نے فکرِ غامدی کو تجدد پسندی کی نمائدہ قرار دیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ زمانہ قدیم کی وہ تمام تحریکیں جو اسلام کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کرتی رہی ہیں ، غامدی صاحب اپنی فکر...

غامدیت: غامدی صاحب کے افکار و نظریات کا منصفانہ جائزہ

غامدیت: غامدی صاحب کے افکار و نظریات کا منصفانہ جائزہ

مصنف: مفتی محمد وسیم اختر شاذلی (رئیس دارالافتاء فیضانِ شریعت ، کراچی) تلخیص : زید حسن زیرِ نظر کتاب دراصل ایک طویل استفتاء کا جواب ہے  جسے بعد ازاں کتابی شکل دے دی گئی ہے ۔ مستفتی کا نام سید عطاء الرحمن بن سید محب شاہ ہے ۔ اس استفتاء میں سائل نے غامدی صاحب کے چند...

مولانا واصل واسطی

اب دوسری آیت کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ وہ  سورہِ النساء میں ہے ۔ آیت ہے ” یاایہاالذین امنوا اطیعوااللہ واطیعواالرسول واولی الامرمنکم” ( النساء 59) یعنی   اے ایمان والو!  اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ۔ اوران کی جوتم میں معاملات کے ذمہ دارہیں ۔ اس آیت کے ساتھ سورہِ النساء کی دوسری آیت نگاہ میں رہے  تو مسئلہ پوری طرح سمجھ آسکتاہے ۔ وہ آیت ہے ” وماارسلنا من رسول الا لیطاع الا باذن اللہ” ( النساء 64) یعنی ہم نے جوبھی رسول بھیجا ہے توفقط اس لیے کہ اللہ کی اذن سے اس کی اطاعت کی جائے ۔  اب احباب دوباتوں پر غور فرمالیں (1) ایک چیز یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بالاستقلال ہے ۔ یہ بات پہلی درج آیت سے معلوم ہوئی ہے ۔ اس میں  نہ تو زمانے کی تخصیص ہے اورنہ کسی نوع کی تخصیص ہے ۔ گویا رسول کی اطاعت تمام زمانوں اور تمام انواع اور اقسام میں جاری ہے ۔ مگراولی الامر کی اطاعت دونوں چیزوں سے محروم ہے ۔ نہ وہ تمام انواع واقسام میں جائزہے   اورنہ ہرزمانے کے لوگوں کے لیے ہے ۔ یہ بات ” اطیعوا ” کے ذکر اورحذف نے پیداکی ہے ۔ یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کے لیے تو اس ” اطیعوا ” کو معاد اور مکرر کرلیا ہے  مگر ” اولی الامر ” کی اطاعت کےلیے اس کومعاد نہیں کیا  بلکہ حذف کردیا ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ رسول کی اطاعت بالعموم اوربالاستقلا ل ہے ۔مگر عمالِ حکومت اور امراء دولت کی اطاعت نہ توعمومی ہے اور نہ مستقل ۔ یہ امراء اور عمال جب کوئی حکم جاری کریں گے   تو پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ یہ حکم اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے حدود میں ہے اس دائرے سے باہر ہے؟ اگر اس دائرے  میں ہے تو ہم اس کی اطاعت کے مکلف ہونگے ۔ اوراگراس دائرے سے باہرہے تو ہم پران کی اطاعت لازم نہیں ہے ۔ دوسری بات یہ دیکھیں گے کہ وہ عمال اورامراء ہمارے دور کے ہیں  یاگذشتہ زمانے کے ہیں ۔ اگر ہمارے دورکے ہیں تب ان کی اطاعت ہم  پرلازم ہے ۔ اورگذشتہ زمانے کےہیں تو ان کی اطاعت ہم پرلازم نہیں ہے ۔ مگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ان دوکمیوں سے پاک اورمنزہ ہے ۔ فرض کرو ہم اسے دیکھتے ہیں کہ ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت کے دائرے سے باہر ہے اورقران مجید پر وہ حکم بالفرض زائد ہے ۔ تب بھی ان کی اطاعت ہم پر لازم ہے ۔ ان کی اطاعت قران مجید کے دائرے میں قطعامنحصر نہیں ہے ۔ اور نہ کسی زمانے کے ساتھ مختص ہے ۔ بلکہ قیامت تک کوئی مسلمان آدمی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی امراورفرمان سنیں گے   تب تک اس پر اس امراور فرمان کی اطاعت لازم ہے۔ یہ تو عام اہلِ سنت والجماعت کی بات ہوئی ۔ (2) اب دوسری بات ملاحظہ کرلیں وہ بات یہ ہے کہ جناب غامدی کا بھی یہی مسلک ہے ۔ بظاہر اگرچہ وہ اس بات کے مخالف لگتے ہیں   مگر ان کے اصولِ مذہب کو جو بندہ جانتاہے   تو وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ان کامذہب بھی یہی ہونا چاہئے ۔ کیونکہ انہوں نے ایک اصول بنایاہے کہ ” نصوصِ قران کی تخصیص وتحدید کسی چیز سے نہیں ہوسکتی    چاہے وہ وحی ہو یا غیر وحی ہو ۔