غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 75)

Published On April 13, 2024
کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ سوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حدیث و سنت کا مفہوم : اہل اسلام اور غامدی صاحب  غامدی صاحب کے اندراس شوخ چشمانہ جسارت کاحوصلہ کیوں پیدا ہوا ؟ اس لیے کہ وہ آپ کے طریقے اور عمل کو ’سنت ‘ سمجھنے کے لیے تیار نہیں؛ چناں چہ ان کے ٹیپ کا بند ملا حظہ فرمائیں ’’لہٰذا سنت صرف یہی...

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

ڈاکٹر زاہد مغل مشرف بیگ اشرف جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور تبیین پر نقد کا سلسلہ جاری ہے جس میں یہ واضح کیا گیا کہ ان کے تصور تبیین کی نہ صرف یہ کہ لغت میں کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ یہ اس لفظ کے قرآنی محاورے و استعمالات کے بھی خلاف ہے۔ تاہم غامدی صاحب یہ تاثر بھی...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

ڈاکٹر زاہد مغل  توحید کا چوتھا درجہ: توحید وجودی اب توحید کے چوتھے درجے کی بات کرتے ہیں جس پر سب سے زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے اور جسے غامدی صاحب نے کفار و مشرکین جیسا عقیدہ قرار دے کر عظیم ضلالت قرار دیا ہے۔ علم کلام کے مباحث میں اس درجہ توحید کی گفتگو کو "توحید...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ دوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صحابہ کرام کا عمل اور رویہ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم اور احادیث رسول میں کوئی فرق نہیں کیا اور دونوں کو نہ صرف یکساں واجب الاطاعت جانا بلکہ احادیث کو قرآن ہی کا حصہ گردانا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ اول

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ماہنامہ الشریعہ میں مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ کے کتابچے ’’غامدی صاحب کا تصور حدیث وسنت‘‘ کا اور ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت بنام ’’الشریعہ کا طرز فکر اور پالیسی: اعتراضات واشکالات کا جائزہ‘‘ کا اشتہار دیکھا تو راقم نے نہایت ذوق وشوق کے...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط اول

ڈاکٹر زاہد مغل تعارف جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب "برہان" میں تصوف کے موضوع کو تختہ مشق بناتے ہوئے اکابر صوفیاء کرام بشمول امام غزالی پر ضلالت اور کفریہ و شرکیہ  نظریات فروغ دینے کے فتوے جاری فرمائے ہیں۔ نیز ان کے مطابق حضرات صوفیاء کرام نے خدا کے دین کے...

