غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 84)

Published On April 15, 2024
غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہر دور اور ہر قوم میں اپنے انبیا و رسل بھیجے اور ان کی رہنمائی کے لیے وحی کا سلسلہ جاری فرمایا ۔اس وحی کے نزول کے دو طریقے ہیں  اول ۔  بعض اوقات یہ وحی لفظاً ہوتی ہے یعنی اس میں الفاظ بھی اللہ کے...

اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ

اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ

ابو عمار زاہد الراشدی جناب جاوید احمد غامدی کا ایک حالیہ مضمون ان دنوں دینی حلقوں میں زیر بحث ہے جس میں انہوں نے بنیادی طور پر یہ تصور پیش کیا ہے کہ اسلام کا خطاب فرد سے ہے سوسائٹی سے نہیں ہے، اور اسلام کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے اس وقت عالم اسلام میں...

اسلام میں پردے کے احکام اور غامدی صاحب

اسلام میں پردے کے احکام اور غامدی صاحب

ابو عمار زاہد الراشدی ساتویں صدی ہجری کے معروف مفسر قرآن امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاریؒ نے ’’تفسیر قرطبی‘‘ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنے علمی حلقے میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے آ کر مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی...

رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب

رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب

ابو عمار زاہد الراشدی ہم محترم جاوید احمد غامدی صاحب کا یہ ارشاد گزشتہ کالم میں پیش کر چکے ہیں کہ سنت ان کے نزدیک دین ابراہیمیؑ کی کسی ایسی روایت کے تسلسل کا نام ہے جسے جناب نبی اکرمؐ نے بھی مناسب ترمیم و اضافہ کے ساتھ باقی رکھا ہو۔ ان کے اس ارشاد کی کسوٹی پر ہم رجم...

غامدی صاحب اور خبر واحد

غامدی صاحب اور خبر واحد

ابو عمار زاہد الراشدی علماء کے سیاسی کردار، کسی غیر سرکاری فورم کی طرف سے جہاد کے اعلان کی شرعی حیثیت، علماء کرام کے فتویٰ جاری کرنے کے آزادانہ استحقاق، اور زکوٰۃ کے علاوہ کسی اور ٹیکس کی شرعی ممانعت کے حوالہ سے محترم جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے بعض حالیہ ارشادات کے...

غامدی صاحب کا تصور سنت

غامدی صاحب کا تصور سنت

ابو عمار زاہد الراشدی محترم جاوید احمد غامدی اور ان کے مکتب فکر کے ترجمان ماہنامہ ’’اشراق‘‘ لاہور کا اپریل ۲۰۰۸ء کا شمارہ اس وقت میرے سامنے ہے جس میں غامدی صاحب کے رفیق کار جناب محمد رفیع مفتی نے سوال و جواب کے باب میں دو سوالوں کے جواب میں سنت نبوی کے بارے میں غامدی...

