۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

Published On March 14, 2025
( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو چھوڑ رکھیں بلکہ بات پورے ورلڈ ویو اور نظریے کی ہے کہ غامدی صاحب کی فکر میں مسلمانوں کی اجتماعی سیادت و بالادستی اساسا مفقود ہے (کہ خلافت کا تصور ان کے نزدیک زائد از اسلام تصور ہے)، اسى طرح...

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب

علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب “فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی میں” سے دو صفحات کا عکس دیا گیا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ متکلمین ذات باری کے وجود پر دلائل قائم کرتے ہیں لیکن قرآن اس پر دلیل نہیں دیتا، قرآن کی نظر میں یہ مسئلہ ایسا اہم ہے ہی نہیں کہ اس پر دلائل دئیے جائیں اس لئے کہ قرآن کے مخاطبین بشمول مشرکین مکہ خدا کو مانتے تھے نیز خدا کو ماننا تو فطری ہے۔ یہاں آپ اس کے بدیہی بلکہ ابدہ البدیہیات ہونے کا دعوی فرمارہے ہیں۔ قابل غور بات یہاں یہ ہے کہ جو قرآنی آیت انہوں نے یہاں پیش کی ہے اس کا ان کی شہ سرخی کے دعوے سے کوئی تعلق نہیں۔ خود ان کے اپنے دعوے کے بقول اس آیت سے یہ بات نکلتی ہے کہ مشرکین مکہ خدا کو مانتے تھے۔ خدا کو ماننا ابدہ البدیہیات ہے، اس کے لئے انہوں نے کوئی عقلی و نقلی دلیل پیش نہیں کی۔ اس کے بعد آگے جاکر مولانا اصلاحی صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ توحید کو ماننا فطری ہے، لیکن اس کے بہرحال انہوں نے اپنے تئیں قرآن سے دو دلائل بھی پیش کئے ہیں (نجانے یہ دلائل کیوں پیش کردئیے کیونکہ جو فطری تھا اس پر دلیل کی کیا ضرورت؟)۔ ان دونوں دلائل نیز “مشرکین خدا کو مانتے تھے” کے لئے جو آیات اور ان پر جو تبصرہ انہوں نے پیش کیا ہے اسے پڑھنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ ذات باری کے وجود کے بھی دلائل ہیں جو قرآن نے دئیے ہیں لیکن انہوں نے انہیں اس موضوع سے اپنی “شہ سرخی کے زور پر” خارج کردیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے مضمون “خدا پر ایمان” میں خود جناب غامدی صاحب نے بھی وجود باری پر دلیل قائم کر رکھی ہے جسکی ساخت یہ ہے:
– انسان مخلوق ہے
– مخلوق کے لئے خالق ہوتا ہے
ان کی دلیل کی صحت ایک طرف، اگر اسے متکلمین کی لگی بندھی اصطلاح میں ڈھال دیا جائے تو یہ یوں ہے:
– انسان حادث ہے
– حادث کے لئے محدث ہوتا ہے
اب اس کا کیا کیا جائے کہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے نزدیک تو متکلمین کے برخلاف قرآن اس موضوع پر دلائل ہی قائم نہیں کرتا لیکن غامدی صاحب دلیل قائم کررہے ہیں اور وہ بھی متکلمین کے طرز پر! غامدی صاحب نے اس عزم کا اظہار بھی فرمایا ہے کہ وہ الحاد کے مقدمے پر مفصل تبصرہ کریں گے۔ اگر اس کاوش میں وہ وجود باری پر قرآن سے دلیل لائے تو ان کے استاد محترم کے بقول یہ قرآن پر ایسی بات کہنا ہوگی جو قرآن میں ہے ہی نہیں کیونکہ قرآن نے تو اس موضوع پر دلائل ہی نہیں دئیے، بلکہ یہ مسئلہ ایسا ہے ہی نہیں کہ قرآن اس پر دلیل دے۔ چنانچہ اگر اصلاحی صاحب کی بات درست ہے تو غامدی صاحب کی جانب سے ایسے دلائل پیش کرنا گویا قرآن کو غور سے نہ پڑھنے کا نتیجہ ہوگا۔ پھر “فطری استدلال فطری استدلال” کہنے والوں سے یہ سوال ہے کہ اس صفحے پر مذکور آیت میں جو استدلال ہے، اس کے تام ہونے کے لئے کوئی قضیہ یا مقدمہ مفروض ہونا علمی شرط ہے یا نہیں؟ کیا وہ قضیہ بھی یہاں آیت میں لکھا ہوا ہے یا ایک متکلم کی طرح آپ اسے واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں؟ اور اگر آپ کی جانب سے اس وضاحت کے بعد بھی وہ قرآن کا فطری بیان ہی رہا تو متکلمین کی کاوش کے بعد وہ قرآن سے باہر اور غیر فطری کیسے ہوجاتا ہے؟
الغرض یہ ہے وہ خطابی گفتگو جو “قرآن کے فطری انداز” کے نام پر علم کلام کو لتاڑنے کے لئے کی جاتی ہے۔ قرآن کے بارے میں چونکہ مسلمانوں میں عقیدت پائی جاتی ہے تو علم کلام کے ناقدین اس عقیدت کو علم کلام کو لتاڑنے کے لئے خوب کیش کرتے ہیں۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…