غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 13)

Published On January 24, 2024
احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق کی بات کررہے ہیں جو ایک مسلمان صرف دین "اسلام" کےلیے مان سکتا ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام واحد حق نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ دوسرے بھی تو اپنے لیے یہی سمجھتے ہیں، محض بے عقلی ہے۔...

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کیا قرآن کے کسی بھی حکم کو سنت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے ؟ کیا جن آیات کو "آیات الاحکام" کہا جاتا ہے ان سے "احادیث الاحکام" کے بغیر شرعی احکام کا صحیح استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ ایک reverse engineering کی کوشش جناب عمر احمد عثمانی نے کی تھی "فقہ...

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب اتنی قطعیت کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ سامنے والے نے اگر کچھ پڑھا نہ ہو (اور بالعموم ان کے سامنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں)، تو وہ فورا ہی یقین کرلیتے ہیں، بلکہ ایمان لے آتے ہیں، کہ ایسا ہی ہے۔ اب مثلا ایک صاحب نے ان کی یہ بات پورے یقین کے...

مولانا واصل واسطی

ہم نے گذشتہ پوسٹ میں قران کے قطعی الدلالة ہونے کی طرف اشارہ کیا تھا ، کہ قران کی تمام آیات اپنے مفہوم میں قطعی الدلالة نہیں ہیں ، بعض الفاظ ، اسالیب اور تراکیب ظنی الدلالة بھی ہوتے ہیں ، لیکن جناب غامدی قران کی تمام آیات اور تمام کلمات کو قطعی الدلالة قرار دیتے ہیں ، اس دعوی کو بھی وہ اپنے دیگر دعاوی کی طرح مدلل و مبرہن نہیں کرتے ، بلکہ اس بات پر اکتفاء کرتے ہیں ، کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا ، اب اس طرح کے دعاوی بغیر برہان کے اس کے مقلدین مان لیں تو مان لیں ، عام آزاد روش رکھنے والے معقول لوگ ایسی باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔پہلے جناب غامدی کی عبارت دیکھتے ہیں ، وہ ،، الفاظ کی دلالت ،، کے زیرِعنوان لکھتے ہیں کہ ،، دنیا کی ہرزندہ زبان کے الفاظ واسالیب جن مفاہیم پر دلالت کرتے ہیں ، وہ سب متواترات پرمبنی ہوتے ہیں ، اور ہرلحاظ سے قطعی ہوتے ہیں ، لغت ونحو اور اس طرح کے دوسرے علوم اسی تواتر کو بیان کرتے ہیں ،، ( میزان ص 32) اور آگے جاکر لکھتے ہیں ،، لفظ اور معنی کا سفر کبھی الگ الگ نہیں ہوتا ، وہ جب تک مستعمل رہتا ہے اپنے معنی کے ساتھ مستعمل رہتا ہے ، ہم کسی لفظ کے مفہوم سے ناواقف ہوسکتے ہیں ، اور اس کی تعیین میں غلطی بھی کرسکتے ہیں ، لیکن وہ اپنے مفہوم کی قطعیت کے بغیر ہی مستعمل ہے ، یا کسی دور میں مستعمل رہا ہے اس کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا ( میزان ص 33) ہم عرض کرتے ہیں ، کہ جناب غامدی کی یہ بات کہ ،، لفظ ، الفاظ ، اسالیب اور جملے وغیرہ سب اپنے معنی اور مفہوم پر قطعی دلالت کرتے ہیں ،، عمومی حیثیت میں بالکل درست نہیں ہے بلکہ انھوں نے تو آگے جاکر عجیب بات کہی ہے کہ ،، ان کے بارے میں ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال اگر پیداہوجائے کہ ان کے الفاظ کی دلالت اپنے مفہوم پرقطعی نہیں ہے توان میں سے ہرچیز بالکل بے معنی ہوکر رہ جائے ، چنانچہ یہ نقطہِ نظر نری سوفسطائیت ہے ،،( ایضا ص 33) ہمارے ہاں علمی طورپر دونقطہِ نظر پائے جاتے ہیں ، ایک یہ ہے ،، کہ الفاظ سرے سے مفیدِیقین نہیں ہیں۔ یہ بقولِ محققین اشاعرہ کا نقطہِ نظر وخیال ہے ،، دوسرا نقطہِ نظر بعض صوفیاء اور جناب غامدی وغیرہ کاہے کہ تمام الفاظ ، جملے ، اسالیب اپنے مفھوم پر قطعی دلالت کرتے ہیں ، ہمارے نزدیک یہ دونوں نقطہِ نظرافراط وتفریط پر مبنی ہیں ۔پہلے موقف سے قران وسنت کے سارے نصوص بے معنی ہوجاتے ہیں ، جبکہ دوسرے موقف سے ، ظاہر ، خفی ، مشترک، ماول ، وغیرہ کی نفی ہوجاتی ہے ، اس پر ہم الگ سے بحث کرناچاہے ہیں ۔سرِدست اشارات پر کفایت کرتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ بعض ایسے الفاظ ، جملے اور تراکیب بھی ہوتے ہیں کہ جن کا قطعی طور پرایک مفہوم قرار دینا کارِمشکل ہوتا ہے ۔ اس کی ایک مثال دیکھ لیتے ہیں :قران مجید میں اللہ تعالی نے تعالی نے فرمایا ہے کہ ،، واذ قلنا للملئکة اسجدوا لادم فسجدوا الا ابلیس ابی واستکبر وکان من الکافرین ( البقرہ 34) یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو ، تو انھوں نے سجدہ کیا ، مگر ابلیس نے ، اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور کافروں میں سے بن گیا ،، اس آیت کی تفسیر جناب غامدی کے ،، استاد امام ،، جناب اصلاحی فرماتے ہیں کہ ،، سجدہ کا لفظ عربی زبان میں جھکنے کے معنی میں آتاہے ، جھکنے کے مختلف مدارج ہو سکتے ہیں (1) کسی کے آگے سر نہیوڑا دینا بھی جھکناہے (2) اورپیشانی اورناک زمین پررکھ دینا بھی جھکنا ہے ، پچھلے مذاہب میں تعظیم کی یہ قسم غیراللہ کے لیے جائز تھی لیکن عموما اس کی حد وہی تھی جو ہمارے ہاں رکوع کی ہے ، بنی اسرائیل میں اس طرح کی تعظیمی سجدے کا عام رواج تھا اور تورات کے مختلف مقامات سے اس کی جو شکل متعین ہوتی ہے وہ رکوع سے ملتی جلتی ہوئی ہے ۔اسلام نے تعظیم کی اس شکل کو خدائے رب العزت کے لیے خاص کردیاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام خدا کا آخری اور کامل دین ہے ۔اس نے توحید کی حقیقت کو مکمل طور پر اجاگر کردینے کےلیے خداکےلیے تعظیم وتذلل کی شکلیں بھی خاص کردی ہیں ، تاکہ اس کے اندر شرک کے داخل ہونے کے لیے کوئی رخنہ باقی نہ رہ جائے ( تدبرِقران ج 1ص 163) اصلاحی صاحب کی اس عبارت سے دوتین باتیں صاف صاف معلوم ہوگئی ہیں (1) پہلی بات یہ ہے کہ سجدہ کا مطلب جھکنا ہے ، لیکن اس کے پھر مختلف مراتب ومدارج ہیں ، سرکو جھکادینا یا ناک زمین پر رکھ دینا ، اس سے معلوم ہوا کہ سجدہ کا لفظ صرف ایک معنی ومفہوم پرقطعی دلالت نہیں کررہا ، ممکن ہے اس لفظِ ،، اسجدوا ،، سے یہاں سجدہِ تعظمی مراد ہو ، اور ممکن ہے اصل اور حقیقی سجدہ مراد ہو ۔ اصلاحی صاحب کی اس تحقیق سے جناب غامدی کے تصور کی واضح تردید ہوگئی ہے الحمدللہ ، باقی اصلاحی صاحب کا یہ کہنا کہ ،، تورات سے اس کا مفہوم رکوع کے قریب نکلتا اورمتعین ہوتاہے ، اور یہ پہلی شریعتوں میں جائز تھا ،، تو اس کے متعلق ہم دوباتیں عرض کرتے ہیں پہلی بات یہ ہے کہ تورات تو بہت بعد کی منزل کتاب ہے اس کے اس مقرر شکل کو سیدنا آدم علیہ السلام کے متعلق حکم کا مفہوم متعین نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو بنی اسرائیل سے بہت ہی مقدم ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے والدین اور بھائیوں کے متعلق قران مجید میں وارد ہے ،، ورفع ابویہ علی العرش وخرّوالہ سجدا ( یوسف 100) خرور عربی میں ایسے سقوط کو کہتے جس میں آواز بھی ہو ، جیسے ،، فکانما خرمن السماء ،،