مولانا واصل واسطی

تیسری وجہ اس بنیاد کے غلط ہونے کی یہ ہے   کہ جناب غامدی نے قران مجید کی جن آیات کو اس کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیاہے اس کو تسلیم کرنے کے بعد بھی انسان یہ سمجھتاہے   کہ اس کو جو  ہدایت   دی گئی ہے اور جو ” شعور ” عطا کیاگیا ہے وہ محض اجمالی ” معرفت اورشعور  ” ہے ۔تفصیل کا حصول اس سے قطعی ممکن نہیں ہے ۔ جناب غامدی نے سورہِ نحل کی آیت (90) یعنی” ان اللہ یامرکم بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربی الخ” کواس باب میں اصل الاصول قراردیا ہے ۔ ہم نے اجمالی شعور کی بات کی ہے   تو ذرا اس کی ایک دو مثالیں ہو جائیں ۔ اب دیکھیں ان لوگوں کے نزدیک انسان کو یہ تصور حاصل ہے کہ   عدل بہت اچھی چیز ہے اور   ظلم  بہت برا ہے ۔ یہ فقط اجمالی تصور ہے ۔ ان کا تفصیلی تصور انسان کی بس میں نہیں ہے ۔ مگران لوگوں کو اس کا کچھ بھی خیال نہیں رہا ۔ عوام کے باب میں اس کو دیکھ لیں ۔ بیوی اور والدہ کے درمیان   عدل کو سمجھنا اور پھر اسے قائم رکھنا کیا ہرآدمی سمجھتا جانتا ہے؟ رعایا کے ساتھ   عدل   کیا ہر بادشاہ کے شعور میں روشن ہے ؟ سیدنا ابوبکرصدیق اور سیدنا عمرِ فاروق کے دور میں بدریوں کا عطایا میں حصہ دوسروں کے بالمقابل دوچند مقرر تھا ۔ ہمارے زمانے کے بعض مفکرین نے جس کو خلافِ   عدل سمجھ کر اعتراضات کیے ۔ ہمیں فی الحال ان اعتراضات کے صحت اور عدمِ صحت کے متعلق کچھ نہیں کہنا ہے ۔ صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اگر یہ کام درست تھا   تو گویا عصرِحاضر کے بڑے مفکرین بھی عدل کے تفصیلی تصور کا ادراک نہیں رکھتے تھے ۔ اور اگر سید ناعمرفاروق وغیرہ کا یہ قانون درست نہیں تھا ( معاذاللہ ) تو پھر یہ ثابت ہوئی کہ دنیا کے بہترین قانون ساز لوگ بھی عدل کے تفصیلی تصور کا صحیح ادراک نہیں کرپائے تھے ۔ دونوں صورتوں میں ہماری بات ثابت ہوجاتی ہے ۔ پس جب  ان  کایہ حال ہے تو عام لوگوں  کے متعلق کیا خیال ہے ؟ عکرمہ تابعی کا قول ہے کہ سیدنا ابن عباس مجھے زنجیر سے باندھ کر سبق پڑھاتے تھے ۔ میں اس بات کی ترغیب کسی کونہیں دے رہا ۔ صرف ایک  ضرورت سے اس واقعہ کو پیش کر رہا ہوں ۔ اس کو یہ لوگ یقینا ظلم سے تعبیر کریں گے اس کا حاصل یہ ہوا کہ  ظلم کا تفصیلی تصور بھی عام لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ مگر سیدناابن عباس نے اسے عدل   یا  احسان   سمجھ کر اسے انجام دیا ہے ۔ اسی طرح ایک آدمی کسی بچے کو اغوا کرلیتے ہیں   پھر پہلے اس کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے اس کے بعد اسے قتل کرتا ہے ۔ اس کے متعلق عام طور لوگوں کے ذہن میں یہی خیال آتا ہے  کہ اس بدفعل قاتل  کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوناچاہئے جواس نے بچے کے ساتھ کیا ہے ۔ مگر پوری دنیا میں عدل   کا یہ قانون کہیں بھی رائج نہیں ہے ۔ اسی طرح اگر کسی نے شخص بے شمار بچوں اور بچیوں سے یہ سلوک کیا ہو ۔ تو اس کے متعلق عام انسانوں کے کیا تصورات ہیں ۔ بندہ صرف اپنے علاقے اور شہرکےآٹھ دس معقول لوگوں سے پوچھ کر بھی معلوم کر سکتا ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عام لوگ ان چیزوں کے تفصیلی تصور درست طور پر نہیں کرسکتے۔ اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں۔ کیا عام عوام لوگ اس عطاکردہ ” شعور ” سے ان سب کو معلوم کرسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں ۔اسی طرح مثلا  شکرگذاری ہے ۔سب لوگ اس کا اجمالی تصور کہتے ہیں ۔ مگر اس کا تفصیلی تصوران کے لیے بہت مشکل ہے ۔ عوام لوگ صدیوں سے علماء کی تقریریں اورخطبات سننے کے باوجود اب بھی اس   شکرگذاری   کے جامع تصور سے محروم ہیں ۔ اس سے یہ بات خود بخود نکل آئی ہے کہ اسلامی معاشروں میں جو لوگوں کے اندر ان معروفات اور منکرات کا کچھ نہ کچھ علم پایاجاتا ہے تو اس کا سبب وہ ” شعور ” نہیں ہے جو انہیں فطری طور پرعطا کیا گیا ہے بلکہ اس کی وجہ خطبوں ۔ تقریروں ۔ کتابوں ۔ اوربیانات کا ان کے کانوں اور ذہنوں پر مسلسل  توارد ہے ۔ جن سے شاید پوری امت میں کوئی علاقہ محروم رہا ہو ۔ ان میں سے بعض لوگوں کی معلومات کو دیکھ کر یہ مفکرین حضرات انسان کی فطری” شعور ” کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ یہ باتیں ہم نے صرف عملی مسائل کے متعلق لکھ دی ہیں تاکہ دوستوں کو اندازہ ہو کہ عملی دنیا میں بھی معروفات ومنکرات کے متعلق عام لوگوں کا تصورمحض اجمالی ہے ۔ (4) چوتھی وجہ اس بیان کے غلط ہونے  کی یہ ہے کہ معروفات ومنکرات صرف عملیات وافعال میں تو نہیں ہوتے علم وفکر میں بھی ہوتے ہیں ۔ قران مجید کی آیت ” کنتم خیرامةاخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتؤمنون باللہ “( آلِ عمران ۔ 110) یعنی ۔۔ تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے( نفع کےلیے ) نکالے گئے ہو ۔ تم نیکیوں کاحکم کرتے ہو برائیوں سے روکتے ہو ۔ اور اللہ تعالی پر پختہ ایمان رکہتے ہو ” اب جن لوگوں کے ہوش وحواس سلامت ہو ں   وہ اس آیت کو صرف اعمال وافعال تک کیسے محدود رکھ سکتے ہیں ؟ کیونکہ پوری امت کو صرف اعمال وافعال تک محدود رکھنے کا نتیجہ یہی ہوگا کہ عقاید وغیرہ ان کے دائرہ سے نکل جائیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ جناب غامدی نے بھی اس آیت کو علمی اورعملی دونوں قسم کے احکام کےلیے عام رکھاہے ۔ وہ لکھتے ہیں “سورہِ بقرہ میں اللہ تعالی نے بنی اسماعیل کو اسی بنا پر ۔۔ امتِ وسط ۔۔  قراردیا ہے جس کے ایک طرف خدا اوراس کارسول اوردوسری طرف ۔ الناس ۔ یعنی دنیا کے سب اقوام ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ جوشہادت رسول نے تم پردی ہے اب وہی شہادت باقی دنیا پر تمہیں دینا ہوگی ”  وکذالک جعلناکم امةوسطا لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا “(البقرہ ۔ 143) یہی بات آلِ عمران میں اس طرح واضح فرمائی ہے” کنتم خیرامةاخرجت للناس ۔تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتؤمنون باللہ” ( آلّ عمران ۔ 110) تم وہ بہترین امت ہو جولوگوں ( پرحق کی شہادت ) کےلیے برپا کی گئی ہے ۔( اس لیے کہ ) تم (ایک دوسرے کو ) بھلائی کی تلقین کرتے ہوتے ۔ برائی سے روکتے ہو ۔ اوراللہ پرسچا ایمان رکہتے ہو ” (المیزان ص 548)  جب یہ بات متحقق ہوگئی ہے تو اب ہم کہتے ہیں  ایک ہے کسی فعل کواچھااورحسین یا پھربرا اورقبیح سمجھنا الگ مسئلہ ہے ۔ دوسرا ہےاس فعل کو صفتِ کمال اور صفتِ نقص سمجھنا یہ الگ مسئلہ ہے ۔  تیسرا ہےاس فعل اورعمل کو آخرت میں نافع اورضاریا پھر موجبِ ثواب وعذاب سمجھنا بالکل الگ مسئلہ ہے ۔ اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ معروف ومنکر کا پورا “شعور ” انسان کی فطرت کے اندر ودیعت کیا گیاہے ۔ ان سے ہم عرض کریں گے کہ جب عملی مسائل میں بھی اس کا”شعور ” اورتصور اجمال کی  حدتک ہے ۔ تو علمی اورفکری مسائل میں وہ ” شعور” صرف ایک  ڈگری پر ہی قائم ہوگا ۔ افعال کی تین صورتیں جو ہم اوپر بیان کی ہیں ۔ اس میں پہلے نمبر کے متعلق تو ممکن ہے کہ عام لوگ اس کو سمجھ لیں ۔ مگر دوسرے نمبر یعنی ان افعال کو باعثِ کمال ونقصان سمجھنا بڑی عمر میں اوربہت تجربات کے بعد ممکن ہوجاتا ہے ۔ اور تیسرے نمبر کاسمجھنا اس کے لیے قطعا ممکن نہیں ہے ۔ مثلا وہ کس طرح سمجھ سکتا ہے کہ پورا مہینہ بھوکا رہنے سے کیونکر ثواب مل جاتا ہے ؟ سعی بین الصفا والمروہ کا ثواب سے کیا تعلق ہے ؟ کعبہ کے طواف سے کس طرح ثواب حاصل ہوگا ؟ اسی طرح تخریب البلاد سے کیسے جنت مل جائے گا ؟ دن میں پانچ وقت اٹھنے بیٹھنے اورکھڑے رہنے سے کیاہوتاہے؟ ہم سب چیزوں کا استقصاء نہیں کرسکتے ۔ یہی مثالیں کافی ہوں گی   کہ علمی اور فکری مسائل میں” شعور ” صرف ایک ڈگری تک سفر کرسکتا  ہے ۔