غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 57)

Published On March 26, 2024
اسلام میں پردے کے احکام اور غامدی صاحب

اسلام میں پردے کے احکام اور غامدی صاحب

ابو عمار زاہد الراشدی ساتویں صدی ہجری کے معروف مفسر قرآن امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاریؒ نے ’’تفسیر قرطبی‘‘ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنے علمی حلقے میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے آ کر مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی...

رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب

رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب

ابو عمار زاہد الراشدی ہم محترم جاوید احمد غامدی صاحب کا یہ ارشاد گزشتہ کالم میں پیش کر چکے ہیں کہ سنت ان کے نزدیک دین ابراہیمیؑ کی کسی ایسی روایت کے تسلسل کا نام ہے جسے جناب نبی اکرمؐ نے بھی مناسب ترمیم و اضافہ کے ساتھ باقی رکھا ہو۔ ان کے اس ارشاد کی کسوٹی پر ہم رجم...

غامدی صاحب اور خبر واحد

غامدی صاحب اور خبر واحد

ابو عمار زاہد الراشدی علماء کے سیاسی کردار، کسی غیر سرکاری فورم کی طرف سے جہاد کے اعلان کی شرعی حیثیت، علماء کرام کے فتویٰ جاری کرنے کے آزادانہ استحقاق، اور زکوٰۃ کے علاوہ کسی اور ٹیکس کی شرعی ممانعت کے حوالہ سے محترم جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے بعض حالیہ ارشادات کے...

غامدی صاحب کا تصور سنت

غامدی صاحب کا تصور سنت

ابو عمار زاہد الراشدی محترم جاوید احمد غامدی اور ان کے مکتب فکر کے ترجمان ماہنامہ ’’اشراق‘‘ لاہور کا اپریل ۲۰۰۸ء کا شمارہ اس وقت میرے سامنے ہے جس میں غامدی صاحب کے رفیق کار جناب محمد رفیع مفتی نے سوال و جواب کے باب میں دو سوالوں کے جواب میں سنت نبوی کے بارے میں غامدی...

قانون سازی کا اختیار اور غامدی صاحب

قانون سازی کا اختیار اور غامدی صاحب

ابو عمار زاہد الراشدی جس طرح بہت سی دواؤں کا سائیڈ ایفیکٹ ہوتا ہے اور ماہر معالجین اس سے تحفظ کے لیے علاج میں معاون دوائیاں شامل کر دیتے ہیں، اسی طرح بہت سی باتوں کا بھی سائیڈ ایفیکٹ ہوتا ہے اور سمجھدار لوگ جب محسوس کرتے ہیں کہ ان کی کسی بات سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 88)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 88)

