فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، میزان اور فرقان (قسط سوم)

Published On July 30, 2024
قرار دادِ مقاصد اور حسن الیاس

قرار دادِ مقاصد اور حسن الیاس

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے داماد فرماتے ہیں:۔خود کو احمدی کہلوانے والوں کے ماوراے عدالت قتل کا سبب 1984ء کا امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس ہے؛ جس کا سبب 1974ء کی آئینی ترمیم ہے جس نے خود کو احمدی کہلوانے والوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا؛ جس سبب قراردادِ مقاصد ہے جس...

کیا علمِ کلام ناگزیر نہیں ؟ غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

کیا علمِ کلام ناگزیر نہیں ؟ غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

ڈاکٹر زاہد مغل غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ علم کلام ناگزیر علم نہیں اس لئے کہ قرآن تک پہنچنے کے جس استدلال کی متکلمین بات کرتے ہیں وہ قرآن سے ماخوذ نہیں نیز قرآن نے اس بارے میں خود ہی طریقہ بتا دیا ہے۔ مزید یہ کہ علم کلام کا حاصل دلیل حدوث ہے جس کا پہلا مقدمہ (عالم حادث...

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (2)

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (2)

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد ڈاکٹر اسرار احمد پر طنز اور استہزا کا اسلوب اب اس باب سے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں جو غامدی صاحب نے ’احساسِ ذمہ داری‘ کے ساتھ ڈاکٹر اسرار صاحب پر تنقید میں لکھا۔ یہاں بھی انھیں بقول ان کے شاگردوں کے، کم از کم یہ تو خیال رکھنا چاہیے تھا کہ ڈاکٹر...

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (1)

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (1)

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے داماد نے یکسر جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نہایت بے دردی کے ساتھ، اور ہاتھ نچا نچا کر جس طرح فلسطین کے مسئلے پر ہفوات پیش کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کی، اس پر گرفت کریں، تو غامدی صاحب کے مریدانِ باصفا اخلاقیات کی دُہائی...

فلسطین ، غامدی صاحب اورانکے شاگردِ رشید

فلسطین ، غامدی صاحب اورانکے شاگردِ رشید

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!۔ فلسطین کے مسئلے پر غامدی صاحب اور ان کے داماد جناب حسن الیاس نے جس طرح کا مؤقف اختیار کیا ہے، اس نے بہت سے لوگوں کو حیرت کے ساتھ دکھ میں مبتلا کیا ہے، غزہ میں ہونے والی بدترین نسل کشی پر پوری دنیا مذمت...

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)

حسان بن علی جیسا کہ عرض کیا کہ غامدی صاحب احکام میں حدیث کی استقلالی حجیت کے قائل نہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں "یہ چیز حدیث کے دائرے میں ہی نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے" (ميزان) جیسے سود دینے والے کی مذمت میں اگرچہ حدیث صراحتا بیان ہوئی ليكن غامدی...

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر

تلخیص : وقار احمد

س ویڈیو میں جاوید احمد غامدی صاحب کی کتاب “میزان” کے باب مبادی تدبر قرآن میں قرآن فہمی کے لیے بیان کردہ دس اصولوں میں بنیادی ترین اصول “میزان اور فرقان ” کو ڈسکس کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر زبیر صاحب فرماتے ہیں کہ یہ محض دو لفظ نہیں بلکہ غامدی صاحب کی پوری فلاسفی ہے جو ان الفاظ کے اندر چھپی ہوئی ہے کیونکہ اصول سے انہوں نے بہت سارے نتائج نکالے ہیں۔ اسی اصول کی بنیاد پر ” سبعہ احرف ” والی روایات کا بھی انکار کیا ہے۔ غامدی صاحب نے اپنی بات کو موکد کرنے کے لیے سورۃ شوری کی آیت 17 کے الفاظ ” اللہ الذی انزل الکتاب بالحق والمیزان ” سے استدلال فرمایا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو میزان کہا ہے، اس آیت میں انہوں نے ” و ” کو تفسیریہ مانا ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کس دلیل کی بنیاد پر انہوں نے “و ” کو اس کے حقیقی معنی سے ہٹا کر مجازی معنی مراد لیے ہیں ، کیونکہ “و ” کے اصلاً تو عطف کے لیے آتا یے جس سے مغایرت ثابت ہوتی ہے ، اور ماہرین لغت نے بھی ” و ” تفسریہ مراد لینے کے لیے نو شرائط بیان کیں ہیں، اگر کوئی دلیل یا قرینہ نا تو ” و ” کے حقیقی معنی ہی مراد لیے جائیں گے، اس لیے یہاں اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ الکتاب اور چیز یے اور میزان کوئی اور چیز ، اس کے علاوہ سیاق کلام بھی اسی معنی کی تائید کرتا ہے، پیچھے مضمون چونکہ آخرت کا چل رہا ہے تو یہاں بھی وہی ترازو مراد ہوگا جو اللہ تعالیٰ بروز حشر اعمال تولنے کے لیے نصب فرمائیں گے۔ ایک اور چیز دیکھیے کہ غامدی صاحب کے مطابق عربی معلی کا مصدر تو قرآن مجید ہے تو قرآن مجید میں یہ لفظ ترازو کے معنی ہی میں استعمال ہوا یے۔ غامدی صاحب ایک اجنبی معنی مراد لے رہے ہیں جس کی کوئی دلیل بھی ان کے پاس نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم قرآن کو میزان کہہ سکتے ہیں ، تو اسکا سادہ سا جواب یہ ہے کہ کہہ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے خواہ مخواہ کسی آیت سے استدلال کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دوسرا یہ سب سے بڑی میران تو سنت ہے کیونکہ زیادہ احکام تو سنت میں بیان ہوئے ناکہ قرآن میں، غامدی صاحب سنت کو تو میزان نہیں مانتے۔
غامدی صاحب قرآن کو فرقان بھی مانتے ہیں ، فرقان کہتے ہیں حق و باطل میں فرق کرنے والے کو ، اب قرآن کو اگر دیکھیں تو اس کے تین بڑے مضمون ہیں ،
ایک : اصلاح عقائد ۔ دوسرا : قانون الہی کا بیان ۔
تیسرا : دوسری قوموں کا تذکرہ ۔
قرآن مجید نے پہلے کو فرقان ،
دوسرے کو نور اور تیسرے کو ذکر سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن نظریات کی اصلاح کے اِعتبار سے فرقان ہے لیکن غامدی صاحب اس سے اور ہی نتائج نکالتے ہیں ، قرآن صاحب فرماتے ہیں کہ ” قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی ، یہاں تک کہ وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے اس کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص ، اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا، یہ ترمیم و تغیر تک تو بات درست ہے اور ہم بھی اسی کے قائل ہیں ،لیکن تحدید و تخصیص تو وہ خود بھی کرتے ییں ، مطلب یہ پیغمبر کا اختیار تو نہیں لیکن غامدی صاحب اور ان کے استاذ کو یہ اختیار حاصل ہے۔

ویڈیو درج ذیل لنک سے ملاحظہ فرمائیں

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…