غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 87)

Published On April 22, 2024
غامدی صاحب کا تصور تاریخ: ایک تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کا تصور تاریخ: ایک تنقیدی جائزہ

محمد حسنین اشرف غامدی صاحب کی میٹافزکس میں جہاں بہت سے تصورات تنقیح طلب ہیں ان میں سے ایک تصورِ تاریخ بھی ہے۔ یہ ایسا تصور ہے جو ان کے الہیاتی اور فقہی، دونوں فریم ورکس کا حصہ ہے۔ غامدی صاحب اس پر بہت سی عمارتیں بلند کرتے ہیں لیکن یہ ابھی تک نہایت بنیادی شکل میں موجود...

غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل  اس مضمون میں ہم جاوید احمد غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا ایک مختصر مگر جامع تنقیدی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ غامدی صاحب کا نظریہ اخلاق درحقیقت اسلام کے بجائے مغربی ما بعد الطبیعیات پر مبنی ہے اور امت مسلمہ کو اعتزال قدیمہ کی راہوں پر ڈالنے کی مکمل...

غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہر دور اور ہر قوم میں اپنے انبیا و رسل بھیجے اور ان کی رہنمائی کے لیے وحی کا سلسلہ جاری فرمایا ۔اس وحی کے نزول کے دو طریقے ہیں  اول ۔  بعض اوقات یہ وحی لفظاً ہوتی ہے یعنی اس میں الفاظ بھی اللہ کے...

اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ

اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ

ابو عمار زاہد الراشدی جناب جاوید احمد غامدی کا ایک حالیہ مضمون ان دنوں دینی حلقوں میں زیر بحث ہے جس میں انہوں نے بنیادی طور پر یہ تصور پیش کیا ہے کہ اسلام کا خطاب فرد سے ہے سوسائٹی سے نہیں ہے، اور اسلام کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے اس وقت عالم اسلام میں...

اسلام میں پردے کے احکام اور غامدی صاحب

اسلام میں پردے کے احکام اور غامدی صاحب

ابو عمار زاہد الراشدی ساتویں صدی ہجری کے معروف مفسر قرآن امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاریؒ نے ’’تفسیر قرطبی‘‘ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنے علمی حلقے میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے آ کر مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی...

رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب

رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب

ابو عمار زاہد الراشدی ہم محترم جاوید احمد غامدی صاحب کا یہ ارشاد گزشتہ کالم میں پیش کر چکے ہیں کہ سنت ان کے نزدیک دین ابراہیمیؑ کی کسی ایسی روایت کے تسلسل کا نام ہے جسے جناب نبی اکرمؐ نے بھی مناسب ترمیم و اضافہ کے ساتھ باقی رکھا ہو۔ ان کے اس ارشاد کی کسوٹی پر ہم رجم...