مولانا واصل واسطی

اس مبحث میں ہم اس” قانونِ اتمام حجت ” کو بیان کریں گے جس کا تذکرہ جگہ جگہ یہ حضرات کرتے ہیں ۔ جناب غامدی اور ان کےاستاد امام  نے اس قانون کی تفصیلات اپنی کتابوں میں پیش کردی ہیں ۔ ہمارے نزدیک یہ قانون ہی غلط ہے ۔ اس کی تفصیل ہم بعد میں کرلیں گے ۔ لیکن پہلے جناب غامدی کی وہ عبارت دیکھتے ہیں جس میں اس قانون کا بیان ہوا ہے ۔ وہ سورہ ِیونس کی آیت ( ولکل امة رسول فاذا جاء رسولہم قضی بینہم بالقسط وہم لایظلمون ) کی تفسیرمیں لکھتے ہیں ” یہ اسی قانون کابیان ہے جس کی وضاحت ہم جگہ جگہ کر چکے ہیں کہ نبوت ورسالت کو ذریتِ ابراہیم کے لیے خاص کردینے سے تمام دنیا کی تمام قوموں پر خود انہی رسولوں کے ذریعے سے اتمامِ حجت کیا گیا ۔ قرآن میں اس کی تفصیلات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ رسول اپنے مخاطبین کی لیے خداکی عدالت بن کرآئے اوران کا فیصلہ کرکے دنیا سے رخصت ہوئے ۔ قرآن نے بتایا ہے کہ رسولوں کی دعوت میں یہ فیصلہ انذار ،انذارِعام ، اتمامِ حجت اورہجرت وبراءت کی منزل سے گذرکر صادرہوتا اور اس طرح نافذ ہوتاہے کہ آسمان کی عدالت زمین پرقائم ہوتی  اورخداکی دینونت کاظہورہوتا اوررسول کے مخاطبین کے لیے قیامتِ صغری برپا ہوجاتی ہے ۔ اس دعوت کی جوتاریخ قرآن میں بیان ہوئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ اس موقع پربالعموم دوہی صورتیں پیش آتی ہیں ۔ ایک یہ کہ پیغمبر کے ساتھی بھی کثیر تعداد میں نہیں ہوتے ہیں اوراسے کوئی دارالہجرت بھی میسر نہیں ہوتا ۔ دوسرے یہ کہ وہ معتدبہ تعداد میں اپنے ساتھیوں کو لے کرنکلتا ہے اوراس کے نکلنے سے پہلے ہی اللہ تعالی کسی سرزمین میں اس کے لیے آزادی اور تمکن کے ساتھ رہنے بسنے کاسامان کردیتا ہے ۔ پہلی صورت میں رسول کے قوم کو چھوڑدینے کے بعد ۔ عام اس سے کہ وہ اس کی صورت میں ہو یاہجرت کی صورت میں یہ فیصلہ اس طرح صادر ہوتا ہے کہ آسمان کی فوجیں نازل ہوتیں ۔ اساف وحاصب کا طوفان اٹھتا اورابروباد کے لشکر قوم پر اس طرح حملہ آور ہوجاتے ہیں کہ رسول کے مخالفین میں سے کوئی بھی زمین پر باقی نہیں رہتا ۔ تاہم یہ معاملہ انہی لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے  جن کے لیے قرآن اپنی اصطلاح میں “مشرک ” کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔ رہے وہ لوگ جواصلا توحید ہی  سےوابستہ ہوتے ہیں ۔ ان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوتا ۔ ان کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ ان کی استیصال کے بجائے ان پرذلت اور محکومی کاعذاب مسلط کردیا جاتاہے ۔  چنانچہ معلوم ہے کہ بنی اسرائیل کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا ۔ اورقومِ نوح ،قوم ہود ،قوم صالح ،قوم لوط ،قوم شعیب اور اس طر ح کی بعض دوسری قومیں اس کے برخلاف زمین سے مٹادی گئیں ۔ دوسری صورت کے لیے بھی یہی قانون ہے ۔ لیکن اس میں عذاب کافیصلہ رسول اوراس کے ساتھیوں کی تلواروں ذریعے سے نافذ کیاجاتا ہے ( البیان ج2 ص 440)  یہ اس قانونِ اتمامِ حجت کاخلاصہ ہے جسے یہ لوگ بابِ رسالت میں باربار پیش کرتے ہیں ۔ اس قانون پر بات جناب غامدی نے میزان میں مختلف مقامات میں کی ہے ۔ مگر یہ  عبارت ان کے مقابلے میں مختصر تھی اس لیے ہم نے اس کویہاں نقل کیاہے ۔ ان مقامات  میں جناب نے کچھ  غیر متعلق آیات سے بھی اپنے مالوفہ طریقے کے مطابق مطلب کشید کرنے کی کوشش ہے  ۔ مثلا سورہِ اعراف  کی آیت ہے کہ ( ومارسلنا من نبی الا اخذنا اہلہا بالباساء والضراء الخ ) اس کاترجمہ یوں کیا ہے ” ہم نے جس بستی میں کسی نبی کو رسول بنا کر بھیجا ہے ”  حالانکہ آیت کا ترجمہ یہ ہے  کہ (ہم نے جس بستی میں بھی کسی کو نبی بناکر بھیجا ہے ) یہ ترجمہ صرف اس لیےایساکیا ہے تاکہ رسالت کے متعلق اپنی بات کوثابت کیاجا سکے ۔اس قانون میں اگر اتنی ہی بات ہوتی  جو ہم نے ذکر کی ہے  تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں تھا ۔ مگر جناب نے اسے قطعی سمجھ کر اورلوگوں کو سمجھا کر اس سے بعض انتہائی غلط اصول اور قوانین کا استنباط کیا ہے ۔ انہوں نے جہاد کے اختتام کا اعلان اس قانون کے روشنی میں اس طرح کیا ہے کہ ” ہم نے تمہید میں لکھا ہے کہ اس مقصد کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ نے جو اقدامات کیے اور انہیں قتال کاجو حکم دیا گیااس کا تعلق شریعت سے نہیں ہے  بلکہ اللہ تعالی کے قانونِ اتمامِ حجت سے ہے ۔( میزان ص 595) اس سے دوصفحے اگے پھر لکھتے ہیں ” اس سے واضح ہوا کہ یہ محض قتال نہ تھا بلکہ اللہ تعالی کا عذاب تھا  جو اتمامِ حجت کے بعد سنتِ الہی کے عین مطابق اور ایک فیصلہِ خداوندی کی حیثیت سے مشرکین اور یہود ونصاری پراوراس کے بعد عرب سے باہر کی بعض قوموں پر نازل کیا گیا ۔ لہذا یہ قطعی ہے  کہ منکرینِ حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کرکے انہیں محکوم اور زیردست بناکر رکھنے کاحق اس کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے ۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کرسکتا ہے  اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بناکر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کرسکتا ہے ۔ مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک صورت باقی رہ گئی ہے   اوروہ ظلم وعدوان کے خلاف جنگ ہے ۔اللہ کی راہ میں قتال اب یہی ہے  اس کے سوا کسی مقصد کےلیے بھی دین کے نام پر جنگ نہیں کی جاسکتی ( میزان ص 599) کوئی جناب سے پوچھ لے کہ “من انت زیدا “تمہیں یہ اختیار کس نے دیاہے ؟ کسی عرب شاعر نے کیاخوب کہا تھا کہ

