پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت کے دوران میں نکاح کے متعلق غامدی صاحب اور ان کے داماد کی گفتگو کا ایک کلپ کسی نے شیئر کیا اور اسے دیکھ کر پھر افسوس ہوا کہ بغیر ضروری تحقیق کیے دھڑلے سے بڑی بڑی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اگر غامدی صاحب اور ان کے داماد صرف اپنا نقطۂ نظر...
نظریات جاوید احمد غامدی
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 7)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے قرآن مجید کے متعلق بھی مختصر سی بحث کی ہے ۔جس پر بہت کچھ کہنے کے لیے موجود ہے مگر ہم اس کی تفصیل کرنے سے بقصدِ اختصار اعراض کرتے ہیں ۔ جناب نے قرآن کے اوصاف میں ایک وصف ،، فرقان ،، ذکر کیاہے ۔اور دوسرا وصف ،، میزان ،، ذکرکیاہے ۔پھراس...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 6)
مولانا واصل واسطی ہم اس وقت ،، حدیث وسنت ،، کے موضوع سے ایک اور بحث کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ کیونکہ جناب غامدی نے ،، حدیث اور سنت ،، نے مبحث کو مختلف مقامات میں پھیلا رکھاہے۔درمیان میں دیگر مباحث چھیڑ دیئے ہیں ، ہم بھی انہیں کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جاوید غامدی نے...
غامدی اور خضریاسین: تفسیر وتفہیم کے معاملے پر میرا نقطہ نظر
گل رحمان ہمدرد غامدی صاحب نے مقامات میں دبستانِ شبلی کے بارے بتایا ہے کہ اس کے دو اساسی اصولوں میں سے ایک اصول یہ تھا کہ دین کی حقیقت جاننے کےلیۓ ہمیں پیچھے کی طرف جانا ہوگا ”یہاں تک کہ اُس دور میں پہنچ جاٸیں جب قرآن اتر رہا تھا اور جب خدا کا آخری پیغمبر خود انسانوں...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 5)
مولانا واصل واسطی ہم نے اوپر جناب غامدی کی ایک عبارت پیش کی ہے کہ ،، چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہوسکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیاجاسکتاہے (میزان ص15) میں نے کہیں جناب غامدی کا اپنا قول غالبا،، اشراق ،، کے کسی شمارے میں...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 4)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی صاحب آگے اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ " دین لاریب انھی دوصورتوں میں ہے ۔ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے نہ اسے دین قرار دیا جاسکتاہے ( میزان ص15)" ہم عرض کرتے ہیں کہ جناب غامدی نے دین کو بہت مختصر کر دیا ہے کیونکہ جن 25 سنن کو انھوں...
سوال
دین اسلام کامل و مکمل دین اور ربانی ضابطۂ حیات ہے، جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ بزرگ و برتر نے اپنے ذمہ لی ہے، اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں بہت سے فتنوں نے جنم لیا اور اسلامی عمارت کو ڈھانے کی بھر پور کوشش کی، لیکن اللہ تعالیٰ نے علمائے امت کے ہاتھوں ان فتنوں کے تار پود بکھیر دیے اور حق کو بالکل واضح کر دیا، اسی طرح کا ایک فتنہ گذشتہ ڈیڑھ سو برس سے مغرب سے مرعوبیت کے زیر اثر جدت پسند الحادی فکر کا پیدا ہوا ہے، جس کی کوکھ سے بے شمار فتنے معرض وجود میں آ رہے ہیں اور اگر فی زمانہ اس فتنے کو “ام الفتن” کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، ٹی وی