غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

Published On April 15, 2024
غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہر دور اور ہر قوم میں اپنے انبیا و رسل بھیجے اور ان کی رہنمائی کے لیے وحی کا سلسلہ جاری فرمایا ۔اس وحی کے نزول کے دو طریقے ہیں  اول ۔  بعض اوقات یہ وحی لفظاً ہوتی ہے یعنی اس میں الفاظ بھی اللہ کے...

اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ

اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ

ابو عمار زاہد الراشدی جناب جاوید احمد غامدی کا ایک حالیہ مضمون ان دنوں دینی حلقوں میں زیر بحث ہے جس میں انہوں نے بنیادی طور پر یہ تصور پیش کیا ہے کہ اسلام کا خطاب فرد سے ہے سوسائٹی سے نہیں ہے، اور اسلام کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے اس وقت عالم اسلام میں...

اسلام میں پردے کے احکام اور غامدی صاحب

اسلام میں پردے کے احکام اور غامدی صاحب

ابو عمار زاہد الراشدی ساتویں صدی ہجری کے معروف مفسر قرآن امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاریؒ نے ’’تفسیر قرطبی‘‘ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنے علمی حلقے میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے آ کر مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی...

رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب

رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب

ابو عمار زاہد الراشدی ہم محترم جاوید احمد غامدی صاحب کا یہ ارشاد گزشتہ کالم میں پیش کر چکے ہیں کہ سنت ان کے نزدیک دین ابراہیمیؑ کی کسی ایسی روایت کے تسلسل کا نام ہے جسے جناب نبی اکرمؐ نے بھی مناسب ترمیم و اضافہ کے ساتھ باقی رکھا ہو۔ ان کے اس ارشاد کی کسوٹی پر ہم رجم...

غامدی صاحب اور خبر واحد

غامدی صاحب اور خبر واحد

ابو عمار زاہد الراشدی علماء کے سیاسی کردار، کسی غیر سرکاری فورم کی طرف سے جہاد کے اعلان کی شرعی حیثیت، علماء کرام کے فتویٰ جاری کرنے کے آزادانہ استحقاق، اور زکوٰۃ کے علاوہ کسی اور ٹیکس کی شرعی ممانعت کے حوالہ سے محترم جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے بعض حالیہ ارشادات کے...

