نسخ القرآن بالسنة” ناجائز ہونے پر غامدی صاحب کے استدلال میں اضطراب

Published On September 10, 2024
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 27)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 27)

مولانا واصل واسطی تیسری گزارش جناب غامدی کے اس قول کے حوالے سے یہ ہے کہ اس حدیث کا معنی صرف معما ہے ۔کوئی بھی اس معما کو امت کی تاریخ میں حل نہیں کرسکا بلکہ وہ حدیث بے معنی ہے ۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ امت نے اس کا مفہوم سمجھ لیا تھا   تب ہی تو انھوں اس کے متعلق ،، اجماع...

غامدی صاحب کا تصور تبیین اور لونڈیوں کی سزا پر ان کی وضاحت پر

غامدی صاحب کا تصور تبیین اور لونڈیوں کی سزا پر ان کی وضاحت پر

ڈاکٹر زاہد مغل تبصرہ محترم جناب غامدی صاحب کے تصور تبیین کی قرآن کے محاورے میں غلطی واضح کرنے کے لئے دی گئیں چھ میں سے آخری مثال بدکار مرد و عورت کی سزا سے متعلق تھی۔ سورۃ نور کی آیت 2 میں ان کی سزا 100 کوڑے بیان ہوئی تاہم سورۃ نساء آیت 4 میں ارشاد ہوا کہ بدکار لونڈی...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 27)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 26)

مولانا واصل واسطی دوسری گذارش اس اعترض کے حوالے سے یہ ہے کہ اس حدیث کا معنی ومفہوم بھی اہلِ علم کو معلوم ہے اورانھوں نے اس مسئلے کا حل نکالا بھی ہے۔ بہت سارے محققین نے امام ابن جریر الطبری کی اس رائے کو اختیار کیا ہے ، کہ ،، سبعةاحرف ،، سے مراد مختلف قبیلوں کے لہجے...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 27)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 25)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے اسی مبحث میں اگے ،، سبعةاحرف ،، والی روایت کو تختہِ مشق بنایا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ،، یہاں ہوسکتاہے کہ ،، سبعة احرف ،، کی روایت بھی بعض لوگوں کے لیے الجھن کا باعث بنے ، موطا میں یہ روایت اس طرح بیان ہوئی ہے ،، عن عبدالحمن بن عبدالقاری...

نیشن سٹیٹ اور غامدی صاحب

نیشن سٹیٹ اور غامدی صاحب

ڈاکٹر تزر حسین غامدی صاحب اور حسن الیاس جب نیشن سٹیٹ کی بات کرتے ہیں تو وہ لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم نشین سٹیٹ کے دور میں جی رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے دینی فکر میں موجود اصظلاحات جدید دور میں قابل عمل نہیں اور اس چیز نے دینی فکر کو جمود کا شکار کردیا ہے۔ انکی...

غامدی صاحب کے تصور بیان کی اصولی مشکلات: “تاخیر البیان” کی روشنی میں

غامدی صاحب کے تصور بیان کی اصولی مشکلات: “تاخیر البیان” کی روشنی میں

ڈاکٹر زاہد مغل برادر عمار خان ناصر صاحب نے اپنی کتاب "قرآن و سنت کا باہمی تعلق" کا ایک باب مولانا حمید الدین فراہی و مولانا امین احسن اصلاحی صاحبان اور ایک جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور بیان پر لکھ کر ان کی خصوصیات لکھی ہیں۔ آپ نے امام شافعی کے لسانیاتی منہج بیان...

ڈاکٹر زاہد مغل

نفس مسئلہ پر جناب غامدی صاحب بیان کے مفہوم سے استدلال وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم ان کا استدلال لفظ “بیان” سے کسی صورت تام نہیں۔ یہاں ہم اسے واضح کرتے ہیں۔

قرآن اور نبی کا باہمی تعلق کس اصول پر استوار ہے؟ کتاب “برھان” میں غامدی صاحب اس سوال کا یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ تعلق “قرآن کے مبین” ہونے کا ہے اور دلیل سورۃ نحل کی آیت 44 سے دی گئی، اس مفروضے پر کہ بطور مبین نبیﷺ قرآن کے کسی حکم کے ناسخ نہیں ہوسکتے اس لئے کہ بیان اور نسخ متضاد ہیں۔

پھر جب یہ دکھا دیا جائے کہ نسخ بھی علم و عقل کے پیمانے پر بیان ہی ہے اور اہل لغت نے بھی نسخ کے بیان سے خارج ہونے کی کوئی دلیل نہیں دی، تو جواب ملتا ہے کہ سورۃ نحل کی آیت 44 میں تبیین کا مطلب شرح و مراد بتانا نہیں بلکہ کتمان حق کے رویے کے برخلاف قرآن کا “ابلاغ و اظہار” ہے۔ لہذا اس آیت سے نسخ القرآن بالسنة اخذ کرنے کی راہ نہیں۔