کے ایک اسکالر جناب جاوید غامدی صاحب آج کل اسی تجدد پسند الحادی فکر کے علم بردار ہیں، موصوف کی آراء و افکار نے ایک مستقل مکتب فکر یا نئے مذہب کی شکل اختیار کر لی ہے، جس کا بنیادی مقصد امت مسلمہ کو اس اس کے قابل فخر، قابل رشک اور مضبوط ماضی سے کاٹنا اور اسے دین اسلام کی چودہ سو سالہ متفقہ اور متوارث تعبیر سے محروم کرنا ہے، یہ فتنہ شاید اس قدر پروان نہ چڑھتا اگر بعض علماء بھی جدت پسندی کی اس پُر فریب وادی میں نہ اترتے، اب چونکہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں اس طرز فکر کی بے جا پذیرائی کے سبب یہ فتنہ ہمارے دروازہ پر آ کھڑا ہوا ہے، بلکہ سادہ لوح عوام پے در پے اس کا شکار ہوتی جا رہی ہے، اس لیے آپ حضرات کے سامنے غامدی صاحب کی چند بنیادی افکار و آراء باحوالہ پیش خدمت ہیں۔ برائے کرم ہمیں یہ بتایا جائے کہ یہ باتیں اسلام یا اہل سنت و الجماعت کے عقائد کے موافق ہیں یا مخالف؟
الف۔ قرآن کی صرف ایک ہی قراءت ہے، باقی قراءتیں قرآن نہیں، بلکہ فتنہ عجم کی باقیات ہیں
قرآن صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے اور جسے مغرب کے چند علاقوں کو چھوڑ کر پوری دنیا میں امت مسلمہ کی عظیم اکثریت اس وقت تلاوت کر رہی ہے، یہ تلاوت جس قراءت کے مطابق کی جاتی ہے اس کے سوا کوئی دوسری قراءت نہ قرآن ہے اور اسے قرآن کی حیثیت سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ (میزان: 27)
یہ بات بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قراءت ہے جو ہمارے مصحف میں ثبت ہے، اس کے علاوہ اس کی جو قراءتیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی یا پڑھائی جاتی ہیں یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں وہ انہیں فتنوں کے باقیات ہیں جن کے اثرات سے ہمارے علوم کا کوئی شعبہ افسوس ہے کہ محفوظ نہیں رہ سکا۔ (میزان: 32)
ب۔ حدیث سے قرآن کے نسخ اور اس کی تحدید و تخصیص کا مسئلہ محض سوء فہم اور قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے
“حدیث سے قرآن کے نسخ اور اس کی تحدید و تخصیص کا یہ مسئلہ محض سوءِ فہم اور قلت تدبر کا نتیجہ ہے، اس طرح کا کوئی نسخ یا تحدید و تخصیص سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی کہ اس سے قرآن کی یہ حیثیت کہ وہ میزان اور فرقان ہے کسی لحاظ سے مشتبہ قرار پائے۔” (میزان: 35)
ج۔ جانوروں کی حلت و حرمت کا معیار انسانی عقل و فطرت ہے
“خدا کی شریعت نے بھی ان جانوروں کی حلت و حرمت کو اپنا موضوع نہیں بنایا، بلکہ صرف یہ بتا کر تمام طیبات حلال اور تمام خبائث حرام ہیں انسان کو اس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے، چنانچہ شریعت کا موضوع اس باب میں صرف وہ جانور اور ان کے متعلقات ہیں جن کی حلت و حرمت کا فیصلہ تنہا عقل و فطرت کی رہنمائی میں کر لینا انسان کے لیے ممکن نہ تھا ۔۔۔ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اسے بیان فطرت کے بجائے بیانِ شریعت سمجھا۔” (میزان: 37-36)
د۔ سنت خبر واحد سے ثابت نہیں ہوتی، اس کا مأخذ امت کا اجماع ہے
“جس طرح قرآن خبر واحد سے ثابت نہیں ہوتا، اسی طرح سنت بھی اس سے ثابت نہیں ہوتی ۔۔۔ لہذا قرآن ہی کی طرح سنت کا ماخذ بھی امت کا اجماع ہے۔” (میزان: 60)
ھ۔ اخبار آحاد سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا
“نبی ﷺ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبار آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے ان کے بارے میں یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔” (میزان: 61)
و۔ معروف و منکر کا معیار انسانی فطرت ہے
“قرآن کی دعوت اس کے پیشِ نظر جن مقدمات سے شروع ہوتی ہے وہ یہ ہیں: ۱۔ فطرت کے حقائق۔ ۲۔ دین ابراہیمی کی روایت۔ ۳۔ نبیوں کے صحائف۔ پہلی چیز کا تعلق ایمان اور اخلاق کے بنیادی حقائق سے ہے اور اس کے ایک بڑے حصے کو وہ اپنی اصطلاح میں معروف و منکر سے تعبیر کرتا ہے، یعنی وہ باتیں جو انسانی فطرت میں خیر و شر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور جن سے فطرت ابا کرتی ہے اور انہیں بُرا سمجھتی ہے۔” (میزان: 45)
ز ۔کسی کو کافر قرار دینا پیغمبر کے بعد کسی کے لیے جائز نہیں
“کسی کو کافر قرار دینا ایک قانونی معاملہ ہے، پیغمبر اپنے الہامی علم کی بنیاد پر کسی گروہ کی تکفیر کرتا ہے، یہ حیثیت اب کسی کو حاصل نہیں۔” (ماہنامہ اشراق: 55-54، دسمبر 2000ء)
ح۔ کسی چیز کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دینے یا زکوٰۃ کا کوئی بھی نصاب مقرر کرنے کا ریاست کو اختیار ہے
“ریاست اگر چاہے تو حالات کی رعایت سے کسی چیز کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دے سکتی ہے اور جن چیزوں سے زکوٰۃ وصول کرے، ان کے لیے عام دستور کے مطابق کوئی نصاب بھی مقرر کر سکتی ہے۔” (میزان: 351)
ط۔ ارباب حل و عقد اگر چاہیں تو دیت کو نئے سرے سے مرتب کر سکتے ہیں
“قرآن کا حکم یہی ہے کہ دیت معاشرے کے دستور اور رواج کے مطابق ادا کی جائے ۔۔۔ چنانچہ اس نے اس معاملے میں معروف کی پیروی کا حکم دیا ہے، قرآن کے اس حکم کے مطابق ہر معاشرہ اپنے ہی معروف کا پابند ہے۔۔۔ کسی معاشرے کے ارباب حل و عقد اگر چاہیں تو اپنے اجتماعی مصالح کے لحاظ سے انہیں نئے سرے سے مرتب کر سکتے ہیں۔” (میزان: 21-620)
ی۔ مرتد کے قتل کی سزا زمانہ رسالت کے مشرکین کے لیے خاص ہے
“یہی وہ ارتداد ہے جس کے بارے میں رسول ﷺ نے فرمایا: “من بدل دينه فاقتلوه” نبی ﷺ کے اس حکم میں “من” اسی طرح زمانہ رسالت کے مشرکین کے لیے خاص ہے، جس طرح اوپر “أمرت أن أقاتل الناس” ان کے لیے خاص ہے ۔۔۔ ہمارے فقہاء کی غلطی یہ ہے کہ انہوں “الناس” کی طرح اسے قرآن میں اس کی اصل سے متعلق کرنے اور قرآن و سنت کے باہمی ربط سے اس حدیث کا مدعا سمجھنے کے بجائے اسے عام ٹھہرا کر ہر مرتد کی سزا موت قرار دی اور اس طرح اسلام کے حدو و تعزیرات میں ایک ایسی سزا کا اضافہ کر دیا، جس کا وجود ہی اسلامی شریعت میں ثابت نہیں ہے”۔ (البرہان: 43-142)
ک۔ کنوارے زانیوں کی طرح شادی شدہ زانیوں کی اصل سزا بھی سو کوڑے ہی ہے
“امام حمید الدین فراہی کی اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ زانی کنوارا ہو یا شادی شدہ، اس کی اصل سزا تو سورہ نور میں قرآن کے صریح حکم کی بنا پر سو کوڑے ہی ہے، لیکن اگر مجرم زنا بالجبر کا ارتکاب کرے یا بدکاری کو پیشہ بنا لے یا کھلم کھلا اوباشی پر اتر آئے یا اپنی آوارہ منشی، بدمعاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت و ناموس کے لیے خطرہ بن جائے یا مردہ عورتوں کی نعش قبروں سے نکال کر ان سے بدکاری کا مرتکب ہو یا اپنی دولت اور اقتدار کے نشے میں غرباء کی بہو بیٹیوں کو سر بازار برہنہ کرے یا کم سن بچیاں بھی اس کی درندگی سے محفوظ نہ رہیں تو مائدہ کی اس آیت محاربہ کی رُو سے اسے رجم کی سزا بھی دی جا سکتی ہے ۔۔۔۔ زنا کی سزا کے بارے میں اپنا جو نقطۂ نظر ہم نے اوپر بیان کیا ہے، اس سے یہ حقیقت بالکل مبرہن ہو جاتی ہے کہ کنوارے زانیوں کی طرح شادی شدہ زانیوں کی سزا بھی قرآن مجید کی رُو سے ضربِ تازیانہ ہی ہے۔” (البرہان: 92-91)