اس سے اگے کے درجات میں وہ لنگ درازگوش کی طرح ہے   جس کے وجود پر صرف نابینا قسم کے لوگ خوش ہو سکتے ہیں   جو اس کے عیوب  کو نہیں دیکھ پاتے ۔ (5) پانچویں وجہ اس کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ بہت سارے لوگ  بھلائیوں سے دور بھاگتے ہیں اور لوگوں کو بھی اس سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں  ۔ اور برائیوں سے محبت کرتے ہیں لوگوں کوبھی رغبت دلاتے ہیں ۔ اورخود بھی ان میں مشغول اورمبتلا رہتے ہیں ۔ اس کا جواب مولانا مودودی اور ان کے اتباع میں جناب غامدی نے یہ دیا ہے کہ یہ اصل میں جذبات وشہوات سے مغلوبیت کی بناپر ہوتاہے ۔ برائیوں سے ان لوگوں کو کوئی محبت نہیں ہوتی ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کے ساتھ وہی افعال کیے جائے تو وہ چیخ وپکار کرنے لگ جاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ ان افعال سے محبت نہیں کرتے بلکہ مجبورا ان میں مبتلا ہوگئے ہوتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک یہ دونوں باتیں درحقیقت دلائل نہیں ہیں ۔ صرف تنبیہات ہیں ۔ اس کو اگر ہم دلیل مان لیں تو یہ ایسی دلیل ہے جیسے کوئی شخص کتے کو ” باشعور” ثابت کرنا چاہتا ہے تووہ اس کےلیے یہ دلیل فراہم کرے کہ جب آپ کتے کو لکڑی سے ماردیتے ہیں اور پھر لکڑی چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں تو کتا لکڑی کوچھوڑ کرآپ کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتا ” باشعور ” ہے۔ اس لیے کہ وہ ضارب اورآلہِ ضرب میں فرق جانتا ہے ۔ اگر یہ دلیل ہے تو پھر ان حضرات کو چاہئے کہ کتے کو فلسفی مان لیں ۔ پہلی تنبیہ جوان لوگوں نے اوپر کی عبارت میں بیان کی ہے تو اس کے متعلق عرض ہے کہ جذبات میلانات اورشہوات جس طرح انسانی اعمال وافعال کومتاثر کرتے ہیں   اسی انسان اذہان وقلوب کو بھی متاثر کرتے ہیں ۔ بلکہ دماغ وذہن کو وہ پہلے متاثرکرتے ہیں ۔ افعال واعمال بعد میں ان سے کرواتے ہیں ۔ مثلا جب ایک آدمی کوئی گناہ کرتا ہے ( یہاں محضِ گناہ گار کی بات ہے دین زیرِبحث نہیں ہے )۔ تو اس کے اس فعل میں بہت سارے احتمالات ہوتے ہیں ۔ (1)ایک احتمال یہ ہے کہ گناہ جانتا نہیں ہے (2) دوسرااحتمال یہ ہے کہ وہ سرے سے آخرت کا تصورنہیں رکھتا (3) تیسرااحتمال یہ ہے کہ وہ گناہ کی عاقبت کو آگ نہیں سمجھتا ۔(4) چوتھااحتمال یہ ہے کہ وہ گناہ کی عاقبت کو آگ تو سمجھتا ہے مگراسے کفار کے ساتھ مخصوص جانتا ہے (5) پانچواں احتمال یہ ہےکہ وہ آگ کوان کے ساتھ  تو مخصوص نہیں جانتا مگر اپنے کو نازبینِ الہی سمجھتاہے (6) چھٹااحتمال یہ ہے کہ وہ اپنے کو نازبین بھی نہیں سمجھتا مگر اس کاخیال ہے کہ میں آگ کوبرداشت کرسکونگا ۔(7) ساتواں احتمال یہ ہےکہ وہ سمجھتا کہ کوئی میری سفارش کرلے گا (8) اٹھواں احتمال یہ کہ کہتاہے کہ موت سے قبل توبہ کرلوں گا ۔ اس طرح کے بے شماردیگر احتمالات  اس میں موجود ہیں ۔ اب اگر کوئی شخص ان مفکرین کی طرح بلا دلیل ایک وجہ کو ترجیح دیتا ہے تو وہ یاتو التباس کامرتکب ہے یا پھر تلبیس کرنے کا۔ گناہ اور برے افعال کے ارتکاب میں صرف جذبات ۔ میلانات اور خواہشات وغیرہ کو متعین سبب کے طور پر پیش کرنا ہمارے نزدیک ان دونوں چیزوں میں سےایک ہے ۔ بعض گناہوں کے اسباب یقینا یہ بھی ہو سکتے ہیں ۔ مگر سب کےلیے ان اسباب کا تعین محتاج دلائل ہیں ۔ رہی دوسری بات تو وہ اس بات سے بھی زیادہ بودی اورناقص ہے کیونکہ تشدد اور سختی سے توانسان نیکیوں پربھی پرپشیمان ہو جاتا ہے ۔ تو کیا پھر اس کا مطلب ان مفکرین کے نزدیک یہ ہوگا کہ اصل چیز برائی ہے ؟ بات دراصل وہی ہے جو ہم نے ابتدا میں لکھی ہے کہ انسانی” شعور” میں نیکی وبدی کاتصوراگر چہ وہ عمل سے متعلق ہو محض اجمالی ہے ۔ اس تصور کو تقویت دینا ، اسے مزید روشن کرنا ، اور مقاماتِ التباس میں اس کی راہنمائی کرنا وغیرہ  شریعت کاکام ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…