ایک لمحے کے لئے فرض کرلیتے ہیں کہ ابلاغ و شرح میں تباین کی ایسی نسبت ہے کہ ان دونوں کو جمع کرنا ممکن نہیں۔ لیکن اس کے بعد سوال یہ ہے کہ اگر سورۃ نحل کی آیت 44 میں تبیین کا مطلب “مانزل الیھم” کا اظہار و ابلاغ ہے، تو قرآن و حدیث کے مابین جس مخصوص معنی والے تعلق پر آپ اصرار کرتے ہیں (یعنی بیان ایک خاص معنی والی شرح) وہ کس آیت سے ماخوذ ہے؟ ظاہر ہے اس کے لئے سورۃ نحل کی یہ آیت پیش نہیں کی جاسکتی کہ یہاں شرح کے معنی کو آپ نے خود ہی روول آؤٹ کرکے استدلال کی بنیاد ختم کردی۔ تو یہ کیسے معلوم ہوا کہ نبی قرآن کے احکام کی ایک خاص مفہوم والی تبیین ہی کرسکتے ہیں؟

اس کا ایک ممکنہ جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ یہ تعلق قرآن کی ان نصوص پر مبنی ہے جہاں کہا گیا کہ نبی کی اتباع و اطاعت کرو نیز جب نبی کوئی حکم دے دیں تو اس کی مخالف جائز نہیں وغیرہ۔ لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ نبی ایسا ہی حکم دے سکتے ہیں جو آپ کے خاص معنی والا “بیان” ہے نیز یہ کہ اس میں نسخ شامل نہیں ہوسکتا؟ ان دو دعووں کے دلیل کیا ہے؟

ممکنہ طور پر دوسرا جواب یہ دیا جاسکتا ہے یہ حضرات توسعاً ہی سہی سورۃ نحل کی آیت 44 میں تبیین سے شرح مراد لینے کے قائل ہیں۔ اس کا پہلا مطلب یہ ہوا کہ آپ ان دونوں معنی کو ایک ساتھ جمع کرنے کے قائل ہیں اور ان میں تباین کی نسبت نہیں دیکھتے۔ ہم بر سبیل تنزیل آپ کا یہ مفروضہ بھی مان لیتے ہیں کہ بیان میں نسخ شامل نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ نبی نسخ نہیں کرسکتے؟ اس آیت میں تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ نبی قرآن کی تبیین کرتے ہیں، اس سے یہ مفہوم کیسے ثابت ہوا کہ اس کے سوا کچھ نہیں کرتے؟ آیت سے آپ کا استدلال تبھی تام ہوسکتا ہے جب آپ دو میں سے کوئی ایک مفروضہ لیں:

الف) یہ آیت قرآن و نبی کے تعلق کے حصر کو لازم ہے

ب) آیت کے مفہوم مخالف سے استدلال کرتے ہوئے بیان کے سوا دیگر امور کی نفی کی جائے

اہل علم پر ان دونوں مفروضوں کا ضعف واضح ہے۔

معلوم ہوا کہ نسخ القرآن بالسنة کی ممانعت میں غامدی صاحب کا اصل استدلال نہ قرآن مجید کی وہ آیات ہوسکتی ہیں جن میں نبی کی اتباع و اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور نہ ہی سورۃ نحل کی آیت 44 ہوسکتی ہے اگرچہ یہ بار بار اس کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کا اصل استدلال یہ دعوی ہے کہ “قرآن چونکہ میزان ہے لہذا سنت اسے منسوخ نہیں کرسکتی کیونکہ کوئی شے اسے تبدیل نہیں کرسکتی”۔ یہ دلیل ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ مبہم بھی ہے۔ ضعف کا پہلو یہ ہے کہ نسخ کو خوامخواہ قرآن کو تبدیل کرنے کے معنی میں فرض کرلیا گیا ہے۔ مبہم ہونے کا پہلو یہ ہے کہ سورة شوری کی متعلقہ آیت میں لفظ میزان اس مفہوم پر تام نہیں جس کے وہ مدعی ہیں اور نہ ہی وہاں قرآن و نبی کا تعلق زیر بحث ہے۔ اس پر ہم پہلے ہی الگ سے بات کرچکے ہیں۔

آپ کا دعوی ہے کہ قرآن میزان ہے جس پر ہر بات کو تولا جائے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ ھم نے قرآن پر تول کر اس بات کو جان لیا کہ اگر کسی معاملے میں قرآن میں کوئی معین حکم سرے سے موجود نہ ہو اور وہاں نبیﷺ سے کوئی حکم ملے تو اسے خدا کا حکم سمجھ کر اتباع کرنا واجب ہے۔ اس کیٹیگری کے آپ بھی بصورت اپنے مفہوم والی سنت قائل ہیں۔ اسی تول سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ اگر نبی قرآن میں مذکور کسی حکم کے بارے میں یہ بتا دیں کہ کسی حکم سے متعلق خدا کی مراد فلاں اشخاص و صورتوں سے متعلق ہی تھی نیز فلاں زمانے سے متعلق تھی تو نبی کی اس بات کے خدا کی طرف سے ہونے کو قبول کیا جانا پہلی کیٹیگری سے زیادہ آسان ہے۔ آخر اسے غلط کہنے کی دلیل کیا ہے؟ اس پر اگر یہ کہا جائے کہ نبی تو قرآن سے متعلق کوئی ایسا حکم جاری نہیں کرسکتے اس لئے کہ ازروئے قرآن ان کا کردار قرآن کے مبین کا ہے تو یہ سرکلر آرگومنٹ ہے کیونکہ یہ پہلے ہی اسٹبلش کیا جاچکا کہ اس آیت سے یہ استدلال تام نہیں، تبھی تو “قرآن میزان ہے” کی جانب رجوع کیا گیا تھا۔

بشکریہ دلیل

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…