غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 78)

Published On April 14, 2024
کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ سوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حدیث و سنت کا مفہوم : اہل اسلام اور غامدی صاحب  غامدی صاحب کے اندراس شوخ چشمانہ جسارت کاحوصلہ کیوں پیدا ہوا ؟ اس لیے کہ وہ آپ کے طریقے اور عمل کو ’سنت ‘ سمجھنے کے لیے تیار نہیں؛ چناں چہ ان کے ٹیپ کا بند ملا حظہ فرمائیں ’’لہٰذا سنت صرف یہی...

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

حنفی ائمہ اصول کے ہاں بیان کے مفہوم پر غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

ڈاکٹر زاہد مغل مشرف بیگ اشرف جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور تبیین پر نقد کا سلسلہ جاری ہے جس میں یہ واضح کیا گیا کہ ان کے تصور تبیین کی نہ صرف یہ کہ لغت میں کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ یہ اس لفظ کے قرآنی محاورے و استعمالات کے بھی خلاف ہے۔ تاہم غامدی صاحب یہ تاثر بھی...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

ڈاکٹر زاہد مغل  توحید کا چوتھا درجہ: توحید وجودی اب توحید کے چوتھے درجے کی بات کرتے ہیں جس پر سب سے زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے اور جسے غامدی صاحب نے کفار و مشرکین جیسا عقیدہ قرار دے کر عظیم ضلالت قرار دیا ہے۔ علم کلام کے مباحث میں اس درجہ توحید کی گفتگو کو "توحید...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ دوم

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صحابہ کرام کا عمل اور رویہ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم اور احادیث رسول میں کوئی فرق نہیں کیا اور دونوں کو نہ صرف یکساں واجب الاطاعت جانا بلکہ احادیث کو قرآن ہی کا حصہ گردانا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن...

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟   قسطِ سوم

کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسطِ اول

مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ماہنامہ الشریعہ میں مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ کے کتابچے ’’غامدی صاحب کا تصور حدیث وسنت‘‘ کا اور ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت بنام ’’الشریعہ کا طرز فکر اور پالیسی: اعتراضات واشکالات کا جائزہ‘‘ کا اشتہار دیکھا تو راقم نے نہایت ذوق وشوق کے...

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط اول

ڈاکٹر زاہد مغل تعارف جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب "برہان" میں تصوف کے موضوع کو تختہ مشق بناتے ہوئے اکابر صوفیاء کرام بشمول امام غزالی پر ضلالت اور کفریہ و شرکیہ  نظریات فروغ دینے کے فتوے جاری فرمائے ہیں۔ نیز ان کے مطابق حضرات صوفیاء کرام نے خدا کے دین کے...