مولانا واصل واسطی

تیسری بات اس عبارت میں جناب غامدی نے یہ لکھی ہے کہ “قران میں اس کے جن احکام کا ذکر ہواہے ان کی تفصیلات بھی اسی اجماع وتواترپر مبنی روایت سے متعین ہو ں گی ۔ انہیں قران سے براہِ راست اخذ کرنے کی کوشش نہیں جائے گی ” ( میزان ص 47) اس بات پر بھی جناب غامدی کی فکر پوری نہیں اترتی ۔ صرف لوگوں کے ورغلانے اوران کے ذہن میں یہ بات بٹھانے کے لیے یہ بات لکھی ہے کہ ان کا مذہب پرویز  کے مذہب سے الگ ہے ۔ اب اس بات کی ذرا تفصیل ملاحظہ ہو ۔ جناب غامدی نے پہلے نماز کے اذکار کو سنت کی تعریف سے نکال دیا ہے ۔  مبادئ سنت   کے چھٹے اصول میں لکہتے ہیں کہ” چھٹا اصول یہ ہے کہ وہ چیزیں بھی سنت نہیں ہوسکتیں جونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی راہنمائی کےلیے انہیں بتائی تو ہیں لیکن اس راہنمائی کی نوعیت ہی پوری قطعیت کے ساتھ  واضح کردیتی ہے کہ انہیں سنت کے طور پر جاری کرنا آپ کے پیشِ نظر ہی نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال نماز میں قعدے کے اذکار ہیں ۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے لوگوں کو تشہد اور درود بھی سکھایا ہے اوراس موقع کے لیے دعاؤں کی بھی تعلیم دی ہے ۔ لیکن یہی روایتیں واضح کردیتی ہیں کہ ان میں سے کوئی چیز بھی نہ آپ نے بطورِخود اس موقع کےلیے مقرر کی ہے اور نہ سکھانے کے بعدلوگوں کے لیے اسے پڑھنا لازم قراردیا ہے ۔ یہ آپ کے پسندیدہ اذکارہیں ۔ان سے بہتر کوئی چیز تصور نہیں کی جاسکتی ۔ لیکن اس معاملے میں آپ کاطرز عمل صاف بتاتا ہے کہ آپ لوگوں کوکسی بات کا پابند نہیں کرناچاہتے ۔ بلکہ انہیں یہ اختیار دینا چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی سکھائی ہوئی یہ دعائیں بھی کرسکتے ہیں ۔ اوران کی جگہ دعاومناجات کےلیے کوئی اورطریقہ بھی اپناسکتے ہیں ۔ لہذا سنت صرف یہی ہے کہ ہرنماز کی دوسری اورآخری رکعت میں نماز پڑہنے والا دوزانو ہوکر قعدے کےلیے بیٹھے۔ اس کے علاوہ کوئی چیز بھی اس موقع پر سنت کی حیثیت سے مقرر نہیں کی گئی” ( میزان ص 60)   ۔ ہم اس عبارت کے متعلق چند باتیں عرض کرناچاہتے ہیں (1) پہلی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ آپ نے قعدہ کو کس بنیادپر سنت قرار دیا ہے ؟ آپ نے اس کے لیے اپنی اسی کتاب میں صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو دلیل بنایا ہے ( میزان ص 291) حالانکہ آپ کو چاہئے تھا کہ اس کے لیے دلائل کاخصوصی اہتمام کرتے ۔ مگر آپ نے نہیں کیا ۔ یہی بات تو ہر شخص قعدہ کے اذکار کے متعلق بھی پیش کرسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہمیشہ پڑہتے تھے ۔ کیا آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاکوئی ایسا قعدہ پیش کرسکتے ہیں  جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہِ کرام نے محض خاموشی پراکتفاء کیا ہو؟ پورے ذخیرہ آحادیث کو پڑہ کر بھی اس بات کو کوئی شخص ثابت نہیں کرسکتاہے ۔ تو جن دلائل کی بنیاد آپ قعدہ کو سنت قراردیتے ہیں انہی دلائل کی بنیاد دوسرا شخص ان اذکار کو بھی سنت ثابت کرسکتا ہے ۔ پھر یہ بھی عجیب مسئلہ ہے کہ   ختنہ جو طبی مسئلہ ہے وہ تو سنت بن جائے مگر قعدہ میں ۔ تشہد ۔ درود ۔ دعاواذکار وغیرہ غیرِ سنت قرارپائیں ۔ کوئی بندہ ذرا ختنے اور قعدہ کے اذکارو اوراد کے متعلق مقایسة مطالعہ کرلے تو اسے اندازہ ہوجائے گا کہ جناب غامدی دین کے حوالے سے کہاں اورکس مقام پر کھڑے ہیں ؟ اس بات کا اندازہ آپ کو اس سے بھی ہوجاتا ہے کہ دعاء جو حدیث کے مطابق مغزِعبادت ہے اس کوتو سنت ہونے سے نکال دیا ہے ۔قعدہ جو فی نفسہ عبادت بھی نہیں ہے اس کو سنت بنادیا ہے ؟ ایسے ہوتے ہیں اس زمانہ میں مفکرینِ اسلام ۔  پھر نفسِ سکوت تو عبادت بھی نہیں ہے ۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں “فالسکوت بلاقراءة ولاذکر ولا دعاء لیس عبادة ولامامورابہ بل یفتح باب الوسوسة” ( مجموع الفتاوی ج 23 ص 163) پس جب محض سکوت نہ عبادت ہے ۔