غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 96)

Published On August 12, 2024
رفع و نزولِ عیسی سے متعلق ایک شبہہ کا ازالہ

رفع و نزولِ عیسی سے متعلق ایک شبہہ کا ازالہ

مقرر : مولانا الیاس گھمن  تلخیص : زید حسن غامدی صاحب کہتے ہیں :   اللہ تعالی نے فرمایا ہے "اذ قال اللہ یعیسی انی متوفیک ورافعک الی ومطہرک " قرآن کی ترتیب ہے کہ پہلے عیسی علیہ السلام کو موت دی پھر اپنی طرف اٹھایا اور کافروں کے انہیں مثلہ کرنے سے اور مصلوب کرنے سے بچایا...

انکارِ حدیث کا شاخسانہ

انکارِ حدیث کا شاخسانہ

مولانا عبد الرشید طلحہ نعمانی   تجدد پسندی کی آڑ میں انکارِحدیث غامدی صاحب کابنیادی دعویٰ ہے کہ حدیث کا دین سے کوئی تعلق نہیں،یہ دین کا حصہ نہیں بلکہ دین سے الگ کوئی غیر اہم شئی ہے، دین کا کوئی عقیدہ اور عمل اس سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر احادیث کی کچھ اہمیت...

حیاتِ مسیح علیہ السلام : اسکالر صاحب کو جواب

حیاتِ مسیح علیہ السلام : اسکالر صاحب کو جواب

مقرر : مفتی منیر اخون  تلخیص : زید حسن سائل : ہمارے ہاں عموما سمجھا جاتا ہے کہ مسیح علیہ السلام زندہ ہیں اور قربِ قیامت تشریف لائیں گے لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں ۔ اسکی دلیل یہ ہے کہ قرآن میں انکے زندہ موجود ہونے کا ثبوت نہیں ہے ۔ مفتی...

وجہِ تخلیقِ کائنات نبیﷺ کی ذات یا عبادت؟

وجہِ تخلیقِ کائنات نبیﷺ کی ذات یا عبادت؟

مقرر : مفتی منیر اخون  تلخیص : زید حسن سائل : ہر مسلمان سمجھتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وجہ تخلیقِ کائنات ہیں لیکن ایک اسکالر کا کہنا ہے کہ آپ نہیں بلکہ خدا کی عبادت وجہِ تخلیقِ کائنات ہے ۔مفتی منیر اخون : اسکالر صاحب کو مقصد اور علت میں فرق نہ کرنے سے شبہہ ہوا...

ڈاڑھی سنت یا نہیں ؟

ڈاڑھی سنت یا نہیں ؟

مقرر : مفتی منیر اخون  تلخیص : زید حسن سائل : ڈاڑھی کے بارے میں غامدی صاحب کہتے ہیں کہ وہ دین کا حصہ نہیں ہے اور انکا استدلال یہ ہے کہ اسکا قرآن میں تذکرہ نہیں ہے ۔ مفتی منیر اخوان : قرآن شرعی قانون کی کتاب ہے جس میں اصول بیان ہوتے ہیں ، جزئیات و فروعات نہیں ۔ وحی صرف...

واقعہ اسری و معراج : غامدی کو جواب

واقعہ اسری و معراج : غامدی کو جواب

مقرر : مفتی منیر اخوان  تلخیص : زید حسن سائل  :  غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ اسری اور معراج کا واقعہ منامی ہے اور بیداری میں حضور ﷺ نے یہ سفر نہیں کیا ۔ اس پر وہ قرآن کے " رؤیا" سے استدلال کرتے ہیں کہ اسکا معنی غیر معروف نہیں ہے اور کوئی ایسا قرینہ بھی موجود نہیں ہے کہ...