مولانا واصل واسطی

اس بات کی معمولی تفصیل ہم یہاں کرتے ہیں تاکہ مولانا مودودی سے عقیدت رکھنے والے لوگ ہماری اس بات سے دکھی نہ ہوں ۔  یہ تو معلوم ہے کہ سیدنا یونس علیہ السلام رسولوں میں سے تھے ۔ اللہ تعالی نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ “وان یونس لمن المرسلین اذابق الی الفلک المشحون ” ( الصافات 139 ۔140) اور بے شک یونس رسولوں میں سے تھا ۔ (اور واقعہ یاد کرو) جب وہ بھری ہوئی کشتی کی جانب بھاگ پڑا” مولانا مودودی نے سورہِ یونس کی آیت” فلولا کانت قریة آمنت فنفعہا ایمانہا الا قوم یونس لماامنوا کشفنا عنہم عذاب الخزی فی الحیوةالدنیا ومتعنہم الی حین ( یونس 98) یعنی  کیوں کوئی ایسا گاؤں نہ ہوا کہ وہ بھی ایمان لے آتا اوران کا ایمان انہیں نفع پہنچادیتا ۔ سوائے قومِ یونس کے   کہ وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے رسوائی کے عذاب کو دنیاکی زندگی میں بچالیا  اور ایک عرصے تک ہم نے انہیں مہلتِ زندگی سے نوازا ” کی تفسیر میں ” اتمامِ حجت ” پر جو کچہ لکھا ہے   اس سے ہماری اوپر والی بات کی حرف بحرف تایئد ہوجاتی ہے  ۔ وہ لکھتے ہیں کہ “قران مجید میں خدائی دستور کے جو اصول وکلیات بیان کیے گئے ہیں   ان میں ایک مستقل دفعہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کسی قوم کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک اس پر اپنی حجت پوری نہیں کرلیتا ۔ پس جب (یونس) نبی علیہ السلام نے اس قوم کی مہلت کے اخری لمحے تک نصیحت کا سلسلہ جاری نہ رکھا ۔ اور اللہ کے مقرر کردہ وقت سے پہلے بطورِ خود ہی وہ ہجرت کرگیا ۔ تو اللہ تعالی کے انصاف نے اس کی قوم کو عذاب دینا گوارا نہیں کیا  کیونکہ اس پر اتمامِ حجت کی قانونی شرائط پوری نہیں ہوئی تھی ( تفہیم القران ج2ص 313) احباب جانتے ہیں کہ ادھر ہمارا مقصود صرف یہ ہے کہ جو بات ہم نے گذشہ مبحث میں لکھی ہے وہ بلکل درست ہے کہ محض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی کسی شخص یاقوم تک رسائی کو اتمامِ حجت نہیں کہاجاسکتا ۔ مولانا مودودی بھی اس  دوسرے مقام میں وہی بات کرتے ہیں جوہم نے پہلے مقام میں کی تھی ۔ البتہ سورتِ یونس کے اس مقام کی مولانا مرحوم نے جو منفرد تفسیر کی ہے   اس سے ہمیں شدید اختلاف ہے ۔ مگر یہ مقام اس طویل مبحث کا متحمل نہیں ہے ۔ لہذا ہم واپس اپنے پہلے والے مبحث کی طرف پلٹتے ہیں ۔ جناب غامدی کے مکتب میں اصول اور ان کے انطباق کے قوانین بہت ہی نرالے ہوتے ہیں ۔ اب ہم ایک ایک کرکے ان کے ان اصولوں کاجائزہ لیتے ہیں جو اس موضوع میں انہوں نے مختلف جگہ ذکر کیے ہیں ۔ (1) ایک اصول ان لوگوں کا یہ ہے کہ جب کسی قوم پر اللہ تعالی کے حکم واجازت سے کسی رسول کے ذریعے اتمام حجت ہوجاتا ہے تواس سے پھر دومسئلے برآمد ہو جاتے ہیں ۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس قوم کے لوگ پھر اللہ کے ہاں بھی کافرومنکر قرار پاتے ہیں ۔ اور عام مسلمان لوگوں کے ہاں بھی کافر و منکر ہوجاتے ہیں ۔ دوسرامسئلہ یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ ان لوگوں کو پھر زندہ رہنے کی مہلت  کبھی نہیں ملتی ہے ۔  