غامدی صاحب کا تصور سنت

غامدی صاحب کا تصور سنت

ابو عمار زاہد الراشدی محترم جاوید احمد غامدی اور ان کے مکتب فکر کے ترجمان ماہنامہ ’’اشراق‘‘ لاہور کا اپریل ۲۰۰۸ء کا شمارہ اس وقت میرے سامنے ہے جس میں غامدی صاحب کے رفیق کار جناب محمد رفیع مفتی نے سوال و جواب کے باب میں دو سوالوں کے جواب میں سنت نبوی کے بارے میں غامدی...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی اگے سنت کے متعلق رقم طراز ہے کہ ” دوم یہ کہ سنت قران کے بعد نہیں   بلکہ قران سے مقدم ہے ۔ اس لیے وہ لازما اس کے حاملین کے اجماع وتواتر ہی سے اخذ کی جائے گی ۔ قران میں اس کے جن احکام کا ذکر ہوا ہے   ان کی تفصیلات بھی اسی اجماع وتواتر پر مبنی روایت سے متعین ہوں گی ۔ انہیں قران سے براہِ راست اخذ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی   جس طرح کہ قران کے بزعمِ خود بعض مفکرین نے اس زمانے میں کی ہے ۔اور اس طرح قران کا مدعی بالکل الٹ کر رکھ دیا ہے” (میزان ص 47) اس عبارت میں جناب غامدی نے چند دعوے کیے ہیں ۔(1) ان میں پہلا دعوی یہ ہےکہ” سنت قران کے بعد نہیں بلکہ اس سے مقدم ہے ” اس پر ہم نے کل پرسوں تفصیل سے  لکھا ہے ۔ احباب اس کوگذشتہ مباحث میں دیکھ سکتے ہیں ۔ ہم اس کو دوبارہ نہیں لکھ سکتے ہیں ۔  (2) دوسرا دعوی جناب نے اس اوپر موجود عبارت میں یہ کیا ہےکہ “اس لیے وہ ( سنت) لازما اس کے حاملین کے اجماع وتواتر سے ہی سے اخذ کی جائے گی ”  اس دعوی کے متعلق ہم دو باتیں عرض کرنا چاہتے ہیں (1) ایک بات تو یہ ہے کہ جناب غامدی نے اس عبارت کی آخر میں جنابِ پرویز کانام لیے بغیراس پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “جس طرح کہ قران کے بزعمِ خود بعض مفکرین نے اس زمانے میں کی ہے اور اس طرح قران کا مدعی بالکل الٹ کررکھ دیاہے ”  ہمارے نزدیک بعینہ یہ کام جناب غامدی نےکیا ہے ۔ اور وہ ہی بزعمِ خود مفکرِقران بھی بنے ہوئے ہیں ۔ اس بات کی تفصیل آنے والے مبحث سے معلوم ہوجائے گی ۔ یہ بات واقعات میں بھی ثابت ہے اور تمام لوگ اسے قران کے متعلق جانتے ہیں کہ قران مجید نے اپنے کسی فیصلے کےلیے بھی تواترواجماع کو شرط قرارنہیں دیا ہے ۔ چاہے وہ فیصلہ زنا کے متعلق ہو ، یا سرقہ کے متعلق ہو ، یا قذف کے متعلق ہو ، یا پھرشراب خوری وغیرہ کے متعلق ہو ۔ اب یہ عقلِ عام کے خلاف بات ہے کہ قران انسانی جان جیسی قیمتی چیز کو لینے   یا اس کے اعضاء کاٹنے اوراسے کنڈم کرنے ، یا پھراسے درے اورکوڑے لگانے کے ثبوت لیے تو چند محدودلوگوں کی گواہی کو شرط قرار دیدیں ۔ اور ختنہ ، حیض، نفاس، صدقہِ فطر، ایامِ تشریق کی تکبیروں ، دائیں ہاتھ سے کھانے ،السلام علیکم کہنے اور اس کاجواب دینے ، چھینک آنے پر الحمدللہ کہنے اوراس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنے ،غسلِ جنابت کرنے ، میت کو غسل دینے ، اسے کفن دینے ، اسے دفن کرنے ، اپنے ناخن کاٹنے ، زیرِناف بال کاٹنے ، بغل کے بال صاف کرنے ، مونچھیں پست رکھنے ، منہ ودانت کوصاف رکھنے  اورعیدین کی نماز کو پڑھنے کے ( البیان ج3 ص 58) ثبوت کےلیے تواتر واجماع کو شرط قرار دیدیں ۔ ان اعمال اوربعض دیگر اشیاء کو یہ لوگ سنت قرار دیتے ہیں ۔ مگر ان  کے ثبوت کےلیے تواتر اوراجماع کو شرط قرار دیتے ہیں ۔ یہ لوگ فی الحقیقت یا قران وسنت کے علوم سے نا اشناہیں یا پھر عقل سے فارغ ہیں ۔ ورنہ کوئی آدمی بسلامتئ ہوش وحواس ایسے اصول نہیں بنا سکتا جس سے دنیا میں دین  کامضحکہ بن جائے ۔ کیاختنہ اوربال کاٹنا انسانی جان سے زیادہ قیمتی ہے ؟ یہ بات صرف ہم نہیں کرتے کہ قران نے کسی مجرم کے کسی بھی جرم کے ثبوت کے لیے تواترواجماع کو شرط قرار نہیں دیا ہے ۔ چاہے اس سزا میں اس کی جان جاتی ہو یاپھر اس کےاعضاو اندام کاخاتمہ ہوتا ہو ۔ بلکہ خود جناب غامدی نے دوسرے الفاظ میں یہی بات لکھی ہے ۔ ان کی چندعبارتیں ہم ایک ترتیب سے پیش کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ اس کا تجزیہ بھی کریں گے ۔  ایک جگہ جناب لکھتے ہیں ” ثبوتِ جرم کے لیے قران مجید نے کسی خاص طریقے کی پابندی لازم نہیں ٹھہرائی ۔ اس لیے یہ بالکل قطعی ہے کہ اسلامی قانون میں جرم ان سب طریقوں سے ثابت ہوتا ہے جنہیں اخلاقیاتِ قانون میں مسلمہ طورپر ثبوتِ جرم کے طریقوں کی حیثیت سے قبول کیاجاتاہے اورجن کے بارے میں عقل تقاضا کرتی ہے کہ ان سے اسے ثابت ہوناچاہئے ۔ چنانچہ حالات ، قرائن ، طبی معاینہ ، پوسٹ مارٹم ، انگلیوں کے نشانات ،گواہوں کی شہادت ، مجرم کے اقرار، قسم ، قسامہ   اور اس طرح کے دوسرے تمام شواہد سے جس طرح جرم دنیا میں ثابت ہوتے ہیں ۔ اسلامی شریعت کے جرائم بھی ان سے بالکل اسی طرح ثابت قرار پاتے ہیں” ( البرہان ص 25) دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ ”  ان دومسثنیات ( ان دوکی تفصیل آگے آرہی ہے ) کے سوا اس اسلامی شریعت ثبوتِ جرم کےلیے عدالت کو ہرگز کسی خاص طریقے کا پابند نہیں کرتی ۔ لہذاحدود کے جرائم ہوں یا ان کے علاوہ کسی جرم کی شہادت ہمارے نزدیک یہ قاضی کی صواب دید پر ہے   کہ وہ کس کی گواہی قبول کرتا ہے اورکس کی گواہی قبول نہیں کرتا۔ اس میں عورت اور مرد کی تخصیص نہیں ہے ۔ عورت اگر اپنے بیان میں الجھے بغیر واضح طریقے پر گواہی دیتی ہے تو اسے محض اس وجہ سے ردنہیں کردیاجائے گا کہ اس کے ساتھ کوئی دوسری عورت یامرد کی گواہی موجود نہیں ہے ۔ اورمرد کی گواہی میں اگر اضطراب وابہام ہے تواسے محض اس وجہ سے قبول نہیں کیاجائے گا کہ وہ مرد ہے ۔ عدالت اگرگواہوں کے بیانات اوردوسرے قرائن وحالات کی بناپر مطمئن ہو جاتی ہے کہ مقدمہ ثابت ہے تو وہ لامحالہ اسے ثابت قرار دےگی ۔ اور وہ اگر مطمئن نہیں ہوتی تواسے یہ حق بے شک حاصل ہے کہ دس مردوں کی گواہی کو بھی قبول کرنے سے انکار کردے “( البرہان ص 27) اللہ کا شکرواحسان ہے کہ ہماری پاکستانی عدالتوں کو غامدی صاحب  کے دین وشریعت کا پتہ نہیں ہے ۔ یا پھر اس کو انہوں نے قبول نہیں کیا  ورنہ آج کل صورتِحال وہی ہوجاتی جس کا نعیم صدیقی مرحوم نے نوحہ کیا تھا کہ