مولانا واصل واسطی

آج اس سلسلے کی تیسری آیت کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں” وامآتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہوا “( الحشر 7) یعنی  جوکچھ رسول تمہیں دیں وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دیں  اس سے رک جاؤ ” اس آیت کو سمجھنے کے لیے چند باتوں کاجاننا بہت ضروری ہے ۔(1) پہلی بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے چوتھے سال بنونضیر کے یہود سے ان کی دشمنیوں اورعہد شکنیوں کی بنا پرجہاد کیا تھا۔ بلکہ ان ظالموں نے انتقام لینے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور مشرکینِ مکہ سے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ساز باز کرتے رہے ۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی بھی سازش کی تھی ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو محاصرہ کرنے کے بعد جلاوطن کیا  تو ان فساق وفجار کے مدینہ سےنکل جانے اورملک بدرہونے کے بعد مسلمانوں کو کچھ سکون وراحت میسر آیا تھا ۔(2) دوسری بات یہ ہے کہ اس مسئلے میں منافقین یہود کے ساتھ ملے ہوئے تھے ۔ تعاون کابھی انہیں یقین دلایا تھا ۔ اوران کے ساتھ پروپیگنڈاکرنے میں بھی بھرپور ساتھ دے رہے تھے جس کی وجہ سے کچھ مسلمان بھی متاثر ہوگئے تھے ۔ پھر اللہ تعالی نے اس سورت میں ان کوتسلی دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی بناپر درختوں کا کاٹنا کوئی فسادنہیں تھا ۔مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ ” قران کی یہ آیت( الحشر 5) مسلمانوں ہی کو مطمئن کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے۔ کفار کومطمئن کرنا سرے سے اس کامقصود ہی نہیں ہے ۔چونکہ یہود اور منافقین کے اعتراض کی وجہ سے یابطورِخود مسلمانوں کے دلوں میں یہ خلش پیداہوگئی تھی کہ کہیں ہم فساد فی الارض کے مرتکب تونہیں ہوگئے ہیں ؟اس لیے اللہ تعالی نے ان کو اطمینان دلادیا کہ محاصرے کی ضرورت کے لیے کچھ درختوں کوکاٹنا ،اور جودرخت محاصرے میں حائل نہ تھے ان کونہ کاٹنا  یہ دونوں ہی فعل قانون الہی کے مطابق درست تھے ( تفہیم القران ج5ص 387) اس سے ہماری بات کی وضاحت الحمد للہ ہوگئی ہے ۔(3) تیسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  وحی خفی  کے ذریعے سے ان کے نخلستان کے کچھ حصے کو کاٹ دیا تھا۔ اورکچھ کو چھوڑ دیاتھا ۔ اس عمل کو یہود اورمنافقین نے مل کر براکہنا شروع کردیا  جیساکہ بخاری مسلم اورمسندِاحمد میں سیدنا عبداللہ بن عمر سے مروی ہے ۔ مگر ان لوگوں نے یہ مشہور کردیاکہ یہ جناب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کاذاتی فیصلہ ہے  جو فساد پر مشتمل ہے ۔ وحی یعنی قران کے نصوص پر مبنی نہیں ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی کبھی کسی کو فساد کرنے کاحکم نہیں دیتا ۔ اللہ نے جب اس کے بعد یہ سورت بطورِ وحی نازل فرمائی تو دیگرباتوں کے ساتھ اس استدلال یا شبہ پر بھی تبصرہ فرمایا کہ یہ جوکچھ رسولِ خداصلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے   یہ کام انہوں نے اللہ تعالی کے اذن سے کیا ہے ۔ خود اپنی خواہش سے یہ کام نہیں کیا ہے ۔ بعض علماء کرام اسے رسولِ خدا کا اجتہاد کہتے ہیں مگر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ اگر وہ خطا کے مرتکب ہوتے تو اللہ تعالی ضرور انہیں تنبیہ کرتے ۔ مگر یہاں تو ان کی تصویب کی ہے ۔ اوریہ لازم نہیں ہے کہ ہرحکم قران کے نصوص میں موجود ہو ۔ اس تیسری بات سے مسلمانوں کو دوفائدے حاصل ہوئے ہیں (1) ایک فائدہ یہ ہواہے کہ  وحی  محض قران میں منحصر نہیں ہے جیساکہ ہمارے دور کے منکرینِ حدیث کا موقف ہے ۔ بلکہ قران سے باہر بھی وحی کا وجودثابت ہے ۔ جیساکہ سورتِ حشر اوربعض دیگر سورتوں سے معلوم ہوتاہے  ۔ہم اس وقت اس موضوع پرتفصیل نہیں کرسکتے ۔ یہ بحث اگرکسی جگہ موقع مل گیا تو وہاں کرلیں گے ۔ان شاءاللہ تعالی ۔(2) دوسرا فائدہ یہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کو اس آیت میں اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیئے ہوئے احکام وفرامین کو دل کی خوشی اورقبولیت کے ساتھ لیا کرو ۔ چاہے وہ قران میں موجود ہو یا نہ ہو ۔ ان کے بعض احکام کو قبول کرنا اور بعض کو رد کرنا منافقین کا شیوہ اوروتیرہ ہے ۔  اب اس پس منظر کی روشنی میں جب ہم اس آیت کا مطالعہ کرتے ہیں  توتمام ان آحادیث کا اخذ اورقبول کرنا دین کا اصل الاصول لگتا ہے  کہ جن کے اسناد درست اورصحیح ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ سلفِ طیب نے بھی اس آیت کوتمام امور کےلیے عام رکھاہے ۔ خطیب بغدادی الکفایہ میں سیدناعبداللہ بن مسعود سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اس آیت کو واشمہ اورمستوشمہ کے احکام تک متعدی کیاتھا ” ان امرءة من بنی اسد اتت عبداللہ بن مسعود فقالت انہ بلغنی انک لعنت ذیت وذیت والواشمہ والمستوشمہ ۔ وانی قراءت مابین اللوحین فلم اجدالذی تقول وانی لاظن علی اہلک منہا ۔ قال فقال لہا عبداللہ فادخلی فانظری فدخلت فنظرت فلم ترشیئا ثم خرجت فقالت لم ار شیئا فقال لہا عبداللہ اما قرءت ۔۔وما اتکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہوا ۔۔قالت بلی قال فہو ذاک” ( بخاری مسلم ۔ احمد )  مگرافسوس کہ اس زمانےبعض منکرینِ حدیث نے اس آیت کو اس وسیع مفہوم سے نکال کراپنے مزعوم مطلب تک محدود کردیا ہے ۔ مثلا جناب غامدی کی تفسیر وتشریح کو پہلے دیکھ لیں جنہوں اپنے استاد امام  کی تفسیر سے اس آیت کے آخری الفاظ ” ان اللہ شدید العقاب ” کی تفسیرتونقل کی ہے مگر باقی آیت پر بحث کرنے کویکسر نظرانداز کیاہے ۔ جناب نے ایسا کیوں کیاہے ؟ اسکی وجہ ذکی لوگوں پر مخفی نہیں ہے ۔ جناب غامدی ان آخری الفاظ کی یہ تفسیر کرتے ہیں کہ ” یہ تہدید ووعید بتارہی ہے کہ اوپر جووضاحت کی گئی ہے  وہ منافقین کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراض کے جواب میں کی گئی ہے ۔ اس لیے کہ سوال اگرمحض تحقیقِ  مسئلہ کےلیے اورمخلصین کی طرف سے ہوتا تواس تہدید کاکوئی موقع نہیں تھا “( البیان ج5ص 167) جناب غامدی کے  استاد امام  نے اس منقول عبارت کے بعد لکھا اورخوب لکھا کہ”یہاں رسول کایہ درجہ جوواضح فرمایاگیاہے کہ جوکچھ وہ دے وہ لے لو اورجس سے روکے اس سے رک جاؤ ۔