یہ بات اس مکتب کے اصول کو جاننے والے لوگوں کے مطابق  اطفالِ مکتب تک بھی جانتے ہیں ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس میں پھر دوکمیوں میں سے کوئی کمی ضروربالضرور ہوگی ۔ یاتو یہ کمی ہوگی کہ اتمامِ حجت  ان لوگوں پر نہیں ہوا ہوگا ۔ یا تو کسی نبی علیہ الصلاة والسلام نے اپنے گمان سے اسے تام اور مکمل سمجھ لیا ہوگا جیساکہ سیدنا یونس علیہ السلام نے سمجھ لیاتھا ۔اور یا پھر لوگوں نے اس کو مکمل اورتام حجت سمجھ لیاہوگا ۔ دوسری کمی یہ ہوگی کہ اللہ تعالی کے علم میں فرق آیا ہوگا ۔یہ بات وہ لوگ کہہ سکتے ہیں جو اللہ تعالی کے بارے میں” بداء “کے قائل ہوں ۔ میرا نہیں خیال کہ اس مکتب کے لوگ اس بات کے قائل ہونگے ؟ اگران دونوں میں سے کوئی وجہ نہ ہو   تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ کسی قوم پر حجت اللہ تعالی کے حکم اور اذن سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ تمام اور مکمل ہے ۔ان میں سے اب کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا۔اس کے بعد ان میں سے کوئی شخص مسلمان ہوجائے ؟ کیونکہ اس سے اللہ تعالی کے علم پر حرف آتا ہے ۔ بعض ناقص الفکر لوگ اگر اس حقیقت کو نہیں سمجھتے تو یہ ان کا اپنا ذاتی مسئلہ ہے ۔ اب دیکھئے جناب غامدی اپنی تفسیر میں اس بات کا کھل کراظہار کرتے ہیں کہ اتمامِ حجت کا فیصلہ اللہ تعالی کے سوا کوئی دوسرا شخص اپنے اجتہاد سے نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا غلطی میں پڑنے کا امکان موجود ہے  ۔وہ سورہِ صافات کی آیت” وان یونس لمن المرسلین ۔ اذابق الی الفلک المشحون ” ( الصافات  139۔ 140) میں لکھتے ہیں کہ ” اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جب حضرتِ یونس اپنی دعوت کی ناقدری دیکھ کر غیرت حق کے جوش میں نکل کھڑے ہوئے جبکہ رسول کی حیثیت  سے وہ اذنِ  الہی کے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ کرنہیں جا سکتے تھے ۔ آیت میں لفظِ ۔ابق ۔ اسی رعایت سے استعمال ہوا ہے ۔ گویا غلام اپنے آقا کے ہاں سے بھا گ نکلا ۔ اس پر مواخذے کا یہ قصہ قریش کی تنبیہ وتہدید کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی توجہ کے لیے بھی سنایا گیا ہے کہ ہجرت کافیصلہ ان کے معاملے میں بھی اللہ تعالی ہی کرے گا ۔ اپنی رائے واجتہاد سے وہ یہ فیصلہ نہیں کرسکتے ۔ اور مشکلات سے گھبراکر اگر کہیں کربیٹھے تو خدا کا قانون بے لاگ ہے۔ وہ بھی اسی طرح محاسبے کی زد میں آجائیں گے ( البیان ج4 ص 285) یہ  عبارت اگرچہ اشارات میں لکھی گئی ہے مگر ہماری ذکرکردہ بات اس کے آخر میں الحمد للہ موجود ہے ۔ اس کے بعد جناب اپنے استاد امام سے نقل کرتے ہیں کہ ” نبی اللہ تعالی کی طرف سے حق وباطل کے کشمکش کے ایک محاذ پر مامور ہوتا ہے  ۔اس وجہ سے اس کےلیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ خدا کی حکم کے بغیر اس محاذ سے ہٹے ۔ اگرچہ اس کا محرک کوئی نیک جذبہ ہی کیوں نہ ہو ۔اللہ تعالی نے جوآزمائشیں اپنے رسول کےلیے لکھی ہیں ان کو اس سے بہرحال گذرنا ہے ۔ اگر وہ آزمائش سے گھبرائے گا تو ہو سکتا ہے  کہ وہ ایک آزامائش سے بچنے کی کوشش میں کسی دوسری اس سے بڑی آزمائش میں گرفتار ہو جائے  ۔اسی طرح قوم کوجو مہلت اتمامِ حجت کے ملنی چاہئے وہ بھی سنتِ الہی کے مطابق ضروری ہے ۔ اور یہ خدا ہی بہترجانتا ہے کہ قوم پرکب اللہ کی حجت پوری ہوئی ۔ حضرتِ یونس علیہ السلام نے اپنے گمان کے مطابق یہ فیصلہ کرلیا   کہ اہلِ نینوا ایمان لانے والے نہیں ہیں حالانکہ واقعات نے ثابت کردیا کہ پوری قوم میں ایمان لانے کی صلاحیت موجود تھی ( البیان ج4ص 285) ان عبارتوں سے چند باتیں ثابت ہوگئیں ہیں (1) ایک بات یہ ہے کہ کسی قوم کے متعلق اتمامِ حجت کافیصلہ کسی کے اجتہاد ورائے سے نہیں ہوسکتا ہے (2) دوسری بات یہ ہے کہ قوم شعیب کو معافی سیدنا شعیب علیہ السلام کےاس اجتہادی فیصلے میں غلطی  کی وجہ سے مل گئی تھی ۔(3) اور تیسری بات یہ ثابت ہوگئی ہے کہ اتمام حجت کے بعد مسلمان ہونے کا کوئی امکان نہیں رہتا ۔ اب ہم ان حضرات سے سوال کرتے ہیں کہ آپ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ہجرت سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم قریش پر حجت کو تمام کردیا تھا ؟ کیا آپ لوگوں کی یہ بات قران مجید کی آیات میں منصوص ہے یا پھر تم لوگوں نے اسے اپنے اجتہاد سے اسے ایجاد کرلیا ہے ؟ اگر یہ بات قرانی آیات میں منصوص ہے تو پھر مکہ والوں اورقریش  کے حوالے سے تمہارے اس نعرہ کی کیا حیثیت  رہ جاتی ہے کہ ان کے متعلق مسلمانوں کو شرع کا یہ حکم تھا کہ تم یا تو مسلمان بنو   اور یاپھر قتل کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ حالانکہ جب اللہ تعالی نے اسے تاابد کفار مان لیا ہے پھر وہ لوگ کس طرح مسلمان ہوسکتے ہیں ؟ اور پھر ان کو مسلمان بنانے کی آخر کیا تک ہے ؟ اوراگر تم لوگوں نے اس باب میں اجتہاد کیا ہے   تو آپ پھر آپ کا یہ فضول اجتہاد ہم پرکیوں لازم ہو؟ جبکہ وہ بہت سارے نصوص کے بھی خلاف ہے؟ جن کو اگے بیان بھی کریں گے ان شاءاللہ ۔ بلکہ آپ کو چاہئے کہ اس بات کی صحت کے دلائل فراہم کریں ۔ خلاصہ کلام کا یہ ہوا کہ یہ لوگ اگر ان دونوں باتوں میں سے ایک بات کو اختیار کرلیں تو اس کے ماننے پرسوچا جا سکتا ہے ۔ یا اتمامِ حجت کی بات کرلیں   اور یا پھر الا الاسلام اوالسیف کی بات کریں ۔ دونوں کا بیک وقت ماننا کسی عاقل آدمی کی بس میں نہیں ہے  الا یہ کہ وہ شخص جناب غامدی کے مکتب میں ہوں کیونکہ ان کے ہاں متضا دات کو جمع کرنا کوئی عیب بہرحال نہیں ہے ۔ جناب غامدی نے ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ ” ( کہ عذاب کی ) دوسری صورت میں ظاہر ہے کہ قوم کو کچھ  مہلت مل جاتی ہے “( میزان ص 541) اس تحقیق کے متعلق سوال یہ  ہےکہ سورہِ یونس کی آیت (47) میں تو ۔” فاذاء جاء رسولہم قضی بینہم بالقسط ۔” کے الفاظ آئے ہیں ۔ آپ لوگوں نے کس آیت کی بناپر اس آیت میں ” تخصیص وتحدید “گوارا کرلی ہے ؟ یہ معمولی مہلت   تو نہیں ہے ۔جنگِ بدر سے شروع ہو جاتی ہے اور فتح مکہ کے بعد تک جاری رہتی ہے۔ یعنی آٹھ دس سال کا فاصلہ ہے۔ یہی سوال تب بھی لازم آتا ہے جب آپ اس میں تبلیغ ۔انکار ۔ اوراتمامِ حجت کے تقدیرات نکالیں گے ۔ ہمیں اس آیت میں اس ” تخصیص  وتحدید “کے لیے قران ہی کی دلیل درکار ہوگی کیونکہ آپ لوگ باقی اشیاء سے تخصیص وتحدیدِ قران کے قائل نہیں ہیں ۔ مگر اس بات کا آپ کی  کتاب میں کوئی تذکرہ موجود ہی نہیں ہے؟ 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…