ل۔ اولاد میں صرف لڑکیاں ہوں تو سارا ترکہ انہیں دیا جائے گا
“اولاد میں صرف لڑکیاں ہوں تو سارا ترکہ دونوں میں سے جو موجود ہو گا اسے دیا جائے گا۔” (میزان: 517)
م ۔والد کو حصہ دینے کے بعد اولاد میں اگر تنہا لڑکیاں ہی ہوں، تو بچے ہوئے ترکے ہی کا دو تہائی یا آدھا دیا جائے گا
“اس وجہ سے ضروری ہے کہ ابا کا حصہ پہلے دیا جائے اور باقی جو کچھ بچے وہ اس کے بعد بچوں میں تقسیم کیا جائے ۔۔۔ اسی طرح میت کی اولاد میں اگر تنہا لڑکیاں ہی ہوں تو انہیں بھی اسے بچے ہوئے ترکہ ہی کا دو تہائی یا آدھا دیا جائے گا، ان کے پورے ترکے میں سے کسی حال میں ادا نہ ہوں گے۔” (میزان: 520)
ن۔ ظہور مہدی اور مسیح علیہ السلام کا آسمان سے نزول محلِ نظر ہے
“ظہورِ مہدی اور مسیح علیہ السلام کے آسمان سے نزول کو بھی قیامت کی علامات میں شمار کیا جاتا ہے، ہم نے ان کا ذکر نہیں کیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ظہورِ مہدی کی روایتیں محدثانہ تنقید کے معیار پر پوری نہیں اترتیں، ان میں کچھ ضعیف ہیں اور کچھ موضوع ہیں، اس میں شبہ نہیں کہ بعض روایتوں میں جو سند کے لحاظ سے قابل قبول ہیں ایک فیاض خلیفہ کے آنے کی خبر دی گئی ہے، لیکن وقت نظر سے غور کیا جائے تو صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اس کا مصداق سیدنا عمر بن عبد العزیز تھے جو خیر القرون کے آخری خلیفہ بنے ۔۔۔ نزول مسیح کی روایتوں کو اگرچہ محدثین نے بالعموم قبول کیا ہے، لیکن قرآن مجید کی روشنی میں دیکھیے تو وہ بھی محل نظر ہیں۔” (میزان: 78-177)
س۔ منکرین حق کے خلاف جنگ اور مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے انہیں محکوم بنانا اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے
“یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے انہیں محکوم اور زیرِ دست بنا کر رکھنے کا حق اس کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے، قیامت تک کوئی شخص اب دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے، اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے، مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ ہے، اللہ کی راہ میں قتال اب یہی ہے۔” (میزان: 599)
ع۔ خدا، آخرت پر یقین اور اچھے اعمال کرنے والا کسی بھی مذہب کو ماننے والا ہو وہ جنت کا حقدار ہے
“جنت میں جانے کا معیار قرآن میں بیان ہے، خدا اور آخرت پر یقین، اچھے اعمال کرنا اور جرائم سے دور رہنا، خواہ اب وہ مسلمان ہو، یہودی ہو یا کسی بھی مذاہب کو ماننے والا جنت کا حقدار ہے۔” (سالانہ مجلہ مصعبی: 2008-2009، ص: 15)
ف۔ داڑھی رکھنا دین کا کوئی حکم نہیں ہے
“اسے باعث سعادت سمجھنا چاہیے، لیکن یہ دین کا کوئی حکم نہیں ہے، لہذا اگر کوئی شخص داڑھی نہیں رکھتا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کسی فرض یا واجب کا تارک ہے، یا اس نے کسی حرام کا یا ممنوع فعل کا ارتکاب کیا ہے۔” (مقامات: 39-138)