مولانا واصل واسطی پانچویں بات اس سلسلے میں یہ ہے ۔ کہ جناب نے جوکچھ اوپر مبحوث فیہ عبارت میں لکھا ہے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ   ہم اس  فہرستِ سنت میں سے جس کا ذکر قران مجید میں آیا ہے ۔ اس کے مفہوم کاتعین ان روایات ہی کی روشنی میں کرتے ہیں محض قران مجید پراکتفاء نہیں کرتے...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی روزہ کو بھی ان سنن میں داخل کرتے ہیں   جوان کے بقول ،، دینِ ابراہیمی ،، کے باقیات میں سے ہے ۔ہم اس کے متعلق چند باتیں کرتے ہیں (1)  پہلی بات یہ ہے کہ جناب غامدی کو اس سنت کے اثبات کےلیے کہ ،، روزہ ،، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کی نبوت سے پہلے دیگر امتوں میں رائج تھا  بہت سے پاپڑ بیلنے پڑے ہیں ۔ اس بات کو ان کو کتاب میں روزہ کے مبحث میں دیکھ لیں (میزان 356 ،357) اس مبحث میں انہوں نے حدیث کی کتابیں جیسے بخاری ومسلم ، اور جواد علی کی کتاب ، المفصل فی تاریخ العرب ، اور بائبل وغیرہ کو تفصیل سے دیکھا اورملاحظہ کیا ہے۔، بائبل سے جناب نے پورے 11 اقتباسات نقل کیے ہیں ۔ مگر احباب یہ بات جان کر بہت خوشی محسوس کریں گے  کہ روزہ کے متعلق ان سب اقتباسات میں کھانے پینے وغیرہ سے منع کے الفاظ توان میں موجود ہیں مگر ان میں  ،، عورتوں کی مباشرت ،، سے منع کرنے یا پھرمنع ہونے کا کوئی لفظ موجود نہیں ہے۔ اور قران مجید میں بھی منع ازمباشرتِ ازواج کا کوئی لفظ روزہ رکھنے کے دوران میں  موجود نہیں ہے ۔ روزہ کے متعلق جو لغوی تحقیق جناب اصلاحی نے عبدالحمید فراہی سے گھوڑوں کے بارے میں نقل کرکے پیش کی ہے ۔ اس میں بھی کھانے اور پینے سے منع کرنے کی بات تو موجود ہے ، مگر جماع اورصحبت سے منع کا ذکر اس میں بھی موجود نہیں ہے ۔ اس سے یہ صاف صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ روزہ کے متعلق اس شرط کا اضافہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے  جیسا کہ احادیثِ روزہ میں موجود ہے  اورخود جناب غامدی نے بھی اسے حدیث کے حوالے سے بیان کیاہے کہ ،، روزے میں مجامعت کے سوابیوی سے ہرطرح اظہارِمحبت کرسکتے ہیں ۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لیتے تھے اور مجھے اپنے ساتھ لگاتے ( میزان ص 366) اگر ایسا ہو اور یقینا ایسا ہی ہے   تو اس بات سے ان لوگوں کے اس مقررہ قاعدہ کا صفایا ہوگیا ہے   جس میں انہوں نے بیان کیاتھا کہ ،، قران مجید کی نصوص کی تخصیص وتحدید کسی وحی اورپیغمبر کے قول وغیرہ سے بھی نہیں ہوسکتی ،، ممکن ہے کوئی بھائی ہمارے جواب میں قران کی آیت ،، احل لکم لیلة الصیام الرفث الی نساءکم  ،، اور ،، فالآن باشروھن وابتغوا ماکتب اللہ لکم ،، ( البقرہ 187) ہمارے جواب میں استدلالا پیش کرے مگر ہم عرض کریں گے کہ ایک بات تو یہ ہے کہ اس کا تعلق آیاتِ تبیین سے ہے جیسا کہ ،، کذالک یبین اللہ لکم آیاتہ ،،  سے مفہوم اور واضح ہوتا ہے ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ آیت افطاری کے بعد رات میں ،، رفث ،، اور ،، مباشرتِ ازواج  ،، سے متعلق ہیں ۔ روزہ میں شرط ہونے کے متعلق کوئی بات قران مجید میں بہرحال موجود نہیں ہے ۔ یہ بات صرف ہم نہیں کہتے بلکہ خود مکتبِ فراہی کے اساطین نے لکھی ہے۔ جناب اصلاحی نے اپنی تفسیر میں لکھاہے کہ ،، رفث ،، کے اصل معنی تو شہوانی باتوں کے ہیں لیکن یہاں اس کے بعد ، الی ، کا صلہ اس کے اندر بیویوں سے اختلاط وملاقات کامضمون پیدا کردیتاہے۔ اس کے جائز کردینے کے معنی یہ نہیں ہیں  کہ پہلے یہ چیز حرام ٹھہرائی گئی تھی ۔ یہ بات نہیں ہے بلکہ ابتدائی حکم میں اس قسم کی کوئی وضاحت موجود نہیں تھی اس وجہ سے بہت سے مسلمانوں نے بنظرِاحتیاط وتقوی یہ سمجھا کہ جس طرح روزے کی حالت میں ، دن میں زن وشو کےتعلقات کی اجاز ت نہیں ہے  اسی طرح شب میں بھی اس کی اجازت نہیں ہوگی ( تدبرِقران ج1 ص 456)  لیکن اگر کوئی شخص خواہ مخواہ ،، احل لکم لیلةالصیام الرفث الی نساءکم ،، ( البقرہ 187) کے الفاظ سے اس شرط کے مفہوم کو برآمد کرناچاہتاہے   تو پھر ہم جوابا عرض کریں گے کہ یہ تو مفہومِ مخالف سے آپ نے استدلال کیا ہے ۔ جو لوگ مفہومِ مخالف کو نصوص میں حجت تسلیم نہیں کرتے ہیںجیساکہ احناف اس بات کے قائل ہیں  تو ان کے نزدیک پھر رمضان میں ازواج سے مباشرت ان لوگوں کے نزدیک کیا جائز ہوگی ؟ دوسری بات یہ ہے کہ پھر یہ مباشرت سے منع اور رک جانا ایک منصوص مسئلہ نہیں رہا  بلکہ اجتہادی امر ہوگیا   جس کاماننا صرف ان لوگوں پر لازم ہوگا  جو اس اجتہاد سے مطمئن ہوجائیں ۔ اس استدلال سے غیر مطمئن افراد پر اس عمل سے رکنا لازم نہیں ہوگا ؟ اب یا تو یہ مان لیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ،، تخصیص وتحدید ،، قران کے نصوص میں درست ہے ، اور یا پھر اس بات کا اقرار کرلیں کہ مباشرتِ ازواج عینِ دورانِ روزہ میں بھی جائز ہے ۔ فیصلہ تیراتیرے ہاتھوں میں ھے دل یاشکم ؟