حتی کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی قران کے کسی حکم میں ترمیم وتغیر نہیں کر سکتے  جن پر یہ قران نازل ہوا ہے ” اس اصول کا حاصل یہی ہوا کہ ان کی اطاعت کو کسی نوع یا زمانے تک کسی بھی دلیل کی بنیاد پرمخصوص نہیں کیا جاسکتا ۔ ممکن ہے  مذہب‌ِ غامدی کے بعض عشاق کہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین واحکام میں تخصیص  وتحدیداس بنیاد پرکرتے ہیں کہ ان میں سے بعض ہم تک بتواتر پہنچے ہیں  اور بعض ہم تک  بذریعہِ اخبارِآحاد پہنچے ہیں ۔اس لیے ہم وہ تواترسے ثابت شدہ احکام وفرامین تسلیم کرتے ہیں ۔ مگر اخبارِآحاد سے ثابت شدہ احکام ہم نہیں مانتے ۔ ہم جواب میں عرض کریں گے کہ یہ اصول تم نے کہاں سے اخذکیا ہے ؟ یہ اصول نہ تو شرع سے ماخوذ ہے ، نہ ہی عرف سے اورنہ عقل سے ۔ شرع میں تو تواتر کا کوئی ذکر ہی موجود نہیں ہے اس کو بطورِاصول منوانا تو خیر بہت دور کی بات ہے ؟ عرف سے اس لیے ماخوذ نہیں ہے کہ دنیا کے تمام قوانین میں کسی حکم پر عمل درآمد کرنے یاسزادینے کے لیے اس اصول کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتاہے اسے شرط کرنا توالگ مسئلہ ہے ۔ عقل سے اس لیے یہ اصول ماخوذ نہیں ہے کہ عقل نے کبھی آخبارِآحاد کو ماننے سے انکار نہیں کیا ہے ۔ دیکھئے دنیا میں سب سے پہلا اور بڑامسئلہ انسان کے لیے اپنے نسب کے ثبوت کا ہے ۔ مگر تمام انسان خبر واحد ہی کی بنا پراپنے والد کو مانتے ہیں ۔ ورنہ کس کو تواتر سے یہ بات ملی ہے کہ فلان اس کا والد ہے ؟ ممکن ہے بعض جہال اس میں مناقشہ کے متعلق سوچتے ہوں ۔ اس لیے ہم ابھی سے اس کا دروازہ بند کرناچاہتے ہیں ۔ وہ یوں کہ جن لوگوں نے بھی تواتر کے اس اصول کاتذکرہ کیاہے انہوں نے ساتھ یہ بات بھی لکھی ہے   کہ اس کی انتہاحواس کے علم پر ہونی چاہئے ۔ توکیا نسب کی انتہا حواس کے علم پرہوتی ہے؟ زیادہ سے زیادہ شادی کے متعلق لوگ گواہی دے سکتے ہیں ۔ مگر عقلی طور پر ان دونوں چیزوں میں استلزام کہاں موجود ہے کہ جس سے شادی ہوئی بچہ اسی شخص کا ہوگا ؟ لہذا اس بدعتی اصول کو ماننا نہ تو دین کا تقاضا ہے نہ کسی عرف کامقتضی ہے ، اورنہ ہی  عقل وشعورکامطالبہ ہے۔  جب بات ایسی ہے تو اس بے بنیاد اصول کی بنیاد پر ان قرانی آیات میں تخصیص وتحدید کس طرح مکتبِ غامدی کے ماننے والے گوارا کرسکتے ہیں ؟ اگر وہ ایساکرناچاہتے  ہیں توپھر انہیں چاہئے کہ کچھ دنیاوی امور میں بھی اس اصول کی پابندی کریں تاکہ دنیا والے ان کو ان کی عقل کی داد دیں سکیں ۔ مگر مجال ہے کہ کوئی اس اصول کا نام تک لے۔ ایک دین بلکہ آحادیث ہیں جن کے ماننے کے لیے یہ لوگ اس فاسد اصول کی گردان کرتے رہتے ہیں ۔ جناب غامدی کی ایک عبارت بھی دیکہ لیں تاکہ کچھ لطف آجائے ۔ وہ سورہِ نساء کی آیت ” وماارسلنا من رسول الالیطاع باذن اللہ” ( النساء 63)  کی تفسیر میں لکھتے ہیں یہ رسول کاصحیح مرتبہ واضح فرمایاہے کہ رسول  عقیدت ہی کا مرکز نہیں بلکہ اطاعت کابھی مرکزہوتاہے ۔ وہ اس لیے نہیں آتا کہ لوگ اسے نبی اوررسول مان کرفارغ ہو جائیں ۔اس کی حیثیت صرف واعظ وناصح کی نہیں بلکہ ایک واجب الاطاعت ہادی کی ہوتی ہے ۔اس کی بعثت کامقصدہی یہ ہوتاہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں جوہدایت وہ دے ۔ اس کی بے چون وچرا تعمیل کی جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی بندوں کے ساتھ براہِ راست معاملہ نہیں کرتا وہ اپنے نبیوں اوررسولوں کی وساطت سےکرتا ہے  ( دین یااحکام) اس میں شبہ نہیں کہ اصلی مقصود توخدا کی اطاعت ہے مگر اس کا طریقہ ہی یہ ہے کہ اس کے رسول کی اطاعت کی جائے پھر یہ اطاعت کوئی رسمی چیزنہیں ہے ۔قران کامطالبہ ہے کہ یہ اتباع کے جذبے سے اورپورے اخلاص پوری محبت اورانتہائی عقیدت و احترام سے ہونی چاہئے  انسان کوخدا کی محبت اسی اطاعت اوراسی اتباع سے حاصل ہوتی ہے” ( البیان ج1 ص514)  جناب کی طرف سے یہ جذباتی اور جاذب وخالب عبارت اچھی ہے مگراحباب ساتھ وہ دوباتیں بھی یاد رکھ لیں جو ہم نے اوپر لکھی ہیں ۔ تب اس کا جامع مطلب واضح ہوگا ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…