اگرچہ اس کاایک خاص محل ہے لیکن اس جوحکم مستنبط ہوتا ہے  وہ بالکل عام ہوگا یعنی زندگی کے ہرمعاملے میں  رسول کے ہرحکم ونہی کی بے چون وچرا تعمیل کی جائے گی ۔اس لیے کہ رسول کی حیثیت  جیساکہ قران میں تصریح ہے اللہ تعالی کے مقرر کیے ہوئے ایک واجب الاطاعت ہادی کی ہوتی ہے ۔فرمایاہے کہ ۔ وماارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ ( النسا64) یعنی ہم نے نہیں بھیجا کوئی رسول مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے ۔ گویا اس ٹکڑے کے دومفہوم ہونگے ایک خاص ۔ دوسرا عام ۔ اپنے خاص مفہوم کے پہلو سے یہ اپنے سابق مضمون سے مربوط ہوگا ۔اور اپنے عام مفہوم کے اعتبار سے اس کی حیثیت اسلامی شریعت کے ایک ہمہ گیر اصول کی ہوگی” ( تدبرِ قران ج 8 293)  مولانا اصلاحی کی اس عبارت سے احباب جان گئے ہونگےکہ جناب غامدی نے اس کو بلاوجہ ترک نہیں کیاہے ؟ ۔ زندگی کے ہرمعاملے میں بے چون وچرا رسول کی اطاعت  قبول ہوتی تو پھر وہ آحادیث کے منکرکیوں ہوجاتے ؟ اب ہم اسی آیت کے متعلق مولانا مودودی کی عبارت نقل کرنا چاہتے ہیں ۔ کیونکہ غامدی ان دوکے عمومی افکارکو ہی اپنے نام سے پیش کرتے ہیں اگرچہ انکارحدیث میں منفرد ہیں ۔وہ لکھتے ہیں ” لیکن چونکہ حکم کے الفاظ عام ہیں اس لیے یہ صرف اموالِ فے کی تقسیم تک محدود نہیں ہے   بلکہ اس کامنشایہ ہے کہ تمام معاملات میں مسلمان رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی اطاعت کریں ۔اس منشا کویہ بات اورزیادہ واضح کردیتی ہے کہ جوکچھ رسول تمہیں دے  کے مقابلے میں جو کچھ نہ دے  کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے گئےہیں ۔ بلکہ فرمایایہ گیاہے کہ ” جس چیز سے وہ تمہیں روک دے  ( یامنع کردے ) اس سے رک جاؤ ” اگر حکم کامقصود صرف اموالِ فے  کی تقسیم کے معاملے تک محدود کرناہوتاتو “جوکچھ دے” کے مقابلے میں “جوکچھ نہ دے” فرمایاجاتا ۔منع کرنے سے یاروک دینے کے الفاظ کا اس موقع پرلانا خود یہ ظاہرکردیتاہے کہ حکم کامقصود حضور کے امرونہی کی اطاعت ہے یہی بات ہے جوخود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمائی ہے ۔حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ” اذامرتکم بامر فائتوا منہ مااستطعتم ومانہیتکم عنہ فاجتنبوہ ” جب میں تمہیں کسی بات کاحکم دوں توجہاں تک ممکن ہواس پرعمل کرو اورجس بات سے روک دوں اس سے اجتناب کرو بخاری ومسلم ” ( تفہیم القران ج5 ص 394) یہ بات جو مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی نے لکھی ہے کوئی نئی بات نہیں بلکہ تفسیر کی مسلمہ اصول میں ایک ہے کہ ” العبرةلعموم الالفاظ لالخصوص السبب “خلاصہ یہ ہواکہ قران کی فقط ان چند آیتوں کو بھی اگر کماحقہ پڑھا ، سمجھا   اورمانا جائے توبندہ منکرِحدیث کبھی نہیں بن سکتا ۔ یہی وجہ ہے منکرینِ حدیث سب سے پہلے قرانی آیات میں تحریفات وتاویلات کا دروازہ کھولتے ہیں ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

اشراق کا استشراق

اشراق کا استشراق

حافظ محمد ریحان جاید احمد غامدی اور ان کے مکتبہء فکر سے تقریباً ہر پڑھا...