اگر غامدی صاحب یا اُن کے رفقاء سنت کی غامدی تعریف کو پیش کرتے ہیں اور یہ پوزیشن اختیار کرتے ہیں کہ دین کی ابراہیمی روایت سنت ہے۔ اور یہ محرماتِ طعام اُسی روایت کا حصہ ہیں۔ تو اِس پر ہمارے پانچ اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔
پہلا اعتراض یہ کہ دین کی ابراہیمی روایت کے نتیجہ میں اگر یہ محرمات سنت قرار پاتے ہیں، تو اِس استدلال کو خور و نوش کے باب میں رقم کرنے میں غامدی صاحب کو کیا موانع درپیش تھے؟
دوسرا اعتراض، دین کی ابراہیمی روایت میں یہ چاروں چیزیں اسی حرمت کی حامل تھی، یہ محض آپ کا وہم و گمان یے، یا آپ نے اِس پر کوئی تحقیق کر رکھی ہے۔ وہ تحقیق آپ کی پرائیویٹ پراپرٹی ہے یا اُس کی اشاعت بھی فرمائی ہے۔ اِس تحقیق کا کوئی ذکر یا کوئی حوالہ خور و نوش کے باب میں موجود کیوں نہیں؟
تیسرا اعتراض، دینِ ابراہیمی کی روایت میں شراب سے نشے (drunkenness) کی حرمت بھی مسلم ہے۔ یہ سنت کیوں نہیں؟
چوتھا اعتراض، سنت کا تیسرا اصول پیغمبر سے ابتداء کو شرط بناتا ہے، جب کہ سنت کی تعریف دینِ ابراہیمی کی روایت کو مبتداء کی حیثیت میں پیش کرتی ہے۔ جب سنت کا تیسرا اصول اور سنت کی تعریف باہم مطابقت کی حامل نہیں، تو اِن دونوں کی رہنمائی میں سنت کیسے متعین ہو سکتی ہے۔ ایک ہی مصنف جب تعریف لکھنے بیٹھتا یے، تو دینِ ابراہیمی کی روایت کو مبتداء بناتا ہے اور جب اصول لکھنے بیٹھتا ہے تو پیغمبر سے ابتداء کو شرط بناتا ہے۔ کیا یہ تضاد نہیں؟
پانچواں اعتراض، جس تارِ عنکبوت کو ہمارے مخاصم نے غامدی صاحب کی تعریف سے نکال کر تھاما ہے، وہ اِس اعتراض کا سامنا نہیں کرسکتا۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ غامدی صاحب کے بقول دین ابراہیمی کی روایت میں تجدید و اصلاح پیغمبر سے منسلک ہے۔ تعریف کے الفاظ ہیں:
”سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ۔“
محرمات طعام میں تجدید و اصلاح اور بعض ضروری اضافے قرآن مجید نے سر انجام دیے ہیں۔ مشرکین کی بدعات کا تدارک قرآن مجید نے کیا یے۔ بحیرہ، سائبہ، حام اور وصیلہ کی حرمت کو قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھنے سے تعبیر کیا۔ مزید برآں، قرآن مجید نے واضح کیا کہ اُس کے مخاطبین نے محرمات کی جو فہرست بنا رکھی تھی، اُس میں سے اللہ تعالیٰ نے محض مردار، بہایا ہوا خون، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کا گوشت حرام کیا تھا۔ شراب کے بارے میں قرآن مجید نے ایک واضح پوزیشن اختیار کی اور اسے رجس قرار دیا اور عملِ شیطان بتایا۔ اسی طرح قرآن مجید نے دورِ جہالت کی ان بدعات کو رد کیا جس میں اونٹ بکریوں کے نر یا مادہ یا ان کے بچوں کو حرام قرار دیا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اور ایک جوڑا اونٹ کا اور ایک جوڑا گائے کا۔ تم فرماؤ کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جسے دونوں مادہ پیٹ میں لیے ہے۔ (٦:١٤٤)“
چناچہ یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ محرماتِ طعام کی تجدید و اصلاح اور اس میں اضافے بھی قرآن مجید کی طرف سے کیے گئے ہیں۔ غامدی صاحب نے اِسی اصول کی بنا پر چور کے ہاتھ کاٹنے اور زانی کو کوڑے مارنے کی سزا کو سنت کی فہرست سے نکالا ہے۔ کیونکہ اِن اعمال کی ابتداء قرآن مجید سے ہوئی ہے۔ خور و نوش سے متعلق بیشتر احکامات قرآن مجید کی نصوص پر انحصار رکھتے ہیں۔ جو احکامات قرآن مجید سے باہر ہیں اور خبر واحد سے منتقل ہوئے ہیں، غامدی صاحب اُنھیں سنت قرار نہیں دیتے۔ یہ دلچسپ حقیقت ہے یا دل خراش، لیکن حقیقت یہی ہے کہ قرآن کے احکامات کو غامدی صاحب سنت قرار دیتے ہیں اور سنت کے احکامات کو فطرت۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے کچلی والے درندوں اور چنگال والے پرندوں کو حرام قرار دیا۔ یہ حکم سنت سے ہمیں ملا ہے۔ غامدی صاحب اسے فطرت قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید نے مردار اور خون وغیرہ کو کھانے سے منع کیا، غامدی صاحب اسے سنت قرار دیتے ہیں۔ لیکن چور کے ہاتھ کاٹنا اور زانی کو کوڑے مارنا سنت نہیں، قرآنی حکم کی تعمیل ہے۔ فرماتے ہیں:
” نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلوم ہے کہ آپ نے چوروں کے ہاتھ کاٹے ہیں، زانیوں کو کوڑے مارے ہیں، اوباشوں کو سنگ سار کیا ہے، منکرین حق کے خلاف تلوار اٹھائی ہے ، لیکن اِن میں سے کسی چیز کو بھی سنت نہیں کہا جاتا۔ یہ قرآن کے احکام ہیں جو ابتداء ً اُسی میں وارد ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی تعمیل کی ہے۔ “
محرماتِ طعام کے احکامات ابتداءً قرآن مجید میں وارد ہوئے ہیں اور نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس پر عمل کیا ہے۔ پھر یہ سنت کیسے ہوگئے؟ سنت کے تیسرے اصول کے تحت مزید رقم فرماتے ہیں:
”سنت صرف اُنھی چیزوں کو کہا جائے گا جو اصلاً پیغمبر کے قول و فعل اور تقریر و تصویب پر مبنی ہیں اور اُنھیں قرآن کے کسی حکم پر عمل یا اُس کی تفہیم و تبیین قرار نہیں دیا جا سکتا۔“
غامدی صاحب کے یہ الفاظ خور و نوش کے مبحث میں اُنھی کے خلاف آخری حجت ہیں۔ پیغمبر کا قول و فعل اور تقریر و تصویب سنت کا معیار ہے۔ یہ خور و نوش کے باب میں کہاں ذکر یا نقل ہوا ہے۔ کس نے آپ ﷺ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کو بیان کیا ہے اور اس کی تاریخی حیثیت کیا ہے۔ کیا اس دعویٰ کی کوئی حقیقت ہے یا غامدی صاحب نے محض ایک ہوائی بات کی ہے؟ خور و نوش کے باب کا پورا تجزیہ اس پر شاہد ہے کہ یہ ایک ہوائی بات ہے۔ پیغمبر ﷺ کا کوئی ایک قول یا پیغمبر کے کسی ایک فعل کا وہاں ذکر موجود نہیں۔ تقریر و تصویب کا کوئی شائبہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن غامدی صاحب کے دعویٰ کی اٹھان دیکھیں: ’سنت صرف انھی چیزوں کو۔۔۔‘ قطعیتِ ادراک کی آخری حدوں کو چھوتا یہ جملہ خاک کے برابر بھی اطلاق نہیں رکھتا۔ سنت اگر پیغمبر کے قول و فعل اور تقریر و تصویب پر مبنی ہے، تو سارا استدلال قرآن مجید سے کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بلکہ قرآن مجید کو سنت کی روشنی میں سمجھا جانا چاہیے۔ جیسے نماز اور حج وغیرہ سنت ہیں۔ تو قرآن مجید کا متن سنت کی روشنی میں سمجھا جاتا ہے۔ یہاں گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے۔ بلکہ بہہ نہیں رہی، کذب و افتراء کے مہیب سائے تلے خشک ہو چکی ہے۔ محرماتِ طعام قرآن مجید کے احکام پر عمل کی واضح مثال ہیں۔
غامدی صاحب کا دوسرا اور آخری جملہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے مطابق عملی نوعیت کی جن چیزوں کو قرآن مجید پر عمل یا ان کی تفھیم و تبیین قرار دینا ممکن ہو، اُنھیں بھی سنت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خون، مردار، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے گئے جانوروں کی حرمت قرآن مجید کی آیات کا فہم ہے۔ دوسرے محرماتِ طعام تبیین کے دائرے میں آتے ہیں۔ پھر یہ چاروں محرماتِ طعام سنت کیسے ہو سکتے ہیں؟ غامدی صاحب نے سنت کی تعیین کے جو اصول بنائے، وہ غلط ہیں یا صحیح، اِس سے قطع نظر ان کا اطلاق (demonstrative application) ہونا چاہیے تھا۔ غامدی صاحب اگر نیک نیتی کے ساتھ اُن کا اطلاق کرتے، تو انھیں اپنی غلطی کا احساس خود ہو جاتا۔