،، فلماخرّتبینت الجن ،، ،،فخرّعلیھم السقف ،، اور سمین حلبی کہتے ہیں ،، الخرور السقوط من علو یکون معہ صوت غالبا ( عمدةالحفاظ ج 2 ص 497) جب یہ بات ثابت ہوگئی تو آیتِ سورتِ یوسف میں اس کا مطلب زمین پرسجدہ میں گرنا ہے ، نہ کہ محض رکوع کرنا ، جیسا کہ اصلاحی صاحب کہتے ہیں ۔تیسری بات اصلاحی صاحب کی درجِ بالا عبارت سے یہ معلوم ہوگئی ہے کہ اسلام نے انسانوں کو سجدہِ تعظیمی کرنےکوحرام قرار دیاہے تاکہ شرک کے لیے کوئی رخنہ بھی باقی نہ رہے ۔ہم جنابِ غامدی اور اس کے اہلِ مکتب سے سوال کرتے ہیں کہ سجدہِ تعظیمی کو اسلام میں اللہ تعالی نے قران مجید میں حرام قرار دیا ہے یا کہ پھر آحادیث میں ؟ اگر قران میں اس کی حرمت موجود ہے تو ذرا وہ آیت پیش کردیں تاکہ ہم فقیر لوگ بھی اس استفادہ کرلیں ۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ آیت قطعی الدلالة ہو ، کثیر المعانی کا محتمل نہ ہو ، کیونکہ آپ کے نزدیک قران کی ہرآیت اپنے مفہوم پرقطعی دلالت کرتی ہے ، اور اگرآحادیث میں اس کی نفی موجود ہے تو یہ آپ کے مذہب میں جائز نہیں ہے کیونکہ ،، قران کے متن کی تحدید وتخصیص نہ تو کسی وحی جلی وخفی سے جائز ہے اور نہ قولِ نبی علیہ السلام والصلاة سے ،، اب آپ لوگ دوصورتوں میں سے ایک صورت کو اختیار کرسکتے ہیں ۔ یا تو سجدہِ تعظمی کو کچھ گمراہ صوفیوں کی طرح جائز رکھیں ، اوریا پھر یہ بات مان لیں کہ قران مجید کے تحدید وتخصیص احادیثِ مبارکہ سے بھی ہوسکتی ہے ۔ اور قران مجید سے اس کی نفی کو ثابت کرناخرط القتاد کےمانند ہے ۔ باقی رہی جناب اصلاحی صاحب کی یہ بات کہ ،، تاکہ اس کے اندر شرک کے داخل ہونے کا کوئی رخنہ باقی نہ رہ جائے ،، تو اس کا مفہومِ مخالف یہی ہوا نا ں کہ پرانے مذاہب میں اللہ تعالی نے شرک کے رخنوں کو باقی رکھا تھا ، اور یہ تو سراسرافتراہے ، لیکن ممکن ہے غفلت کی وجہ سے ان سے یہ ہواہو ، انا للہ واناالیہ راجعون ، اس کے بعد جنابِ اصلاحی لکھتے ہیں کہ ،، فرشتوں کو آدم کے لیے سجدہ کرنے کاحکم دینے میں شرک کا کوئی پہلو نہیں ہے اس لیے کہ اولا تو سجدہ خداکے کی حکم کی تعمیل میں تھا اس لیے گویا خداکو سجدہ تھا ، ثانیا سجدہ شرک کی علامت جیساکہ عرض کیاگیا ، اسلام میں قرار دیا گیا ہے ( تدبرِ قران ج1ص ص163) ہم یہاں پھر اس مکتب والوں سے سوال کرینگے کہ ،، سجدہ ،، کہاں قران مجید میں شرک کی علامت قرار دیاگیاہے؟ ذراتعین کرکے فرمادیں ؟ اور اگر اس کو آحادیث میں شرک کی علامت قرار دیاہے تو پھر آپ کے مذہب میں اس کو جائز قرار دینا چاھئےکیونکہ نہ تو ،، آحادیث ،، سے قران کی تحدید وتخصیص ہوسکتی ہے اور نہ قران وسنتِ ابراہیمی سے زائدکوئی چیز دین میں سے ھوسکتی ہےلہذا کیسے ان کے ذریعے سے قران مجید کی تخصیص کرلیں گے ؟

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…