اورنہ ہی  ماموربہ ہے ۔ تواس کو رکنِ نمازاورسنت بنانے کی آخرکیا دلیل ہے ؟ محض بیٹھنا ۔ اٹھنا ۔ لیٹنا ۔ توعادی افعال میں سے ہیں ۔ان کو کس بنیاد پر سننِ ہادیہ میں شمار کیا جا سکتاہے ؟ ہاں اگر اس کے ساتھ کچھ افعال واذکار متعین ہوں کہ یہ دورانِ قیام کےلیے ہیں ۔ یہ دورانِ جلوس وقعود میں ہے تو پھر بات عقل میں آجاتی ہے ۔ مگر جناب کو ان چیزوں سے کیا کام وہ تواپنی تفکیر کا اظہارچاہتے ہیں   (2)  دوسری بات اس مورد میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ وسلم جناب غامدی کے بقول لوگوں کو مختلف آذکار بتااور سکھا کر لوگوں کو اختیار دینا چاہتے تھے، ان کے لیے سہولت پیداکرناچاہتے تھے ۔  ہم  جناب کی اس بات کو تھوڑی دیر کےلیے تسلیم کرلیتے ہیں ۔ مگر اس سے یہ بات کس طرح نکل آئی ہے کہ وہ لوگ ان دعاؤں کو دیگر زبانوں میں بھی ادا کرسکتے ہیں ؟ اوران مسنون دعاؤں کے علاوہ اور دعائیں بھی کرسکتے ہیں ؟ اس کا زیادہ سے زیادہ یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ انسان قران اورسنت میں ماثوراورمنقول دعاوں میں سے اپنی سہولت کےلیے کسی کاانتخاب کرسکتا ہے ۔ مگر جناب کا استدلال بالکل اس طرح ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین اور عدمِ رفع الیدین ۔ یا پھر قبض الیدین وارسال الیدین کو  لوگوں کی سہولت دینے کی خاطر دونوں کی اجازت دی ہے بلکہ اس پر خود عمل بھی کیا ہے ۔ تو جناب اس کا یہ نتیجہ برآمد کرلیں کہ ان دوصورتوں کے علاوہ یہ صورت بھی اختیار کرسکتا ہے کہ سر کے اوپر ہاتھ  رکوع اور قیام میں  رکھ لیاکریں یا دونوں میں کسی ایک کو بھی نہ کریں ۔ کیونکہ اس کی نوعیت بتارہی ہے کہ ان کو لازم کرنا اور سنت قراردینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشِ نظرنہیں تھا ۔ اللہ تعالی نے قران مجید میں کفارہ میں تین چیزوں میں سے کسی ایک کا سہولت کے لیے بندوں کو اختیار دیا ہے ۔ تو جناب اس کا یہ نتیجہ برآمد کرلیں  کہ ان سب میں سے کسی کو ادا نہ کرنا بھی جائز ہے ۔ توایسے فقیہ کو بندہ یہی کہ سکتاہے کہ ہمارے زمانے کے لیے یہ بہت بہترین مفکرہے کہ لوگوں کو مولویانہ مشکلات سے نکالتے ہیں ۔ (3) تیسری بات یہ ہے  کہ جناب غامدی نے نماز کے متعلق دیگر باتوں کے ساتھ  ساتھ  یہ بات بھی لکھی ہے “کہ اس میں فاتحہ بھی (رکن یاسنت) ہے ” اس کے بعد لکھتے ہیں کہ “نماز کے لیے شریعت کے مقررکردہ اذکار یہی ہیں ۔ ان کی زبان عربی ہے اور نماز کے اعمال ہی کی طرح یہ بھی اجماع اور تواترِ عملی سے ثابت ہیں “( میزان ص 292) اس عبارت سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے ۔ کہ جناب غامدی کو اپنے اصول بھی یاد نہیں رہے ۔ کیونکہ قران میں قراءت کے متعلق یہ آیت وارد ہے کہ ۔ فاقرؤا ماتیسر من القران (المزمل 20) اب جب آپ فاتحہ کو متعین کریں گے   تو اس سے درج بالاآیت کے مفہوم میں “تخصیص اورتحدید ” لازما ہوجائے گی ۔ اورادھر فاتحہ کونماز کے اعمال کی طرح آپ تواتر اوراجماعِ عملی سے ثابت مان رہے ہیں ۔ تو اس کاخلاصہ یہ ہوا کہ ہمارا موقف ہی درست تھا ۔ اگرچہ جناب نے اس کا ان الفاظ میں انکارکیا تھا کہ” پہلی بات ( بطورِاصول ) یہ کہ قران سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی ۔ یہاں تک کہ خداکا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ قران نازل ہوا ہے ۔ اس کے کسی حکم میں کوئی تخصیص وتحدید نہیں کرسکتا یا اس میں کوئی ترمیم وتغیرنہیں کرسکتا” ( میزان ص 25) جبکہ آپ کو اپنے وضع کردہ یا حافظ محب سے اخذکردہ قانون کے مطابق فاتحہ بھی متعین نہیں کرنا چاہئےتھی  اس لیے کہ اس کے تعین سے قرانی حکم میں تغیرآجاتا ہے ۔ مگر ہم اس تحقیق پر حافظِ شیراز کے اس قول کو گنگنا سکتے ہیں ۔ جس میں اس نےکہاہے کہ