دوسری بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ قران نے مریض اورمسافر کو روزہ رکھنے سے چھوٹ دی ہے   مگر ساتھ اس  بات کی بھی وضاحت فرمائی ہے کہ ،، فعدة من ایام اخر ،، یعنی وہ لوگ پھر اس کی دوبارہ قضا کرلیں گے۔ اس بات پر سب لوگ الحمدللہ متفق ہیں   مگرحائضہ اور نفاس والی عورت کے متعلق قران مجید نے کچھ بھی نہیں فرمایا ہے ۔ہمارے لیے تو یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روزہ سے مستثنی قرار دیا ہے۔ تو وہ مستثنی ہوگئی ہیں ۔ البتہ بعد میں اس روزہ کی قضاء کرلیں گی  ۔ لیکن جناب غامدی کے مکتب اور مذہب والوں کو بڑا مسئلہ پیش آیا ہے ۔  جناب غامدی نے اس اشکال سے جان بچاکر اوربات کومجمل چھوڑ کر گزرنے کی ٹھانی ہے ۔اس لیے تو لکھا ہے کہ ،، حیض ونفاس کی حالت میں روزہ رکھنا ممنوع ہےتاہم اس طرح چھوڑے ہوئے روزے بھی بعد میں لازما پورے کیے جائیں گے ( میزان ص 367) اگرجناب غامدی حائضہ کو ان مریضوں میں شامل کرتے ہیں جن کا ذکر مجید نے ذکرکیا ہے تب بھی ان کے لیے مسئلہ درپیش ہے ۔اور اگر شامل نہیں کرتے ہیں تب بھی ان کو مسئلہ درپیش ہے ۔پہلی صورت میں ان لوگوں پر لازم آئے گا کہ حائضہ عورت روزوں کی طرح نماز کا بھی قضاء کر لے   کیونکہ ان لوگوں کے نزدیک وہ عورت مریض ہے   اور مریض کے لیے روزہ تو قضاء تک معاف ہے ، مگرنماز معاف نہیں ہے اور نہ نماز کا فدیہ دے سکتے ہیں ۔ اگر وہ ایسا کریں گے کہ نمازوں کے قضاء اس عورت پرلازم کریں گے تو یہ حروریوں یعنی خوارج کا مذہب ہے   کیونکہ رمضان کے مریض کے متعلق تو اللہ تعالی نے فرمایا ہے ، فعدة من ایام اخر ،، اور اگر اس عورت کو یہ لوگ مریض نہیں قرار دیتے ہیں   تو پھر روزہ چھوڑنے کی اجازت کس قرانی نص سے اس کو مل گئی ہے ذرا وہ بتائیں؟ کیونکہ آحادیث سے تو قران کے نصوص کی تخصیص وتحدید ان کے نزدیک جائزہی  نہیں ہے ؟ اوراگر اس عورت کو یہ لوگ شیخِ فانی پر قیاس کرلیں گے   تو پھرحائضہ عورت کو نماز کے بدلے میں ،، فدیة طعام مسکین ،، دینا ہوگا   جیسا کہ قران مجید میں عام علماء کے نزدیک روزہ کے متعلق مذکور ہے ۔ مگر جناب غامدی کے نزدیک تو آخر میں فدیے کا حکم بھی ختم ہوگیا ہے۔ لکھا ہے کہ ،، تاہم اس ( فدیہ کی )آیت کے بعد جوآیت ،، شھررمضان الذی انزل فیہ القران ،، کے الفاظ سے شروع ہوتی ہے ۔اس میں فدیے کی اجازت ختم ہوگئی چنانچہ حکم کو بعینہ دوہراکر اس میں سے ، وعلی الذین یطیقونہ، سے ، ان کنتم تعلمون ، کے الفاظ حذف کردیئے گئے ہیں ( میزان ص 365) اوراگرآحادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قران کی تخصیص کریں گے تو پھر ان کاوہ عظیم قاعدہ ٹوٹ جاتا ہےجس پر اس پورے مذہب کی بنیاد قائم ودائم  ہے ۔ اب ان تینوں صورتوں میں یہ لوگ جس صورت کو بھی اختیار کرلیں گے ان کے لیے یہ کام آسان بالکل نہیں ہوگا (3) تیسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کے روزے کے دوران ،، عورت ،، سے قصدامباشرت کرلے ہم محض کھانے پینے سے روزہ توڑنے کی بات نہیں کررہے ہیں ، تو چاروں فقہی مذاہب بلکہ اجماعِ امت سے اس شخص پرکفارہ لازم آتا ہے ۔ ابن جبرین لکھتے ہیں کہ ،، الرابع من مفسدات الصیام لجماع المتعمد فی نھار رمضان وھو مجمع علیہ وھواغلظ المفطرات ( التسھیل ج7 ص 468) یہ بات جناب غامدی بھی تسلیم کرتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ کفارہ دینا بہتر ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ ،، جان بوجھ کرروزہ توڑلینا ایک بڑاگناہ ہے ،اس طرح کی کوئی چیز آدمی سے سرزد ہوجائے   تو بہترہے کہ وہ اس کاکفارہ اداکرے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ایک شخص کووہی کفارہ بتادیا جوقران مجید نے ظہار کےلیے مقرر کیاہے تاہم روایت سے واضح ہے   کہ جب اس نے معذوری ظاہرکی توآپ نے اس پر اصرار نہیں فرمایا ( میزان ص 368) یہاں جناب غامدی نے محض ،، روزہ توڑلینے ،، کی بات کی ہےچاہے وہ کھانے پینے سے ہو یاپھر مباشرت ومجامعت سے ؟ اس بات کی وضاحت ہم آگے کرلیں گے ان شاء اللہ

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…