یقولون ہذا عندنا غیر جایز

ومن انتم حتی یکون لکم عند

یہاں احبابِ کرام صرف تین مختصر باتیں نوٹ فرمالیں

پہلی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ ہم نے پہلے لکھا تھا کہ یہ  “تخصیص وتحدیدِ آیاتِ قرآنی کا عدمِ جواز عام  مسلمانوں کے لیے ہے ۔ جناب کے لیے” تحدیدوتخصیص ” تو کیا نسخِ آیاتِ قرآنی بھی جائز ہے ۔ اب دیکھو ناکہ قرآن کی سینکڑوں آیات کے متعلق یہ فیصلہ سنادیا ہےکہ ان پر اب عمل نہیں ہو سکتا کیونکہ ان آیات کا تعلق شریعت سے نہیں ہے بلکہ قانونِ اتمامِ حجت سے ۔ اگر کچھ آیات بچ گئے تو جناب ان کا تعلق فطرت سے بناکر دکھادیں گے ۔ بات بالکل ختم ہوجائے گی ۔ اگر یہ لوگ کہیں کہ ہم نے تو اس قانون کی وجہ سے ان آیات کو غیرمعمول بہا قرار دیا ہے ۔ توہم جواب میں عرض کریں گے کہ ” اتمامِ حجت ” کا یہ قانون سرے سے کوئی  خدائی قانون ہے ہی نہیں ۔ درحقیقت ایک ملغوبہ ہے  جسے تم لوگوں نے جہاد کے خاتمے کے لیے ایجادکیا ہے ۔ اس طرح کے قوانین ایک آیت یا چند آیات کو اپنے مورد سے نکال کر ایجاد کرنا کیا مشکل ہے ؟ اس مصنوعی قانون کی حقیقت ہم اگے واضح کرنے والے ہیں ۔ دوسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ جناب غامدی اگرچہ اس قانون کو اس شدت وتیقن سے بیان کرتے ہیں  جیسے وہ قرآنی نصوص میں وارد ہو  مگر فی الحقیقت جناب تحریفِ آیات سے ہی کام نکالتے ہیں۔  اس کے ایک دو مثالیں کافی ہوں گی  مثلا قرآن کی آیت ہے ” لاغلبن انا ورسلی ان اللہ قوی عزیز ( المجادلہ 21) یعنی ” اللہ تعالی نے لکھ رکھاہے کہ میں غالب رہونگا اورمیرے رسول بھی بے شک اللہ قوی ہے بڑا زبردست ہے ” اب جو لوگ اس درجِ بالا آیتِ مجادلہ سے اپنے اس مصنوعی قانونِ اتمامِ حجت کے لیے استدلال کرتے ہیں کہ رسولوں کا غلبہ اپنے مخالفین پر یقینی ہے تو وہ جان لیں کہ یہ قانون سیدنا عیسی علیہ السلام کی سرگذشت میں ٹوٹ رہا ہے ۔ان کو اللہ تعالی نے اپنی قوم پر غلبہ دینے کے بغیر آسمان پراٹھالیاہے ۔ توغلبہ ان کو اپنے مخالفین پر کہاں حاصل ہوا ؟ یہ لوگ جب اس قانون کی کمزوری کو سمجھ گئے تو پنتیرا بدلا اور کہنے لگے ۔ کہ چاہئے غلبہ ان کو ذاتا حاصل ہو یاپہرتبعا حاصل ہو ۔ جیسے کہ ان کے متبعین کو غلبہ حاصل ہوجائے یہ بھی درحقیقت ان ہی کا غلبہ ہے ۔ ہم جوابا عرض کریں گے کہ اللہ تعالی نے “لاغلبن انا ورسلی  ” کی بات فرمائی ہے ۔ ان کے متبعین تم لوگ اس آیت میں کہاں سے گھسیڑ کر لائے ہو ؟ پھر اس تحریف کو بھی ہم دل پر پتھر رکھ کر تھوڑی دیر کےلیے مان لیتے ہیں ۔ مگر متبعین کا غلبہ بھی ادھر کہاں ہیں ۔ تو یہ لوگ جواب میں ایک آیت لیکر سامنے آجاتے ہیں  کہ قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ” وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامہ” ( آل عمران ۔54) اب ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ اس آیت میں “اتبعوک ” سے سیدنا عیسی علیہ السلام کے حقیقی وارث اورمتبع لوگ مراد ہیں یا محض نام لیوا لوگ ؟ اگر آپ حقیقی متبعین مراد لیتے ہیں ۔ تو ان کا غلبہ تاریخ میں ہمیں دکھا دیں ۔ اور اگر محض نام لیواعیسائی لوگ مراد ہیں جو شرک وبدعات میں لت پت اوراس سے آٹے پڑے ہیں ۔ تو کیا اسے “لاغلبن انا ورسلی ” کا مصداق قرار دیاجاسکتا ہے ؟ بہت ظلم کرے گا وہ آخص جو ان کے لوگوں کے غلبے کو آیتِ مجادلہ کامصداق قراردے گا ۔ یہ بات صرف ہم نہیں کہتے کہ ان متبعین سے ان کے محض نام لیوا عیسائی لوگ مراد ہیں بلکہ جناب غامدی نے بھی یہی لکھا ہے کہ  اس سے مراد سیدنا مسیح علیہ السلام کے عام متبعین اورنام لیوا ہیں جو پہلے نصاری اوراب مسیحی کہلاتے ہیں ۔ یہ موقع بشارت کاہے  ۔ جس کاتقاضاہے یہی ہے کہ اس میں وسعت ہو ۔ پھر “الذین اتبعوک ” کے الفاظ “الذین کفروا “کے مقابل آئے ہیں ۔ لہذاان سے مراد منتسبینِ مسیح ہی ہو سکتے ہیں نہ کہ وہ لوگ جوآپ کے سچے پیرو ہیں اورآپ کی ہدایت پر مخلصانہ عمل کرنے والے ہوں ( البیان ج 1ص 360) اب یہ لوگ بتائیں کہ  اس مصنوعی قانون میں سے کیا بچ گیا ہے ؟ الا یہ کہ ” لاغلبن انا ورسلی”  میں اب کوئی اور تحریف یہ حضرات گواراکرلیں ۔ بات طویل ہوگئی ہے تحریف کی دوسری مثال پھرسہی ۔تیسری بات یہ ہے کہ جہاد کے دیگر اقسام کا تو جناب غامدی نے خاتمہ کردیا ہے  سوائے ظلم وعدوان کے صورت کی مگر ظلم وعدوان کی بھی تو بےشمار صورتیں  ہیں ۔ ان میں کس صورت میں جہاد جائز ہے ؟ اس بات کی جناب نہیں وضاحت نہیں کی ہے ۔ کیا جب کوئی کافر قوم ہمارے ملک پر حملہ کرلے ۔ یہ ظلم مراد ہے ؟ یا کہیں کسی کافر ملک والے اپنی مسلمان رعایا پر تجاوز کرے ۔ یہ ظلم مراد ہے ؟ یا اسلامی ملک کے بادشاہ اور فوج اپنی قوم پرجوروستم جاری رکھے ۔ یہ ظلم مرادہے ؟ جناب نے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…