یہ جناب غامدی صاحب کے مشتے نمونہ از خروارے چند بنیادی نظریات و افکار کی نشاندہی ہے، جو انہوں نے جدید دین کی تعبیر میں ذکر کیے ہیں اور ان کے شاگرد و فیض یافتہ تو اس معاملے میں سے دس قدم آگے ہیں! لہذا اب سوال یہ ہے کہ:
آیا یہ افکار و نظریات قرآن و سنت کی روشنی میں درست ہیں؟
جو ان نظریات کا حامل ہو اس کا کیا حکم ہے؟
مذکورہ بالا نظریات کے حاملین اور غامدی صاحب کے پیرو کاروں سے تعلقات رکھنا کیسا ہے؟
ان لوگوں سے نکاح کرنا، ان کی خوشی غمی میں شریک ہونا درست فعل ہے؟
اس قسم کے نظریات کے حامل شخص کی امامت کا کیا حکم ہے؟ ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟
غامدی صاحب اور ان سے متاثر نام نہاد تحقیق والے اسکالر کے لٹریچر کی نشر و اشاعت کرنا جائز ہے؟
عوام کے لیے ان لوگوں کی تحریر و تقریر کا پڑھنا سننا کیسا ہے؟
غامدی فتنہ کی تردید کے لیے علماء کرام پر کیا ذمے داری عائد ہوتی ہے؟
مذکورہ بالا باتوں یا دیگر ان کے فاسد عقائد و باطل نظریات سے متعلق اگر مواد کی تفصیل مطلوب ہو تو درج ذیل ویب سائٹس کو دیکھا جا سکتا ہے
www.javedahmadghamidi.com
www.ghamidi.net
www.al-mawrid.org/pages/download_books.php
www.al-mawrid.org
جواب
:بسم اللہ حامداًومصلیاً
الف،با۔جاوید احمد غامدی گمراہ ہے اور اس کے افکار گمراہی کا پلندہ ہیں۔ آپ نے اس کے گمراہ افکار کا بڑا ذخیرہ کر لیا ہے۔ کچھ باتیں تو کفر کے قریب تک پہنچ گئی ہیں مثلاً شق نمبر 16 اگر واقعی غامدی کی اپنی تحریر ہے تو یہ قرآن کی صریح مخالف ہے۔ اسی طرح شق نمبر 17 میں سنت متواترہ کا انکار ہے۔ اگر غامدی نے سنت کا اپنا مطلب نہ بتایا ہوتا تو سنت متواترہ کا انکار کفر ہوتا۔
ج،د۔ جاوید غامدی اور اس کے پیرو کاروں سے تعلقات قائم کرنا، ان سے نکاح کرنا، ان کی خوشی غمی میں شریک ہونا یہ سب باتیں ناجائز ہیں۔
ھ،و۔ جاوید غامدی اور اس کے پیروکاروں کو نماز میں امام بنانا اور ان کا لٹریچر شائع کرنا اور ان کو بیان کے لیے بلانا یا ان کے پاس جانا یہ سب باتیں بھی نا جائز ہیں۔
ز۔ عوام کے لیے ان لوگوں کی تقریر سننا اور تحریر پڑھنا جائز نہیں ہے۔
ح۔ جہاں کہیں غامدیت کے بیج پڑ گئے ہوں وہاں کے اہل حق علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو غامدیت کی گمراہیوں سے باخبر کریں۔ اس کے لیے آپ کی مرتب کردہ فہرست ہی لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور اس کی کاپیاں لوگوں میں تقسیم کریں تو انشاء اللہ فائدہ ہو گا۔
جن اہل حق علماء نے جاوید غامدی کے افکار پر کتابیں لکھی ہیں وہ بھی لوگوں کو پڑھنے کو بتائیں۔
جاوید غامدی کی کچھ باتیں ہماری کتاب تحفہ غامدی میں ہیں۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب کے بیٹے اور جاوید غامدی کے شاگرد رشید مولوی عمار خان ناصر نے جاوید غامدی کے افکار کی تبلیغ کے لیے جو کتابیں لکھیں ان پر ردّ کے لیے ہماری یہ کتاب بھی ہے “عمار خان کا نیا اسلام اور اس کی سرکوبی
فتوی : 1817
دارالافتاء جامعہ دارالتقوی
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
No Results Found
The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.