قریہ قریہ بستی بستی صحرا صحرا خون

امت والے امت کا ہے کتنا سستا خون

اب ہمیں کوئی بتائے کہ پرویز نے جیسے دین کو الٹ کررکھ دیا تھا کیا ان صاحب نے اس سے کم کارنامہ انجام دیا ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں ۔ بلکہ اس سے بڑھ کر ہیں یا پھر اس کے برابر ہیں ۔ اب ان دو مستثنیات امور کی بات دیکھتے ہیں ۔ مگر اتنی بات یاد رہے کہ دوسری آنے والی آیت کو جناب غامدی نے” قحبہ عورتوں” کے ساتھ اس لیے خاص کردیا ہے   کہ عام زناکاروں اورپیشہ ور زناکاروں کے درمیان وہ اور ان کے   استاد امام فرق کرتے ہیں ۔ اس مسئلے میں بھی جناب نے دین وشریعت کی ترتیب کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔ دیکھیں ” قحبہ عورتوں ” قحب   کھانسنے کوکہتے ہیں ۔ بدچلن عورتوں کی یہ عادت تھی کہ وہ خریداروں کے طلب میں مردوں کے سامنے کھانستی رہتی تھی ۔ یعنی قحبہ کا حاصل مطلب ” بدچلن عورتیں “ہوگیا ہے ۔ اب ان بدچلن عورتوں کے لیے جناب چار گواہوں کو ضروری جانتے ہیں ۔ مگر ” بدچلن مردوں “کے لیے اسے ضروری نہیں سمجھتے  بلکہ ان کا” بدچلن مردوں” کے متعلق فرمان یہ ہے کہ معاشرے میں شریف اور مشہور متقی آدمی پرثبوتِ جرمِ زنا کے لیے چارگواہوں سے کسی صورت کم کسی چیز پراسے سزا نہیں دی جاسکتی جیسے حالات ، قرائن ، طبی معاینہ   یہ سب اس معاملے میں اس(قران) کے نزدیک بے معنی ہے ۔ مگر آدمی   بدچلن   ہو تو ثبوتِ جرم کے لیے یہ سب طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں” ( البرہان ص 26)  یہ کوئی عقل والوں کی بات ہے  کہ عورت اگر قحبہ یعنی بدچلن   ہو تو اس کے ثبوتِ جرم کےلیے چارگواہ ضروری ہیں  اور مرد   بدچلن   ہو تو اس کا جرم کسی بھی طریقے پرثابت کیا جا سکتا ہے ؟ ایسی تحقیق کوئی معتوہ شخص بھی نہیں کر سکتا کجا کہ کوئی امام الزمان کہلانے والی شخصیات  اس کو پیش کرنے والے ہوں ۔ اب کوئی شخص ہمیں سمجھائیں کہ دین کی ترتیب کوکس شخص نے الٹ کر رکھ دیا ہے ؟ جناب آگے ان دومستثنیات کے بارےمیں لکھتے ہیں کہ “اس سے مشتثنی صرف دوصورتیں ہیں ۔ اول یہ کہ کوئی شخص کسی ایسے شریف اورپاک دامن مرد یا عورت پرتہمت لگائے جس کی حیثیتِ عرفی بالکل مسلم ہو ۔ اس صورت میں قران کا اصرار ہے کہ اسے ہرحال میں چارعینی گواہ پیش کرنا ہوں گے ۔ اس سے کم کسی صورت میں بھی اس کا مقدمہ قائم نہ ہوسکے گا ۔ حالات ۔ قرائن ۔ طبی معاینہ ۔ یہ سب چیزیں اس معاملے میں اس (قران)کے نزدیک بے معنی ہیں ۔ آدمی بدچلن ہو توثبوتِ جرم کےلیے یہ سب طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں ۔ لیکن اس کی شہرت اگر ایک شریف آدمی اور پاک دامن شخص کی ہے   تو اسلام یہی چاہتا ہے کہ اس سے اگرکوئی لغزش ہوئی بھی ہے   تو اس پرپردہ ڈال دیاجائے ۔ اوراسے معاشرے میں رسوا نہ کیا جائے ۔ چانچہ اسی صورت میں وہ چارعینی شہادتوں کاتقاضا کرتا ہے اورالزام لگانے والا اگرایسانہ کرسکے تواسے لازما قذف کامجرم ٹھہرایا ہے ۔ ارشاد فرمایاہے ” والذین یرمون المحصنت ثم لم یاتوا باربعة شہداء فاجلدوہم ثمانین جلدة ولاتقبلوا لہم شہادة ابدا واولئک ہم الفاسقون ۔ الا الذین تابوامن بعد ذلک واصلحوا فان اللہ غفورحیم “( النور 5) یعنی ۔۔ اورجو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں   پھر چار گواہ نہ لائیں توان کو اسی کوڑے مارو اوران کی گواہی پھر قبول نہ کرو اوریہی لوگ فاسق ہیں ۔ لیکن جواس کے بعد توبہ واصلاح کرلیں ۔ تو اللہ ان کے لیے غفورورحیم ہے ” ( البرہان ص 26)  دوسرے اسثتنا والی عبارت آگے پیش کرتے ہیں ان شاءاللہ ۔جناب غامدی نے اس عبارت میں بالکل پاپائیت کی ترجمانی کا حق اداکیاہے ۔ قران میں تو صرف ” یرمون المحصنات “کے الفاظ ہیں ۔ جس سے دو باتیں صاف معلوم ہوجاتی ہیں ۔ ایک بات یہ ہے کہ وہ آدمی اس واقعے کا عینی شاہد بالکل نہیں ہے یہ مطلب ” یرمون ” کے لفظ سے صاف واضح ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ عورت یا شخص ” المحصنت ” ہیں ۔ اس نے اس گناہ کا ارتکاب نہیں کیا ہے ۔ یہ اس لفظ کا بدیہی مفہوم ہے ۔ ایسی صورت میں اگر اس الزام لگانے والے شخص کو فاسق کہا جائے   یا اس کو درے لگائیں جائے تو عقلِ عام اس بات کو من وعن تسلیم کرتی ہے ۔ لیکن اگر بات جناب غامدی کی تحقیق کی ہوجائے تو عقل اسے ہرگز تسلیم نہیں کرتی ۔ بلکہ یہ تحقیق فی الحقیقت قران پر تہمت ہے ۔ جو آدمی یہ کہتا ہے کہ ” لیکن اس کی شہرت اگرایک شریف آدمی اور پاک دامن شخص کی ہے تو اسلام یہی چاہتا ہے کہ اس سے اگر لغزش ہوئی بھی ہے تو اس پر پردہ ڈال دیاجائے ” اگر اس شخص سے زنا کی یہ لغزش ہوئی ہے   تو اس بات میں کوئی دورائیں نہیں ہے کہ اسلام اس پر پردہ ڈالنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ مگر قران میں یہ بات کہاں لکھی ہے کہ اگر کوئی متقی اورعرفی مسلم شخص اس لغزشِ زنا کامرتکب بھی ہوجائے    تو تب بھی اس کے متعلق یہ بات کرنے والا آدمی فاسق ہے ۔ اس کی شہادت قبول نہیں ہے اوراسے کوڑے لگادیئے جائیں گے ؟ آخر وہ کس چیز سے فاسق بنا ؟ کس جرم کی بناپر اس کی شہادت قبول نہیں ہوگی ؟ کس گناہ کے مد میں اسے کوڑے لگائے جائیں گے ؟ پردہ کسی شخص کے برے عمل پر ڈال دینا ایک نیکی اورحسنہ تو ہے واجباتِ دین میں سے تو نہیں ہے ۔ ہاں اگر اس شخص نے واقعی زنا کی حالت میں کسی متقی اور مسلمہ دینی شخصیت کامشاہدہ نہیں کیا ہو   بلکہ کسی قرینہ سے یا کسی فرد کے ساتھ کھڑے ہونے سے ۔ یاکسی کےساتھ اسے آتے ہوئے دیکھ کراس پراتنا بڑا الزام اورتہمت لگادیتا ہے   اورخود وہ الزام لگانے والا شخص بھی اس بات کا مقرہو کہ اس نے عینِ حال میں اس کو نہیں دیکھا مگراس کاگمان یہ ہے  تو پھراس شخص کو فاسق کہنے ۔ اور اسے کوڑے لگانے ۔ اور اس کی شہادت کو ردکردینے کا عقلا بھی جواز بنتاہے ۔ لیکن اس صورت کے علاوہ اس کو ان تین چیزوں کامورد بنانا بالکل عقلِ عام  کے خلاف ہے ۔ اور یہ کیا بات ہوئی کہ ایک طرف  ایک آدمی نے پہلے کوئی گناہ کیا ہے تواب اس پر اس جرم کو محض قرائن ۔ حالات ۔ طبی معاینہ سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے اور دوسری طرف ایک متقی اور مسلمہ شخصیت نے بھی اس گناہ کا اتکاب کیا ہے اور کوئی شخص اس کے اس کردہ فعل کا ذکر کرتا ہے تو یہ بات کرنے والا شخص فاسق ۔ مردودالشہادة ۔  اورمستحقِ سزاہوجائے؟ اگراس طرح کی ٹھیک بات کرنے کی بھی غامدی دین وشریعت میں یہی سزا ہے   تو اس دین و شریعت کو کون معقول آدمی قبول کرسکتا ہے ؟

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…