شکرِ ایزد کہ میانِ من وتو صلح فتاد

حوریاں رقص کناں ساغرِشکرانہ زدند

(4) چوتھی بات یہ ہے کہ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قعدہ میں ان چیزوں سے کسی کولازم نہیں قرادیا ہے ۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحیح السند فرامین سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے دعاءاوردرودکونماز کے اس مقام کے لیے خودمقرر کیا ہے اور پھر لوگوں کے لیے اسے لازم قراردیا ہے اورخود بھی نماز میں اس کا باقاعدہ اہتمام کرتے تھے ۔بخاری  میں سیدہ عائشہ سے مروی ہے کہ ” اخبرنا عروہ بن الزبیر عن عائشة زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم اخبرتہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یدعو فی الصلاة ۔ اللہم انی اعوذبک من عذاب القبر واعوذبک من فتنة المسیح الدجال واعوذبک من فتنة المحیا وفتنةالممات اللہم انی اعوذبک من الماثم والمغرم فقال لہ قائل ۔۔مااکثر ماتستعیذ من المغرم ۔۔ فقال ان الرجل اذاغرم حدث فکذب ووعد فاخلف” ( بخاری باب الدعاء قبل السلام )  اس روایت میں ۔۔ ما اکثر ماتستعیذ ۔۔ کے الفاظ ہرکوئی دیکھ سکتا ہےکہ کس چیز پردلیل ہے؟ یہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کااپنا عمل تھا ۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بقول سیدناابوہریرہ لوگوں سے فرمایا ہے کہ ” اذا فرغ احدکم من التشہد الاخر فلیتعوذ باللہ من اربع “( مسلم باب مایستعامنہ فی الصلوة) ایک دوسری روایت میں فرمایا ہے کہ” اذا تشہد احدکم فلیستعذ باللہ من اربع یقول ۔۔ الہم انی اعوذبک من عذاب جہنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحیا والممات ومن شر فتنة المسیح الدجال” ( مسلم بات مایستعاذمنہ فی الصلوة)اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں اس دعا کے مقام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمادیا ہے ۔ اب اس واضح دلیل کے بعد جناب کے متعلق یہی کہاجاسکتاہے کہ

چہ دلاوراست دزدے بکف چراغ دارد

 ان روایات کو قبول نہ کرنے اورسنت نہ ماننے کی وجہ یہ غالبا یہ ہے کہ ان میں فتنہِ دجال سے پناہ مانگنے کی بات موجود ہے ۔ اور جناب دجالِ اکبر کے وجود کے منکر ہے ۔ اگر وہ اس دعاکوسنت مان لیتے تو پھر دجال کے وجودکو ماننا بھی لازم آجاتاہے   جو جناب کو قطعا قبول نہیں ہے ۔ درود کے متعلق ہم عرض کرتے ہیں کہ  جناب نے جب” فاقرؤا ماتیسر من القران ” (  المزمل 20) کی آیت کو فاتحہ کی آحادیث  سے مخصوص مان لیا ہے تو سورہِ احزب کی آیت ” ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی یایہا الذین امنواصلوا علیہ وسلمواتسلیما ” ( احزاب 56) کو بھی اگر ان آحادیث سے نماز کے لیے مخصوص مان لیتے جو درود کے بارے میں بہت سارے صحابہِ کرام سے منقول ہیں   تو کیا قیامت آجاتی ؟دیکھئے سیدنا ابوہریرہ ۔ سیدنا کعب بن عجرہ ۔ سیدنا سعدبن عبادہ ۔ سیدنا ابوحمید الساعدی رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ” قدعرفنا کیف نسلم علیک فکیف نصلی علیک ؟ قال قولوا اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد کماصلیت علی آل ابراہیم انک حمیدمجید ۔ اللہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کمابارکت علی آل ابراہیم انک حمیدمجید” ( مسلم باب الصلوةعلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) انہی آحادیث سے امام شافعی رحمہ اللہ نے نماز میں درود کے وجوب پر استدلال کیا ہے ۔ اور یہ واقعی مضبوط ترین استدلال ہے ۔ مگر تفصیل کا ادھر موقع موجود نہیں ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…