سنت کے پانچویں اصول کے تحت لکھتے ہیں:
”پانچواں اصول یہ ہے کہ وہ چیزیں جو محض بیان فطرت کے طور پر آئی ہیں ،وہ بھی سنت نہیں ہیں، الاّ یہ کہ انبیا علیہم السلام نے اُن میں سے کسی چیز کو اٹھا کر دین کا لازمی جز بنا دیا ہو ۔کچلی والے درندوں اور چنگال والے پرندوں سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اِسی قبیل سے ہیں ۔ اِس سے پہلے تدبر قرآن کے مبادی بیان کرتے ہوئے ہم نے ’’میزان اور فرقان‘‘ کے زیر عنوان حدیث اور قرآن کے باہمی تعلق کی بحث میں بہ دلائل واضح کیا ہے کہ قرآن میں ’لَآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ،‘ اور ’اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ‘ کی تحدید کے بعد یہ اُسی فطرت کا بیان ہے،“
جو چیزیں بیانِ فطرت کے طور آئی ہے، وہ اُن چیزوں سے کس دلیل کے تحت ممتاز ہیں، جو بیانِ شریعت کے طور پر آئی ہیں؟ خود یہ دو خانہ (categories) بیانِ فطرت اور بیانِ شریعت کہاں سے ماخوذ ہیں؟ کیا جو دین شریعت میں بیان ہوا ہے، وہ فطرت نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ غامدی صاحب نے جن چیزوں کو دین سے خارج کرنا ہے، انھی کو بطور اصول بیان فرما رہے ہیں۔ وہ اِس کی تاویل فرمائیں گے کہ سب اصول اسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس امر کو دلچسپ قرار دے رہے ہیں۔ دوسری دلچسپ بات یہاں انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہے۔ غامدی صاحب کو سنت کے باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کا علم نہیں اور وہ خور و نوش کے احکامات کو قرآن مجید سے مستنبط کرتے ہیں اور دعویٰ انبیاء علیہم السلام کے اعمال کو جاننے کا کرتے ہیں۔ پھر دعویٰ کی نوعیت بھی دیکھیں کہ انبیاء علیہم السلام نے فطرت کے احکامات کو اٹھا کر دین کا مستقل جز بنا دیا ہو۔ یہاں پر جناب کو خور و نوش کے باب میں آنحضرت ﷺ کے متعلقہ اقوال و افعال اور تقریر و تصویب کاعلم نہیں۔ دعویٰ انبیاء علیہم السلام کے اعمال کو جاننے کا کرتے ہیں۔ وہ اِس اصول پر عمل پیرا ہے کہ ڈینگ مارنی ہو، تو ایسی مارو کہ پکڑی نہ جا سکے۔ نبی ﷺ کے اعمال تک محدود رہتے اور اُن کو جاننے کی کوشش کرتے، تو شاید اُن کی فکر میں ایسے مغالطہ دکھائی نہ دیتے۔
ہمارا بنیادی نکتہ یہاں غامدی صاحب کے اِس جملہ سے متعلق ہے: ”حدیث اور قرآن کے باہمی تعلق کی بحث میں بہ دلائل واضح کیا ہے کہ قرآن میں ’لَآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ،‘ اور ’اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ‘ کی تحدید کے بعد یہ اُسی فطرت کا بیان ہے.“ غامدی صاحب کے یہ الفاظ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ مذکورہ مسئلہ حدیث اور قرآن کے باہمی تعلق سے متعلق ہے، نہ کہ متواتر سنت اور خبرِ واحد سے منتقل سنت کے باہمی تعلق سے متعلق۔ اگر یہ محرماتِ طعام بقول غامدی صاحب سنت متواترہ ہیں۔ تو صورت مسئلہ سنت متواترہ اور سنت غیر متواترہ کی تطبیق کا بنتا ہے۔ نہ کہ حدیث اور قرآن مجید کی باہمی تطبیق کا، جیسا کہ غامدی صاحب نے اِسے اوپر بیان کیا ہے۔ اگر غامدی صاحب کے بقول یہ ”حدیث اور قرآن کے باہمی تعلق کی بحث“ ہے، تو پھر سنت کا دعویٰ چہ معنی دارد؟ یہ تضاد نہیں، تو کیا ہے؟ یہ تناقض نہیں، تو کیا ہے؟