آمدِ امام مہدی

Published On July 17, 2024
سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

علم کلام پر جناب غامدی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

علم کلام پر جناب غامدی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل ایک ویڈیو میں محترم غامدی صاحب علم کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے ایک حرف غلط قرار دے کر غیر مفید و لایعنی علم کہتے ہیں۔ اس کے لئے ان کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ فلسفے کی دنیا میں افکار کے تین ادوار گزرے ہیں:۔ - پہلا دور وہ تھا جب وجود کو بنیادی حیثیت دی گئی...

شریعت خاموش ہے “ پر غامدی صاحب کا تبصرہ”

شریعت خاموش ہے “ پر غامدی صاحب کا تبصرہ”

ڈاکٹر زاہد مغل ایک ویڈیو میں جناب غامدی صاحب حالیہ گفتگو میں زیر بحث موضوع پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دین یا شریعت خاموش ہونے سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ شریعت نے اس معاملے میں سرے سے کوئی حکم ہی نہیں دیا بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ شارع نے یہاں کوئی معین...

قرآن کا میزان و فرقان ہونا اور منشائے متکلم کا مبحث

قرآن کا میزان و فرقان ہونا اور منشائے متکلم کا مبحث

جہانگیر حنیف کلام کے درست فہم کا فارمولہ متکلم + کلام ہے۔ قاری محض کلام تک محدود رہے، یہ غلط ہے اور اس سے ہمیں اختلاف ہے۔ کلام کو خود مکتفی قرار دینے والے حضرات کلام کو کلام سے کلام میں سمجھنا چاہتے ہیں۔ جو اولا کسی بھی تاریخی اور مذہبی متن کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اور...

خلافتِ علی رضی اللہ عنہ، ان کی بیعت اور جناب غامدی صاحب کے تسامحات

خلافتِ علی رضی اللہ عنہ، ان کی بیعت اور جناب غامدی صاحب کے تسامحات

سید متین احمد شاہ غامدی صاحب کی ایک تازہ ویڈیو کے حوالے سے برادرِ محترم علی شاہ کاظمی صاحب نے ایک پوسٹ لکھی اور عمدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ صحابہ کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے غامدی صاحب کی اور بھی کئی ویڈیوز ہیں۔ جس طرح انھوں نے بہت سے فقہی اور فکری معاملات میں...

سوال

قبل قیامت حضرت مہدی علیہ السلام کی آمد سے متعلق ٹیلی ویژن پر ایک سوال کے جواب میں علامہ غامدی نے کہا: کسی امر کے عقیدہٴ اسلامی میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن میں اس کا ذکر واضح طور پر ہو۔ جہاں تک امام مہدی کے عقیدہ کا تعلق ہے اس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ امام مہدی کی آمد کے قائلین صرف احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ لیکن اس سلسلے کی احادیث انتہائی مضحکہ خیز اور بے بنیاد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عالم تو عالم ایک معقولیت پسند آدمی ان متضاد ، بے بنیاد اور مضحکہ خیزکہانیوں کو قبول نہیں کرے گا۔ میں نے اس سلسلے میں مزید تحقیق کی اور اس عالم اور اس کے طلبہ کی ویب سائٹ ملی

http://www.renaissance.com.pk ۔ درج ذیل جواب ان کے شاگرد طارق ہاشمی کا دیا ہوا ہے۔

سوال: کچھ احادیث میں یہ بات آتی ہے کہ قیامت سے قبل امام مہدی آئیں گے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ قرآن و حدیث میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسے ہم عقیدہ کا جز نہ سمجھاجائے اور اس سے متعلق احادیث موضوع ہیں؟

جواب: اسلامی تعلیمات کے دو ذرائع ہیں ؛ قرآن و حدیث۔ عام طور پر قرآن میں اسلامی عقائد ہیں اور حدیث میں اعمال کا ذکر ہے۔ قرآن میں مذکور عقائد اور حدیث میں مذکور اعمال پر کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ حضرت مہدی کی آمد کا عقیدہ اسلامی عقائد کا جز ہے۔ مزید برآں حضرت مہدی کی آمد کی پیشین گوئی معتبر نہیں ہے۔ دو بڑے مسلم علماء ابن خلدون اور علامہ تمنا عمادی نے روایةً و درایةً ان احادیث کی تحقیق کی ہے۔ ان کے مطابق اس طرح کی ساری روایتیں بے بنیاد ہیں۔

 

جواب

علامہ شوکانی نے الإذاعة ص۷۷ میں لکھا ہے فتقرر أن الأحادیث الواردة في المہدي المنتظر متواترة، والأحادیث الواردة في نزول عیسی متواترة چنانچہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ جو احادیث مہدی منتظر کے بارے میں آئی ہیں، وہ سب متواتر ہیں، اسی طرح وہ احادیث جو نزول عیسی کے بارے میں آئی ہیں وہ سب بھی متواتر ہیں۔ اسی طرح حافظ ابن حجر نے فتح الباری شرح بخاری، ج۶ ص۳۵۸ میں لکھا ہے ولو تواترت الأخبار بأن المہدي من ہذہ الأمة وأن عیسی یصلی خلفہ الخ متواتر احادیث آئی ہیں کہ امام مہدی اس امت میں سے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔
احادیث متواترہ سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ یقینی ہوتا ہے، عقائد کے باب میں پیش کرنا صحیح ہے، یہ مسلمہ اصول ہے، حیرت کی بات ہے کہ علامہ غامدی نے ان احادیث کو مضحکہ خیز اور بے بنیاد بتایا ہے اور ان کے شاگرد طارق ہاشمی نے امام مہدی کی آمد کی پیشین گوئی کو ہی غیر معتبر قرار دیا ہے۔ یہ دونوں اگر احادیث صحیحہ صریحہ متواترہ کا مطالعہ رکھتے اور ان کی معتبر شروح کو دیکھتے تو ایسی بات نہ لکھتے۔ احادیث متواترہ کے خلاف کسی کی بات معتبر نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم

فتوی : 875

دار الافتاء دار العلوم دیوبند

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…